Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 17
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ
اَلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے وَالْقٰنِتِيْنَ : اور حکم بجالانے والے وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور خرچ کرنے والے وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ : اور بخشش مانگنے والے بِالْاَسْحَارِ : سحری کے وقت
یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں
17۔ (الصابرین والصادقین، صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے) یہ دونوں منصوب ہیں علی المدح یا تو صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں ، عبارت یوں بنے گی ” الصابرین فی اداء الاوامر “ اللہ کے حکم کردہ امور پر عمل کرنے میں جو مشقت پہنچتی ہے اس پر صبر کرنا اور نہی (منع کردہ امور) کے ارتکاب سے بچنا اور تنگی و تکلیف کے وقت صبر کرنا اور اپنی قسموں میں سچے ، قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد کہ وہ اپنی نیت میں سچے اور ان کے دل استقامت والے اور اس پر ان کی زبان تصدیق کرتی ہے پوشیدہ اور ظاہرا بھی (والقانتین اور حکم بجا لانے والے ) اطاعت کرنے والے اور نماز پڑھنے والے (والمنفقین اور خرچ کرنے والے) اور اپنے اموال کو اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنے والے (والمستغفرین بالاسماء اور بخشش مانگنے والے رات کے پچھلے حصہ میں) مجاہدرحمۃ اللہ علیہ قتادہ (رح) اور کلبی (رح) فرماتے ہیں سحری کے وقت نماز پڑھنے والے مراد ہیں ۔ (مستغفرین بالاسحار کی تفصیل) زید بن اسلم ؓ نے کہا کہ صبح کی نماز جماعت سے پڑھنے والے مراد ہیں ۔ اور بعض نے کہا کہ تہجد کی نماز پڑھنے والے کیونکہ یہ بھی صبح کے قریب ہوتی ہے ، حسن (رح) فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت تک عبادت کرنا پھر استغفار کرنا ، نافع (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عمر ؓ رات کو زندہ کرتے تھے پھر فرمایا اے نافع کیا سحری ہوگئی ، میں نے کہا کہ نہیں پھر وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگے گئے جب نافع (رح) نے کہا کہ سحری ہوگئی تو آپ ؓ بیٹھ جاتے اور کثرت سے استغفار کرتے اور دعا مانگتے رہتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ۔ (اللہ تعالیٰ ہر روز سحری کے وقت آسمان دنیا پر اجلال فرماتا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں رات کے تیسرے حصے میں اور کہتے ہیں کہ میں بادشاہ ہوں کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں ، کون ہے جو مجھ سے گناہوں کی معافی مانگے میں اس کو معاف کرو ، حسن (رح) سے حکایت ہے کہ لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ اسے میرے بیٹے تو اس مرغ سے زیادہ عاجز نہ ہو جو سحری کے وقت آواز دیتا ہے اور تو سوتا رہے ۔
Top