Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 58
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
كَانَ : تھے النَّاسُ : لوگ اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک فَبَعَثَ : پھر بھیجے اللّٰهُ : اللہ النَّبِيّٖنَ : نبی مُبَشِّرِيْنَ : خوشخبری دینے والے وَ : اور مُنْذِرِيْنَ : ڈرانے والے وَاَنْزَلَ : اور نازل کی مَعَهُمُ : ان کے ساتھ الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : برحق لِيَحْكُمَ : تاکہ فیصلہ کرے بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ فِيْمَا : جس میں اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جنہیں اُوْتُوْهُ : دی گئی مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَا : جو۔ جب جَآءَتْهُمُ : آئے ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان ( آپس کی) فَهَدَى : پس ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لِمَا : لیے۔ جو اخْتَلَفُوْا : جو انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں مِنَ : سے (پر) الْحَقِّ : سچ بِاِذْنِهٖ : اپنے اذن سے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف راستہ صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور آپ ﷺ اس { حَییٌّ وَ قَیُّوْمُ } پر بھروسہ رکھیے جسے کبھی موت نہیں اور اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہیے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر رہنے کو کافی ہے
اپنے رب پر بھروسہ رکھئے جو ” حی لا یموت “ ہے : 58۔ ” آپ اس حی وقیوم پر بھروسہ رکھئے جو کبھی نہیں مرے گا “ مطلب واضح ہے کہ اگر ان کافروں کو اپنی تعداد کی کثرت ‘ اپنے وسائل کی بہتات اور اپنے دوستوں کی امداد پر بھروسہ ہے تو کیا ہوا یہ سب چیزیں تو فانی ہیں ‘ ان میں آخر کونسی چیز ہے جس کو بقا حاصل ہے ۔ آپ ﷺ اس پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور جس کو کبھی موت نہیں آئے گی اور جس کا معین و مددگار اللہ تعالیٰ ہو یقینا ایک روز فتح ونصرت اس کے قدم چومے گی اور بلاشبہ نفع ونقصان کا خود مالک ہے ” اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہئے ، “ کیونکہ یہی دراصل حصول صبر و توکل علی اللہ کا وسیلہ ہے بلاشبہ باقی سب وسیلے فانی ہیں لیکن افسوس کہ لوگ فانی وسیلوں کی تلاش میں خاک چھانتے پھرتے ہیں اور اصل وسیلہ کی طرف جس کو کبھی فنا نہیں اس کی طرف کسی کو دھیان ہی نہیں جاتا ۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے وقت اچھی طرح خیال رکھو کہ جہاں کہیں بھی نبی اعظم وآخر ﷺ کو صبروتوکل کی تلقین فرمائی گئی ہے وہاں زیادہ سے زیادہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہنے اور اہتمام صبر وصلوۃ ہی کی تلقین فرمائی گئی ہے ” وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر رہنے کو کافی ہے “ اس طرح آپ ﷺ کو فرمایا جا رہا ہے کہ اپنے مخالفین ومعاندین کا معاملہ رب العزت ہی کے سپرد کر دو وہ ان کے تمام جرائم سے پوری طرح باخبر ہے اور جب وہ ہر بات کی خبر رکھتا ہے تو ان کے ساتھ وہی کرے گا جس کے وہ سزاوار ہیں ۔ زیر نظر آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات پر ان لوگوں کو بھی غور کرنا چاہئے جو ” عبد دیگر اور عبدہ دیگراست “ کے چکر میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے برباں سے برباں دل لوگوں کی بندگی کی نسبت بھی اپنی طرف ہی کرتا ہے کیونکہ وہی ہے جو ہر ایک کا خالق ومالک ہے اور ہی سب کاملجاوماوی ہے اور نیک وبد سب اس کے بندے ہیں ۔
Top