Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 17
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ
اَلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے وَالْقٰنِتِيْنَ : اور حکم بجالانے والے وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور خرچ کرنے والے وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ : اور بخشش مانگنے والے بِالْاَسْحَارِ : سحری کے وقت
صبر کرنیوالے نہایت ہی سچے لوگ ، خشوع و خضوع کرنے والے ، نیکی کی راہ میں خرچ کرنے والے اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے اور اس کی مغفرت طلب کرنے والے
نیک لوگ ہی دراصل صبر کرنے والے ہیں : 42: ” وہ صبر کرنے والے ہیں “ صبر کی حقیقت یہ عوام و خواص کی غلط فہمی نے تو پردے ڈال رکھے ہیں الاماشء اللہ۔ صبر اکثر لوگوں کے نزدیک بےبسی و بےکسی کی تصویر ہے اور اس کے معنی اپنے دشمن سے کسی مجبوری کے سبب سے انتقام نہ لے سکنا ہے۔ لیکن کیا واقعہ یہ ہے ؟ صبر کے لغوی معنی ” روکنے “ اور ” سہارنے “ کے ہیں یعنی اپنی نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور اس کو اپنی جگہ پر ثابت قدم رکھنا اور یہی صبر کے معنوی حقیقت بھی ہے یعنی اس کے معنی بےاختیاری کے خاموشی اور انتقام نہ لے سکنے کی مجبوری کے نہیں بلکہ پامردی ، دل کی مضبوطی ، اخلاقی جرات اور ثبات قدم کے ہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی جو خضر کے نام سے معروف ہیں کہ قصہ میں ایک ہی جگہ میں تین بار یہ لفظ آیاے اور ہر بار یہی معنی مراد ہیں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کہتے ہیں : اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِىَ صَبْرًا . وَكَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا . ” موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی نے کہا مگر تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے۔ جو بات تمہاری سمجھ کے دائرہ سے باہر ہے تم دیکھو اور صبر کرو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فرمایا : قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا (الکہف 18 : 69) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر خدا نے چاہا تو تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ اس صبر سے مقصود لا علمی کی حالت میں غیر معمولی واقعات پیش آنے سے دل میں اضطراب اور بےچینی کا پیدا نہ ہونا ہے۔ کفار اپنے پیغمبروں کے سمجھانے بجھانے کے باوجود پوری تندہی اور مضبوطی کے ساتھ اپنی بت پرستی پر قائم رہتے ہیں تو اس کی حکایت ان کی زبان سے قرآن کریم اس طرح کرتا ہے : اِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْ لَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَا 1ؕ (الفرقان 25 : 42) ” اگر تم اپنے معبودوں کی عبادت پر مضبوطی سے جمے نہ رہتے تو اس نے ہمیں ہمارے معبودوں سے گمراہ کر کے چھوڑ دیا ہوتا۔ “ یعنی اگر ہم اپنے مذہب پر مضبوط اور ثابت قدم نہ رہتے۔ ” اَنْ صَبَرْنَا “ اور یہی مفہوم ہے اس آیت میں کہ : اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰى اٰلِھٰتِكُمْ. (صٓ 38 : 6) ” یہ کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔ “ قرآن کریم میں صبر کا لفظ اس ایک معنی میں مستعمل ہوا ہے گو حالات کے تغیر سے اس کے مفہوم میں کہیں کہیں ذرا ذرا فرق پیدا ہوگیا ہے بایں ہمہ ان سب کا مرجع ایک ہی ہے یعنی ثابت قدمی اور استقامت صبر کے یہ مختلف مفہوم ہیں جن میں قرآن کریم نے اس کو استعمال کیا ہے درج ذیل ہیں۔ 1: ایک یہ ہے کہ ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر اور اپنے مقصد پر جمے رہ کر کامیابی کے وقت کا انتظار کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے جب شروع میں لوگوں کے سامنے توحید کی دعوت اور اسلام کی تبلیغ پیش کی تو عرب کا ایک ایک ذرہ گویا آپ ﷺ کی مخالفت میں سرگرم جولان ہوگیا۔ ہر طرف سے عداوت اور دشمنی کے مظاہرے ہونے لگے اور گوشہ گوشہ سے قدم قدم پر مخالفتیں اور رکاوٹیں پیش کی جانے لگیں تو اس وقت بشریت کے اقتضاء سے آپ کو اضطراب ہوا اور کامیابی کی منزل ابھی ویسے دور تھی اور دور ہی نظر آنے لگی۔ اس وقت تسلی کا یہ پیغام آیا کہ اضطراب اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں۔ آپ ﷺ مستعدی سے اپنے کام میں لگے رہیں۔ اللہ آپ ﷺ کا نگہبان ہے اس کا فیصلہ یقیناً اپنے وقت پر آئے گا چناچہ ارشاد ہوا : وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا . ” اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ اپنے رب کے فیصلہ آنے تک صبر سے کام لیجیے۔ آپ ہماری نگاہ میں ہیں۔ “ (الطور 52 : 48 ) 2: صبر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مصیبتوں اور مشکلوں میں اضطراب اور بےقراری نہ ہو بلکہ ان کو اللہ کا حکم اور مصلحت سمجھ کر خوشی خوشی جھیلا جائے اور یقین رکھا جائے کہ جب وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے خود ان کو دور فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مدح فرمائی ہے۔ جیسے ارشاد ہوا : وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ (الحج 22 : 35) ” جو لوگ ہر طرح کی مصیبتوں میں صبر کرنے والے ہیں یعنی برداشت کرنے والے ہیں۔ “ 3: صبر کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ منزل مقصود کی راہ میں جو مشکلیں اور خطرے پیش آئیں۔ دشمن جو تکلیفیں پہنچائیں اور مخالفین جو طعن وتشنیع کریں ان میں سے کسی چیز کو بھی خاطر میں نہ لایا جائے اور ان سے بد دل اور پست ہمت ہونے کی بجائے اور زیادہ استقلال اور استواری پیدا ہو۔ بڑے بڑے کام کرنے والوں کی راہ میں یہ روڑے اکثر اٹکائے گئے مگر انہوں نے استقلال اور مضبوطی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور کامیاب ہوئے۔ نبی کریم ﷺ کو اس لیے دوسری وحی میں جب تبلیغ و دعوت کا حکم ہوا تو ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی آپ ﷺ کو باخبر کردیا گیا۔ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ001… وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرْؕ007 ” اے چادر اوڑھ کر سونے والے اٹھ پھر لوگوں کو ڈرا……… اپنے رب کے پاس پامردی یعنی صبرو استقامت کر۔ “ (المدثر 74 : 1۔ 7) 4: صبر کا چوتھا مفہوم یہ ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی کو نظر انداز اور جو بدخواہی سے پیش آئے اور تکلیفیں دے اس کے قصور کو معاف کیا جائے یعنی تحمل اور برداشت میں اخلاقی پامردی دکھائی جائے۔ قرآن کریم کی کئی آیتوں میں صبر اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا : وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ 1ؕ وَ لَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ 00126 وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ 00127 (النحل 16 : 126 ، 127) ” اور مخالفین کی سختی کے جواب میں سختی کرو تو چاہیے کہ ویسی ہی اور اتنی ہی کرو جیسی تمہاری ساتھ کی گئی ہے اور اگر تم نے صبر کیا یعنی جھیل گئے اور سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی بہتر ہے۔ اے پیغمبر اسلام ! صبر کر ، تیرا صبر کرنا نہیں ہے مگر اللہ کی مدد سے اور ان لوگوں کے حال پر غم نہ کھا اور نہ ہی ان کی مخالفانہ تدابیر سے دل تنگ ہو۔ “ 5: صبر کا پانچواں مفہوم لڑائی پیش آجائے کی صورت میں میدان جنگ میں بہادرانہ استقامت اور ثابت قدمی ہے قرآن کریم نے ان الفاظ کو اس مفہوم میں بارہا استعمال کیا ہے اور ایسے لوگوں کو جو اس وصف سے متصف ہوئے صادق القول اور راست باز ٹھہرایا ہے کہ انہوں اللہ سے وعدہ کیا تھا سو اس وعدہ کو پورا کیا۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ : وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا 1ؕ (البقرہ 2 : 177) ” تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے اپنی راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہوئے جو نیکی کی راہ میں سچے ہوئے اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے انسان ہیں۔ “ یہی لوگ ہیں جو دل کے سچے ہیں : 43: نہایت ہی سچے لوگ صدق کیا ہے ؟ صدق کذب کی ضد ہے اس کے معنی ہیں دل و زبان کی ہم آهنگی اور بات کا نفس واقعہ کے مطابق ہونا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں یا تو وہ بات صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی یا دو مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی۔ مثلاً ایک کافر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ ﷺ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق یعنی سچ بھی کہه سکتے ہیں اور اس کے دل اور زبان کے ہم آهنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب یعنی جھوٹ بھی کہ سکتے ہیں ” الصدیق “ بہت ہی سچ بولنے والا۔ بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ صدق اسے کہتے ہیں جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔ جھوٹ کسی قسم کا بھی ہو وہ جھوٹ ہی ہے لیکن سب سے بڑا اور برا جھوٹ وہ افتراء ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق باندھا جائے۔ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے ؟ جبکہ اسے حق کی طرف دعوت دی جائے اور اس افتراء و کذب سے مراد اس کا لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرنا ہے ؟ یا وہ کہے کہ اس پر وحی آتی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آتی ہو ؟ اور جو یہ کہے کہ میں بھی ایسا ہی قرآن اتاروں گا جیسا اللہ نے اتارا ہے یقیناً ایسا شخص سب سے بڑا ظالم ہے اور اس کے برعکس اس شخص سے بڑا سچا اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ آیات کی فوراً تصدیق کر دے ؟ جب اس کو اللہ کے رسول کی طرف سے دعوت دی جائے تو فوراً قبول کرلے۔ لوگوں کو علم و حکمت کی باتیں سکھائے۔ اچھے اعمال کرے اور دوسروں کو کرنے کا حکم دے۔ وحی الٰہی کے مقابلہ میں کسی پیشوا کے کلام کو کوئی وقعت نہ دے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآن کریم کو اللہ کی طرف سے آخری ہدایت کی کتاب تسلیم کرے اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت پر سچا ایمان لائے۔ ایسے سچے لوگ بحکم الٰہی اس دنیا میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو ان شاء اللہ دونوں جہانوں میں سرخرو ہوں گے۔ یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں : 44: ” نیکی کی راہ میں خرچ کرنے والے “ یہ اس جگہ متقین کی تیسری صفت بیان کی جارہی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو راہ خدا میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ جو کچھ کماتے ہیں اس کمائی میں غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، ناداروں ، مسافروں اور محتاجوں کو برابر کا شریک سمجھتے ہیں۔ خصوصاً ان لوگوں کو جو ان کے رشتہ دار بھی ہوں تو ان کی مدد کے لیے وہ ہمہ وقت تیار موجود ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ ہر لنگڑے ، لولے ، ادھے ، بوڑھے ، کوڑھی ، مفلوج اور دسورے معذور لوگوں کی امداد کی جائے۔ نادار ، یتیموں ، بیواؤں اور ان لوگوں کی خبر گیری کی جائے جو اپنی کوشش اور جدوجہد کے باوجود روزی کا صحیح سامان نہیں کر پاتے۔ یہ وہ مصارف ہیں جو تقریباً ہر قوم و مذہب میں ضروری سمجھے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان مستحقین کی یہ قابل افسوس حالت خود کسی مزید تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ اللہ والوں کی سینکڑوں ایسی داستانیں ملتی ہیں کہ وہ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے سے وہ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ اتنی خوشی و خود کھا کر بھی حاصل نہیں کرتے۔ خود رسول اللہ ﷺ کی یہی حالت یھ کہ سوالی آیا اور جو کچھ موجود ہے کھانے پینے کے سامان سے اٹھا کر سارے کا سارا اس کو دے دیا اور اتنی خوشی و فرحت حاصل ہوئی کہ خود نہ کھا کر بھوک کا احساس تک نہ کیا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس لیے کہ قرآن کریم نے نیک لوگوں کی پہچان ہی ایسی مقرر فرمائی تھی چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ. (آل عمران 3 : 92) ” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔ “ اس سے مقصود کیا ہے ؟ مقصود ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے جو وہ ” نیکی “ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصور بس یہ تھا کہ صدیوں کے تو ارث سے ” تشریح “ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اتار لے اور علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹے ضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے جس سے رائے عامہ ان کو نیک سمجھتی رہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے انہیں بتایا جارہا ہے کہ ” نیک انسان “ ہونے کا مقام ان چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیروصلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل روح خدا کی محبت ہے ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے اللہ کی محبت پر قربان نہ کرسکتا ہو۔ بس وہی بت ہے اور جب تک اس بات کو آدمی نہ توڑ دے نیکی کے دروازے اس پر بند ہی رہیں گے۔ اس روح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری ” تشرع “ کی حیثیت محض اس چمک دار روغن کی سی ہے جو گھن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو ہاں ! بلاشبہ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتا ہے مگر وہ بذات الصدور ذات ہرگز ہرگز دھوکا نہیں کھا سکتی۔ اللہ والوں کی داستانیں بھی بڑی عجیب ہیں ” لَنْ تَنَالُوا “ آیت کے نزول سے سچے عاشقان رسول ﷺ کے ایک ایک فرد نے اپنی محبوب سے محبوب چیزوں پر نظر ڈالی اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ کے سامنے درخواستیں ہوئے لگیں۔ اس وقت انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار حضرت ابو طلحہ ؓ تھے۔ مسجد نبوی ﷺ کے بالکل مقابل اور متصل ان کا باغ تھا جس میں ایک کنواں بیئر حاء کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ گویا آج کل کے حساب سے باب مجیدی کے سامنے ایک عمارت بنی ہوئی ہے لیکن اس کے شمال مشرقی گوشہ میں یہ بیئر حاء کی جگہ اس نام سے اب تک موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیئر حاء کا پانی پیتے تھے۔ آپ ﷺ کو اس کنوئیں کا پانی بہت ہی پسند تھا۔ حضرت طلحہ ؓ کا یہ باغ بڑا قیمتی اور زرخیز تھا اور ان کو اپنی جائیداد میں یہ سب سے زیادہ عزیز تھا۔ اس آیت کے نزول پر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے تمام اموال میں بیئر حاء مجھے بہت محبوب ہے۔ میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو صرف فرمالیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تو عظیم الشان منافع کا باغ ہے میں مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو تم اپنے اقرباء میں تقسیم کر دو ۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق عمل کیا (صحیح بخاری) اور اس طرح کے بیسیوں واقعات بخاری و مسلم اور دیگر احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتقاء کا سبق ان صحابہ کرام ؓ ہی سے ہم سیکھ سکتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو صبح خیزی کی عات ہے : 45: ” رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے “ صبح خیزی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ نماز تہجد کے لیے صبح صادق سے پہلے اٹھا جائے اور رات کی تاریکی میں چپکے چپکے اللہ کی یاد میں غور و فکر اور گہرے تدبر کے ساتھ قیام کیا جائے جس میں قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔ ایک ہی آیت کو بار بار سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ ایک ہی سورت کو بار بار دہرایا جائے جس میں ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت کا مفہوم سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا عہد و پیمان اپنے رب کریم سے باندھا جائے اور یہ سب کچھ اس طرح خاموشی اور آهستگی سے کیا جائے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ سوئے ہوؤں کو ہرگز بیدار اور بیزار نہ کیا جائے۔ ہاں ! اگر کوئی خود بیدار ہونا چاے یہ دوسری بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی نماز زہے قسمت کہ کسی کو نصیب ہو۔ صبح خیزی کی دوسری صورت یہ ہے کہ ” الصلٰوة خیر من النوم “ کی صدا کانوں میں پڑتے ہی بسر چھوٹ جائے۔ رات کی تاریکی ، سردی کی رات کی ٹھنڈک اور گرمی کی رات کی کم خوابی اس کو بیدار ہونے سے ہرگز مانع نہ ہو۔ اگر آپ غور کریں گے تو طب اور حفظان صحت کے اصول سے بھی رات کو جلدی سونا اور صبح طلوع فجر کے ساتھ ہی بیدار ہونا جس درجہ ضروری ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ اس اصول کے خلاف ورزی کبھی نہیں کرسکتے۔ جب تک رات کو وقت پر سویا نہ جائے گا صبح کو وقت پر آنکھ نہیں کھلے گی اس لیے نبی کریم ﷺ نے رات کو نماز عشاء کے بعد بےکار باتیں کرنے سے اور قصہ کہانی سے منع فرمایا ہے تاکہ وقت پر سونے سے وقت پر آنکھ کھل سکے اور صبح خیزی مسلمانوں کی عادت ہوجائے جو ان کو بےتابانہ اپنے خواب بستر سے اٹھا دے اور ان ہی لوگوں کے لیے رسول اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص عشاء کی نماز باجماعت ادا کر کے سو جائے اور صبح کی نماز باجماعت اٹھ کر ادا کرے گویا اس نے ساری رات کا قیام پا لیا۔ کتنی رعایت ہے ان لوگوں کے لیے جو سارا دن مزدوری میں بسر کرتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر تہجد ادا کرنے سے قاصر ہیں وہ اگر چاہیں تو ساری رات کے قیام کا ثواب مصف میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ کے نیک بندے ہمیشہ اس طرح کی عادت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی رحمت بےپایاں کو حاصل کرتے ہیں اور اس سے مغفرت طلب کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔
Top