Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 130
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا١ؕ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ
يٰمَعْشَرَ : اے گروہ الْجِنِّ : جنات وَالْاِنْسِ : اور انسان اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئے تمہارے پاس رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : سناتے تھے (بیان کرتے تھے) عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِيْ : میرے احکام وَيُنْذِرُوْنَكُمْ : اور تمہیں ڈراتے تھے لِقَآءَ : ملاقات (دیکھنا) يَوْمِكُمْ : تمہارا دن ھٰذَا : اس قَالُوْا شَهِدْنَا : وہ کہیں گے ہم گواہی دیتے ہیں عَلٰٓي : پر (خلاف) اَنْفُسِنَا : اپنی جانیں وَغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَشَهِدُوْا : اور انہوں نے گواہی دی عَلٰٓي : پر (خلاف) اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے) اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ : کفر کرنے والے تھے
اللہ فرمائیگا اے جنوں اور انسان کی جماعت کیا نہیں آئے تھے تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کرتے تھے تم پر میری آئتیں اور ڈراتے تھے تم کو اس دن کی ملاقات سے ، تو کہیں گے وہ (جواب میں) ہم گواہی دیتے ہیں اپنے نفسوں پر (کہ ہم مجرم ہیں) اور دھوکہ دیا ان کو دنیا کی زندگی نے اور وہ گواہی دیں گے اپنے نفسوں پر بیشک وہ کفر کرنے والے تھے
گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کے ملف ہونے کا ذکر کیا اور قیامت کو جزائے عمل کا حال بیان کیا۔ اور اس سلسلے میں قیامت میں پیش آنے والے سوال و جواب کا تذکرہ کیا۔ قرآن کریم میں ایسے واقعات سے مشرکوں اور کافروں کی تنبیہ مراد ہے تاکہ اگر وہ بچنا چاہیں تو بچ سکیں۔ گذشتہ آیات میں جنوں سے خطاب تھا کہ سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ ملالیا ہے ، تو انسان بھی اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہم میں سے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا۔ جنات نے اپنی سیادت قائم رکھی اور اپنی بات انسانوں سے منوائی جب کہ انسان نے باطل عقائد اور باطل اعمال پر خوشی کا اظہار کیا اور انہی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر جب وہ اپنی مدت تک پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اب تمہارا ٹھکانا جہنم میں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ظالموں کو ایک دوسرے کے قریب کر دے گا۔ اور جو لوگ اس دنیا میں ظلم وتعدی کرتے ہیں ان کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ دوسرے ظالموں کو ان پر مسلط کردیتا ہے۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا یمعشر الجن والانس اے جنوں اور انسانوں کے گروہ الم یاتکم رسل منکم کیا نہیں آئے تھے تمہارے پاس رسول تم میں سے یقصون علیکم ایتہی جو تم پر میری آیتیں بیان کرت تھے وینذر ونکم لقاء یو مکم ھذا اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب جنات اور انسانوں دونوں گروہوں سے ہوگا کیونکہ دونوں ہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند یعنی مکلف ہیں۔ اللہ فرمائیگا کیا میرے رسولوں نے تمہیں نہیں بتایا کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور وہاں پر اعمال کی باز پُرس بھی ہوگی۔ اس کے جواب میں تمام جن اور انسان کہیں گے قالو شھد نا علی انفسنا ہم اپنے نفسوں پر گواہی دیتے ہیں ، کہ اے مولا کریم ! بلا شبہ تیرے رسول ہماریپ اس آئے۔ انہوں نے ہمیں سمجھایا ، تبلیغ کی ، مگر ہم ہی قصور وار ہیں کہ ہم نے ان کی باتوں پر دھیان نہ دیا جسکی وجہ سے آج مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ مفسرین کرام اس بارے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ جنات کے پاس بھی اللہ کے رسول آئے ہیں انہیں۔ انسانوں میں رسولوں کی آمد تو یقینی ہے کہ حجرت آدم علیہ اسلام سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺ تک ہزاروں انبیاء اور رسل اللہ نے بھیجے۔ ان پر کتابیں اور صحیفے بھی نازل فرمائے ، بعض کو مستقل شریعت دی اور بعض کو مستقل کتاب و شریعت عطا نہیں کی۔ البتہ جنات کے بارے میں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر منکم کی ضمیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جنوں میں بھی رسول آتے رہے ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ جنات میں رسول نہیں آتے رہے بلکہ صرف منذر آتے رہے ہیں جو ان کو آخرت کے انجام سے ڈراتے تھے اور خبر دار کرتے تھے۔ اور یہ انسانی دور سے قبل کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کے توسط سے جنوں کی طرف اپنے منذر بھیجتا رہا۔ مگر مستقل رسول نہیں بھیجے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ اسلام کے واقعہ میں زکر فرمایا ہے کہ آپ ایک مقام پر نماز میں تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے تو وہاں جنات کا ایک گروہ آیا ، انہوں نے قرآن سُنا اور ایمان لائے ” ولوا الی قومھم منذرین “ (احقاف) پھر وہ اپنی قم کی طرف منذر یعنی ڈرانے والے بن کر گئے۔ انہوں نے جو کچھ سنا تھا ، اپنی قوم جنات میں اس کی تبلیغ کی۔ بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جنوں میں بھی رول آتے رہے ہیں ، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “ (بنی اسرائیل) ہم کسی قوم کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے۔ جب تک ان میں رسول نہ بھیج لیں۔ جنات کے لیے یہی اصول ہے لہٰذا اگر جنات میں بھی رسول آئے ہوں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ البتہ یہ ہے کہ انسانی دور سے پہلے جنات میں رسولوں کا آنا زیادہ قرین قیاس ہے اس کے بعد مستقل رسول نہیں آئے۔ اب جنات انسانوں کے تابع ہیں۔ ان میں بھی کافر ، مشرک اور مومن ہیں۔ جس طرح انسانوں میں مختلف فرقے ہیں۔ اسی طرح جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تفسیر مظہری مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کی دس جلدوں میں مشہور تفسیر ہے جو کہ آپ نے اپنے پیر و مرشد خواجہ مظہر جان جانان شہید (رح) کے نام پر منسوب کی۔ آپ عالم گیر (رح) کے خالہ زاد بھائی اور اپنے زمانے کے بڑے بزرگ اور اولیاء اللہ میں سے تے ، آپ کو شیعوں نے شہید کیا تھا۔ تو حضرت پانی پتی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ ہندومت میں نبوت و رسالت کا کوئی تصور نہیں ، البتہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا تو چار آدمیوں کو منتخب کر کے ان کو چار کتابیں عطا کردیں۔ یہ کتابیں رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے کار آمد رہیں گی۔ ان کتابوں کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں آئیگی۔ یہ کتابیں ان کے چار مشہور وید ہیں مگر انکی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی کہ یہ کب نازل ہوئیں ، بعض ان کا نزول ہزاروں سال پہلے بتاتے ہیں اور بعض اس مدت کو لاکھوں سال پر محمول کرتے ہیں۔ قاضی ثناء اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ چار کتابیں جنات کے صحیفے ہوں جو انسانی دور سے پہلے جنات کی طرف نازل کیے گئے اور جنات کے ذریعے یہ انسانوں تک بھی پہنچے۔ فرماتے ہیں کہ بعض انسان جنوں کے ساتھ نسل میں بھی وابستہ ہیں۔ بعض جنیوں کا نکاح انسانوں کے ساتھ ہوا ، ان سے اولاد بھی پیدا ہوئی اور اس طرح یہ چار کتابیں جنوں سے انسانوں تک پہنچیں۔ یہ محض خیال ہے ، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بہر حال ان کتابوں میں جو باتیں قرآن و سنت کے مطابق ہیں۔ وہ قابل قبول ہیں ، اور جو قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتیں ، انہیں شیطانی عمل دخل سمجھا جائے گا۔ تو رات و انجیل کے متعلق بھی یہی نظریہ ہے۔ قاضی صاحب نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے ایسی بات ہوتا ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جب لوگ اپنے گنہگار ہونے کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے وغرتھم الحیۃ الدنیا اُن ک دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کیا ، قیامت کا انکار کیا۔ غلط کاروں کے پیچھے چلتے رہے۔ سچے لوگوں کی بات کو تسلیم نہ کیا ، ایمان سے محروم رہے ، دنیا کی ظاہری شان و شوکت میں محور رہے اور اسی کو اول و آکر سمجھ لیا ، چناچہ زندگی کے انہی لوازمات نے انہیں دھوکے میں ڈال دیا۔ اکثر لوگ اسی طرح دنیا کے دھوکے میں آتے رہے ہیں حالانکہ انبیاء علیہ اسلام انہیں بار بار تنبیہ کرتے رہے ہیں۔ لاتغرنکم الحیۃ الدنیا (فاطر) دیکھنا تمہیں دنیا کی زندگی کہیں د ھوکے میں نہ ڈال دے۔ بہر حال اللہ رب العزت کے دربار میں لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے وشھدواعلی انفسھم اور اپنے خلاف جو گواہی دیں گے انھم کانو ا کفرین کہ بیشک وہ کفر کیا کرتے تھے۔ انبیاء کی تعلیم کا انکار کیا ، دنیا کی لذت و شہوات میں مگن رہے وار احکم الحاکمین کے حکم کی پروانہ کی۔ حشر کا دن بہت لمبا دن ہوگا اور اس میں مختلف قسم کے مواقع آئیں گے بعض مواقع ایسے بھی آئیں گے کہ جب کفار و مشرکین سے باز پرس ہوگی کہ تم نے ایسا کام کیوں کیا تو وہ انکار کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ مگر بعض مواقع پر اپنے جرموں کا صاف طور پر اقرار بھی کریں گے اور عرض کریں گے کہ باری تعالیٰ اگر ہمیں ایک دفعہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو ہم تیرے فرمانبردار بندے بن کر رہیں گے اور کوئی غلط کام نہیں کریں گے مگر اللہ فرمائیگا کہ اب کسی کو موقع نہیں دیا جائے گا۔ اس آیت میں جس بات کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں بھی مجرم لوگ اپنے جرم کا اعتراف کریں گے کہ بیشک وہ دنیاں میں کفر ہی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ پہلے و ہ انسان کی راہنمائی کے لئے پورے وسائل مہیا کرتا ہے ، انبیاء کو معبوث فرماتا ہے ، کتاب اور شریعت نازل فرماتا ہے اور پھر اس پر ایمان لانے اور عمل کر نیکی مہلت دیتا ہے اس کے بعد اگر کوئی قوم اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتی ہے تو پھر وہ ان کو سزا میں مبتلا کرتا ہے۔ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” ذلک ان لم یکن ربک مھلک القری بظلم واھلھا غفلون “ تیرا پروردگار بستیوں کے رہنے والوں کو ظلم کے ساتھ تو ہلاک نہیں کرتا جب کہ وہ غافل ہوں۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بلا اطلاع اور پہلے سے تنبیہ کیے بغیر سزا میں مبتلا نہیں کرتا۔ پہلے وہ تبلیغ و انذا کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے ۔ رسولوں کو بھیجتا ہے ، مبلغین خبردار کرتے ہیں ل اس کے باوجود اگر وہ راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ فرمایا ولکل درجت مما عملو ہر شخص کے اعمال کے مطابق اس کا درجہ ہے۔ عمل جتنا اچھا اور زیادہ ہوگا ، اسی کے مطابق اعلیٰ سے اعلیٰ جزأ ملے گی۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جنت کے سو درجات ہیں اور ان میں سے ہر درجہ دوسرے درجے سے اتنا بلند ہے جتنا زمین سے آسمان بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنیوالوں کو اعلیٰ درجات عطا کرتا ہے اس کے برخلاف جس شخص کا جتنا بڑا جرم ہوگا۔ اس کو اسی کے مطابق کم یا زیادہ سزا دی جائیگی۔ اسی لیے فرمایا کہ ہر ایک کے لیے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہیں۔ وما ربک بغافل عما یعملون اور آپ کا رب غافل نہیں ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال سے خوب واقف ہے اور ان اعمال کے مطابق ہی جزا یا سزا کے درجات مقرر کریگا ۔ فرمایا انبیاء کی بعث ار کتب کے نزول کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری عبادت و ریاضت کا محتاج ہے وربک الغنی بلکہ تیرا رب تو بےنیاز ہے ، اسے کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں ، کوئی نیکی کرتا ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ اس سے بےپروا ہے۔ وہ تو ذوالرحمۃ رحمت والا ہے وہ اپنی رحمت اور مہربانی سے انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجتا ہے اور کتابیں نازل فرماتا ہے تاکہ لوگ ہدایت کے راستے پر گامزن ہو کر اپنے نفع اور نقصان کو پہنچا لیں اور نقصان سے بچ جائیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کا سامان مہیا کردیا ہے وگرنہ وہ کسی کی نیکی کا محتاج نہیں ہے ، نہ ہی کسی کی برائی کرنے سے اس پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ وہ تو بےنیاز ہے۔ فرمایا ان یشا یذھبکم اگر وہ چاہے تو تم کو لے جئے یعنی تمہیں اس دنیا سے نابود کر دے ویستخلف من م بعد کم مایشاء اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے قائم کر دے۔ اور یہ اسی طرح ممکن ہے کما انشا کم من ذریۃ قوم اخرین جس طرح تمہیں پہلی قوم کی اولاد سے پیدا کیا۔ دیکھو ! تمہارے آبائو اجداد جن کی تم اولاد ہو ، اب اس زمین پر موجود نہیں ہیں۔ ان کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب تمہارا دور ہے تمہارے بعد تمہاری اولادوں کا زمانہ آئے گا۔ حضور علیہ اسلام نے اس دنیا سے رخصت ہونے سے ایک ماہ قبل فرمایا تھا کہ آج کے دن روئے زمین پر جتنے انسان ہیں سو سال بعد ان میں سے کوئی نہیں رہیگا ، یہ قرن ختم ہو کر دوسر ا قرن آجائے گا۔ فرمایا یادرکھو ! انما تو عد و ن لات جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ، یعنی قیامت اور جزائے عمل کا تو وہ آنے والی ہے۔ اگر تم نافرمانی اور سرکشی اختیار کرو گے وما انتم بمعجزین تو تم عاجز نہیں کرسکتے یعنی خدا تعالیٰ کی تدبیر کو ناکام نہیں بنا سکتے۔ اور نہ ہی محاسبے کے عمل سے بچ سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بالکل برحق ہے اور ہو کر رہیگا۔ فرمایا۔ قل اے پیغمبر ! آپ واضع طور پر فرما دیں یقوم اعملواعلی مکا نکم اے میر قوم کے لوگو ! جو کچھ تم نے کرنا ہے اپنی جگہ پر کرتے چلے جائو انی عامل میں بھی عمل کررہا ہوں مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اپنی من مانی کارروائی ہی کرنا چاہتے ہو تو کرتے رہو۔ تم اپنی مرضی اور طریقے کے مطابق چلو اور میں اس راستے پر چل رہا ہوں جس پر مجھے اللہ تعالیٰ نے چلایا ہے۔ ہمارے اور تمہارے راستے جدا جدا ہیں۔ مگر فسوف تعلمون تمہیں عنقریب پتہ چل جائے گا ۔ من تکون لہ عاقبۃ الدار کہ آخرت کا گھر کس کے حصے میں آتا ہے۔ یہ دنیا کی زندگی تو عارضی اور قلیل ہے مگر آخرت کا گھر دائمی ہے۔ آخرت کی بہتر ہی اصل کامیابی ہے بس موت آنے کی دیر ہے ، پھر پتہ چل جائے گا کہ تمہارا انجام اچھا ہے یا ہمارا انجام۔ اہل ایمان کا میاب ہونگے یا کفر اور شرک کرنے والے۔ فرمایا اصول کے طور پر بات یادرکھ لو انہ لا یفلح الظلمون ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔ ظلم میں پہلے نمبر پر کفر اور شرک ہے جس نے ان جرائم کا ارتکاب کیا وہ سب سے بڑا ظالم ہے اس کے بعد بدعات ، اعمال سسیہ ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اتلاف سب ظلم کی تعریف میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ واضع قانون ہے کہ ظلم کرنے والے کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہونگے۔ انبیا علہم السلام کا بھی یہی اصول رہا ہے سورة یوسف میں موجود ہے ، جب اس عورت نے حضرت یوسف علیہ اسلام کو برائی پر آمادہ کرنا چاہا اور دروازے بند کرلیے تو یوسف علیہ اسلام نے یہی کہا تھا کہ میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا ، کیو ن کہ انہ لا یفلح الظلمون اللہ تعالیٰ ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں کرتا بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محاسبے کی منزل آنیوالی ہے پھر تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ جس قیادت کا تم انکار کرتے رہے اور اس کے متعلق شہبات کا اظہار کرتے رہے وہ آکررہی۔
Top