Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 18
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا١ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ
قَدْ يَعْلَمُ : خوب جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُعَوِّقِيْنَ : روکنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالْقَآئِلِيْنَ : اور کہنے والے لِاِخْوَانِهِمْ : اپنے بھائیوں سے هَلُمَّ : آجاؤ اِلَيْنَا ۚ : ہماری طرف وَلَا يَاْتُوْنَ : اور نہیں آتے الْبَاْسَ : لڑائی اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو (لوگوں کو) منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ اور لڑائی میں نہیں آتے مگر کم
18، قد یعلم اللہ المعوقین منکم، وہ منافق جو لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دینے اور ہمراہ رہنے سے روکتے تھے۔ ، والقائلین لا خوانھم ھلم الینا، وہ کہتے کہ ہماری طرف آجاؤاور محمد (ﷺ) کو چھوڑ دوان کے ساتھ جنگوں میں شریک نہ ہو، ہم کو تمہارے مارے جانے کا اندیشہ ہے ۔ قتادہ کا بیان ہے کہ یہ لوگ منافق تھے جو انصار کو رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دینے سے روکنے تھے اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی گوشت کی طرح ہیں۔ ابوسفیان اور ان کے ساتھی ان کو لقمہ بنالیں گے۔ یہ شخص تو تباہ ہونے والا ہی ہے اس کو چھوڑدو۔ مقاتل کا بیان ہے کہ یہود یوں نے منافقین کے پاس پیغام بھیجا اور کہا تم ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ سے اپنے آپ کو کیوں قتل کرانا چاہتے ہو، اس بار اگر ابوسفیان اور اس کے ساتھی قابو پاگئے تو ہم سے ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے تم لوگ ہمارے بھائی ہو ہمارے ہمسائے ہو ہم کو تمہارے متعلق اندیشہ ہے ہمارے ساتھ آملو۔ یہ پیغام سن کر عبد اللہ بن ابی بن ابی اپنے ساتھیوں کو لے کر مؤمنوں کی طرف متوجہ ہوا ان کو شرکت جنگ سے روکنے لگا اور ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا خوف مسلمانوں کے دلوں میں بٹھا نے لگا ان منافقوں نے مسلمانوں سے کہا ، اگر ابوسفیان وغیرہ نے تم پر قابوپالیا تو تم میں سے ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے تم کو محمد (ﷺ) سے کیا الالچ ہے ان کے پاس تو خیر نہیں ہے۔ بس وہ تو تم کو قتل کرانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ مل کر ہمارے بھائیوں یعنی یہودیوں کے پاس چلے جاؤ، منافقوں کے اس اغواء سے مسلمانوں کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آئی بلکہ ایمان کی پختگی اور ثواب کی امید اور بڑھ گئی۔ اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ، ولا یا تون الباس، با س مراد جنگ ہے۔ ، الا قلیا ، مگر تھوڑے سے وہ بھی ریا اور دکھا وے کیلئے اگر یہ قلیل بھی اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوجاتے تو کثیر ہوجاتے۔
Top