Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 130
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا١ؕ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ
يٰمَعْشَرَ
: اے گروہ
الْجِنِّ
: جنات
وَالْاِنْسِ
: اور انسان
اَلَمْ يَاْتِكُمْ
: کیا نہیں آئے تمہارے پاس
رُسُلٌ
: رسول (جمع)
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
يَقُصُّوْنَ
: سناتے تھے (بیان کرتے تھے)
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اٰيٰتِيْ
: میرے احکام
وَيُنْذِرُوْنَكُمْ
: اور تمہیں ڈراتے تھے
لِقَآءَ
: ملاقات (دیکھنا)
يَوْمِكُمْ
: تمہارا دن
ھٰذَا
: اس
قَالُوْا شَهِدْنَا
: وہ کہیں گے ہم گواہی دیتے ہیں
عَلٰٓي
: پر (خلاف)
اَنْفُسِنَا
: اپنی جانیں
وَغَرَّتْهُمُ
: اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا
الْحَيٰوةُ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَشَهِدُوْا
: اور انہوں نے گواہی دی
عَلٰٓي
: پر (خلاف)
اَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانیں (اپنے)
اَنَّهُمْ
: کہ وہ
كَانُوْا كٰفِرِيْنَ
: کفر کرنے والے تھے
اللہ فرمائیگا اے جنوں اور انسان کی جماعت کیا نہیں آئے تھے تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کرتے تھے تم پر میری آئتیں اور ڈراتے تھے تم کو اس دن کی ملاقات سے ، تو کہیں گے وہ (جواب میں) ہم گواہی دیتے ہیں اپنے نفسوں پر (کہ ہم مجرم ہیں) اور دھوکہ دیا ان کو دنیا کی زندگی نے اور وہ گواہی دیں گے اپنے نفسوں پر بیشک وہ کفر کرنے والے تھے
گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کے ملف ہونے کا ذکر کیا اور قیامت کو جزائے عمل کا حال بیان کیا۔ اور اس سلسلے میں قیامت میں پیش آنے والے سوال و جواب کا تذکرہ کیا۔ قرآن کریم میں ایسے واقعات سے مشرکوں اور کافروں کی تنبیہ مراد ہے تاکہ اگر وہ بچنا چاہیں تو بچ سکیں۔ گذشتہ آیات میں جنوں سے خطاب تھا کہ سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ ملالیا ہے ، تو انسان بھی اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہم میں سے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا۔ جنات نے اپنی سیادت قائم رکھی اور اپنی بات انسانوں سے منوائی جب کہ انسان نے باطل عقائد اور باطل اعمال پر خوشی کا اظہار کیا اور انہی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر جب وہ اپنی مدت تک پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اب تمہارا ٹھکانا جہنم میں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ظالموں کو ایک دوسرے کے قریب کر دے گا۔ اور جو لوگ اس دنیا میں ظلم وتعدی کرتے ہیں ان کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ دوسرے ظالموں کو ان پر مسلط کردیتا ہے۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا یمعشر الجن والانس اے جنوں اور انسانوں کے گروہ الم یاتکم رسل منکم کیا نہیں آئے تھے تمہارے پاس رسول تم میں سے یقصون علیکم ایتہی جو تم پر میری آیتیں بیان کرت تھے وینذر ونکم لقاء یو مکم ھذا اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب جنات اور انسانوں دونوں گروہوں سے ہوگا کیونکہ دونوں ہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند یعنی مکلف ہیں۔ اللہ فرمائیگا کیا میرے رسولوں نے تمہیں نہیں بتایا کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور وہاں پر اعمال کی باز پُرس بھی ہوگی۔ اس کے جواب میں تمام جن اور انسان کہیں گے قالو شھد نا علی انفسنا ہم اپنے نفسوں پر گواہی دیتے ہیں ، کہ اے مولا کریم ! بلا شبہ تیرے رسول ہماریپ اس آئے۔ انہوں نے ہمیں سمجھایا ، تبلیغ کی ، مگر ہم ہی قصور وار ہیں کہ ہم نے ان کی باتوں پر دھیان نہ دیا جسکی وجہ سے آج مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ مفسرین کرام اس بارے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ جنات کے پاس بھی اللہ کے رسول آئے ہیں انہیں۔ انسانوں میں رسولوں کی آمد تو یقینی ہے کہ حجرت آدم علیہ اسلام سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺ تک ہزاروں انبیاء اور رسل اللہ نے بھیجے۔ ان پر کتابیں اور صحیفے بھی نازل فرمائے ، بعض کو مستقل شریعت دی اور بعض کو مستقل کتاب و شریعت عطا نہیں کی۔ البتہ جنات کے بارے میں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر منکم کی ضمیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جنوں میں بھی رسول آتے رہے ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ جنات میں رسول نہیں آتے رہے بلکہ صرف منذر آتے رہے ہیں جو ان کو آخرت کے انجام سے ڈراتے تھے اور خبر دار کرتے تھے۔ اور یہ انسانی دور سے قبل کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کے توسط سے جنوں کی طرف اپنے منذر بھیجتا رہا۔ مگر مستقل رسول نہیں بھیجے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ اسلام کے واقعہ میں زکر فرمایا ہے کہ آپ ایک مقام پر نماز میں تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے تو وہاں جنات کا ایک گروہ آیا ، انہوں نے قرآن سُنا اور ایمان لائے ” ولوا الی قومھم منذرین “ (احقاف) پھر وہ اپنی قم کی طرف منذر یعنی ڈرانے والے بن کر گئے۔ انہوں نے جو کچھ سنا تھا ، اپنی قوم جنات میں اس کی تبلیغ کی۔ بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جنوں میں بھی رول آتے رہے ہیں ، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “ (بنی اسرائیل) ہم کسی قوم کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے۔ جب تک ان میں رسول نہ بھیج لیں۔ جنات کے لیے یہی اصول ہے لہٰذا اگر جنات میں بھی رسول آئے ہوں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ البتہ یہ ہے کہ انسانی دور سے پہلے جنات میں رسولوں کا آنا زیادہ قرین قیاس ہے اس کے بعد مستقل رسول نہیں آئے۔ اب جنات انسانوں کے تابع ہیں۔ ان میں بھی کافر ، مشرک اور مومن ہیں۔ جس طرح انسانوں میں مختلف فرقے ہیں۔ اسی طرح جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تفسیر مظہری مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کی دس جلدوں میں مشہور تفسیر ہے جو کہ آپ نے اپنے پیر و مرشد خواجہ مظہر جان جانان شہید (رح) کے نام پر منسوب کی۔ آپ عالم گیر (رح) کے خالہ زاد بھائی اور اپنے زمانے کے بڑے بزرگ اور اولیاء اللہ میں سے تے ، آپ کو شیعوں نے شہید کیا تھا۔ تو حضرت پانی پتی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ ہندومت میں نبوت و رسالت کا کوئی تصور نہیں ، البتہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا تو چار آدمیوں کو منتخب کر کے ان کو چار کتابیں عطا کردیں۔ یہ کتابیں رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے کار آمد رہیں گی۔ ان کتابوں کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں آئیگی۔ یہ کتابیں ان کے چار مشہور وید ہیں مگر انکی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی کہ یہ کب نازل ہوئیں ، بعض ان کا نزول ہزاروں سال پہلے بتاتے ہیں اور بعض اس مدت کو لاکھوں سال پر محمول کرتے ہیں۔ قاضی ثناء اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ چار کتابیں جنات کے صحیفے ہوں جو انسانی دور سے پہلے جنات کی طرف نازل کیے گئے اور جنات کے ذریعے یہ انسانوں تک بھی پہنچے۔ فرماتے ہیں کہ بعض انسان جنوں کے ساتھ نسل میں بھی وابستہ ہیں۔ بعض جنیوں کا نکاح انسانوں کے ساتھ ہوا ، ان سے اولاد بھی پیدا ہوئی اور اس طرح یہ چار کتابیں جنوں سے انسانوں تک پہنچیں۔ یہ محض خیال ہے ، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بہر حال ان کتابوں میں جو باتیں قرآن و سنت کے مطابق ہیں۔ وہ قابل قبول ہیں ، اور جو قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتیں ، انہیں شیطانی عمل دخل سمجھا جائے گا۔ تو رات و انجیل کے متعلق بھی یہی نظریہ ہے۔ قاضی صاحب نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے ایسی بات ہوتا ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جب لوگ اپنے گنہگار ہونے کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے وغرتھم الحیۃ الدنیا اُن ک دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کیا ، قیامت کا انکار کیا۔ غلط کاروں کے پیچھے چلتے رہے۔ سچے لوگوں کی بات کو تسلیم نہ کیا ، ایمان سے محروم رہے ، دنیا کی ظاہری شان و شوکت میں محور رہے اور اسی کو اول و آکر سمجھ لیا ، چناچہ زندگی کے انہی لوازمات نے انہیں دھوکے میں ڈال دیا۔ اکثر لوگ اسی طرح دنیا کے دھوکے میں آتے رہے ہیں حالانکہ انبیاء علیہ اسلام انہیں بار بار تنبیہ کرتے رہے ہیں۔ لاتغرنکم الحیۃ الدنیا (فاطر) دیکھنا تمہیں دنیا کی زندگی کہیں د ھوکے میں نہ ڈال دے۔ بہر حال اللہ رب العزت کے دربار میں لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے وشھدواعلی انفسھم اور اپنے خلاف جو گواہی دیں گے انھم کانو ا کفرین کہ بیشک وہ کفر کیا کرتے تھے۔ انبیاء کی تعلیم کا انکار کیا ، دنیا کی لذت و شہوات میں مگن رہے وار احکم الحاکمین کے حکم کی پروانہ کی۔ حشر کا دن بہت لمبا دن ہوگا اور اس میں مختلف قسم کے مواقع آئیں گے بعض مواقع ایسے بھی آئیں گے کہ جب کفار و مشرکین سے باز پرس ہوگی کہ تم نے ایسا کام کیوں کیا تو وہ انکار کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ مگر بعض مواقع پر اپنے جرموں کا صاف طور پر اقرار بھی کریں گے اور عرض کریں گے کہ باری تعالیٰ اگر ہمیں ایک دفعہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو ہم تیرے فرمانبردار بندے بن کر رہیں گے اور کوئی غلط کام نہیں کریں گے مگر اللہ فرمائیگا کہ اب کسی کو موقع نہیں دیا جائے گا۔ اس آیت میں جس بات کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں بھی مجرم لوگ اپنے جرم کا اعتراف کریں گے کہ بیشک وہ دنیاں میں کفر ہی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ پہلے و ہ انسان کی راہنمائی کے لئے پورے وسائل مہیا کرتا ہے ، انبیاء کو معبوث فرماتا ہے ، کتاب اور شریعت نازل فرماتا ہے اور پھر اس پر ایمان لانے اور عمل کر نیکی مہلت دیتا ہے اس کے بعد اگر کوئی قوم اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتی ہے تو پھر وہ ان کو سزا میں مبتلا کرتا ہے۔ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” ذلک ان لم یکن ربک مھلک القری بظلم واھلھا غفلون “ تیرا پروردگار بستیوں کے رہنے والوں کو ظلم کے ساتھ تو ہلاک نہیں کرتا جب کہ وہ غافل ہوں۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بلا اطلاع اور پہلے سے تنبیہ کیے بغیر سزا میں مبتلا نہیں کرتا۔ پہلے وہ تبلیغ و انذا کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے ۔ رسولوں کو بھیجتا ہے ، مبلغین خبردار کرتے ہیں ل اس کے باوجود اگر وہ راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ فرمایا ولکل درجت مما عملو ہر شخص کے اعمال کے مطابق اس کا درجہ ہے۔ عمل جتنا اچھا اور زیادہ ہوگا ، اسی کے مطابق اعلیٰ سے اعلیٰ جزأ ملے گی۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جنت کے سو درجات ہیں اور ان میں سے ہر درجہ دوسرے درجے سے اتنا بلند ہے جتنا زمین سے آسمان بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنیوالوں کو اعلیٰ درجات عطا کرتا ہے اس کے برخلاف جس شخص کا جتنا بڑا جرم ہوگا۔ اس کو اسی کے مطابق کم یا زیادہ سزا دی جائیگی۔ اسی لیے فرمایا کہ ہر ایک کے لیے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہیں۔ وما ربک بغافل عما یعملون اور آپ کا رب غافل نہیں ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال سے خوب واقف ہے اور ان اعمال کے مطابق ہی جزا یا سزا کے درجات مقرر کریگا ۔ فرمایا انبیاء کی بعث ار کتب کے نزول کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری عبادت و ریاضت کا محتاج ہے وربک الغنی بلکہ تیرا رب تو بےنیاز ہے ، اسے کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں ، کوئی نیکی کرتا ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ اس سے بےپروا ہے۔ وہ تو ذوالرحمۃ رحمت والا ہے وہ اپنی رحمت اور مہربانی سے انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجتا ہے اور کتابیں نازل فرماتا ہے تاکہ لوگ ہدایت کے راستے پر گامزن ہو کر اپنے نفع اور نقصان کو پہنچا لیں اور نقصان سے بچ جائیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کا سامان مہیا کردیا ہے وگرنہ وہ کسی کی نیکی کا محتاج نہیں ہے ، نہ ہی کسی کی برائی کرنے سے اس پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ وہ تو بےنیاز ہے۔ فرمایا ان یشا یذھبکم اگر وہ چاہے تو تم کو لے جئے یعنی تمہیں اس دنیا سے نابود کر دے ویستخلف من م بعد کم مایشاء اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے قائم کر دے۔ اور یہ اسی طرح ممکن ہے کما انشا کم من ذریۃ قوم اخرین جس طرح تمہیں پہلی قوم کی اولاد سے پیدا کیا۔ دیکھو ! تمہارے آبائو اجداد جن کی تم اولاد ہو ، اب اس زمین پر موجود نہیں ہیں۔ ان کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب تمہارا دور ہے تمہارے بعد تمہاری اولادوں کا زمانہ آئے گا۔ حضور علیہ اسلام نے اس دنیا سے رخصت ہونے سے ایک ماہ قبل فرمایا تھا کہ آج کے دن روئے زمین پر جتنے انسان ہیں سو سال بعد ان میں سے کوئی نہیں رہیگا ، یہ قرن ختم ہو کر دوسر ا قرن آجائے گا۔ فرمایا یادرکھو ! انما تو عد و ن لات جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ، یعنی قیامت اور جزائے عمل کا تو وہ آنے والی ہے۔ اگر تم نافرمانی اور سرکشی اختیار کرو گے وما انتم بمعجزین تو تم عاجز نہیں کرسکتے یعنی خدا تعالیٰ کی تدبیر کو ناکام نہیں بنا سکتے۔ اور نہ ہی محاسبے کے عمل سے بچ سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بالکل برحق ہے اور ہو کر رہیگا۔ فرمایا۔ قل اے پیغمبر ! آپ واضع طور پر فرما دیں یقوم اعملواعلی مکا نکم اے میر قوم کے لوگو ! جو کچھ تم نے کرنا ہے اپنی جگہ پر کرتے چلے جائو انی عامل میں بھی عمل کررہا ہوں مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اپنی من مانی کارروائی ہی کرنا چاہتے ہو تو کرتے رہو۔ تم اپنی مرضی اور طریقے کے مطابق چلو اور میں اس راستے پر چل رہا ہوں جس پر مجھے اللہ تعالیٰ نے چلایا ہے۔ ہمارے اور تمہارے راستے جدا جدا ہیں۔ مگر فسوف تعلمون تمہیں عنقریب پتہ چل جائے گا ۔ من تکون لہ عاقبۃ الدار کہ آخرت کا گھر کس کے حصے میں آتا ہے۔ یہ دنیا کی زندگی تو عارضی اور قلیل ہے مگر آخرت کا گھر دائمی ہے۔ آخرت کی بہتر ہی اصل کامیابی ہے بس موت آنے کی دیر ہے ، پھر پتہ چل جائے گا کہ تمہارا انجام اچھا ہے یا ہمارا انجام۔ اہل ایمان کا میاب ہونگے یا کفر اور شرک کرنے والے۔ فرمایا اصول کے طور پر بات یادرکھ لو انہ لا یفلح الظلمون ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔ ظلم میں پہلے نمبر پر کفر اور شرک ہے جس نے ان جرائم کا ارتکاب کیا وہ سب سے بڑا ظالم ہے اس کے بعد بدعات ، اعمال سسیہ ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اتلاف سب ظلم کی تعریف میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ واضع قانون ہے کہ ظلم کرنے والے کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہونگے۔ انبیا علہم السلام کا بھی یہی اصول رہا ہے سورة یوسف میں موجود ہے ، جب اس عورت نے حضرت یوسف علیہ اسلام کو برائی پر آمادہ کرنا چاہا اور دروازے بند کرلیے تو یوسف علیہ اسلام نے یہی کہا تھا کہ میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا ، کیو ن کہ انہ لا یفلح الظلمون اللہ تعالیٰ ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں کرتا بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محاسبے کی منزل آنیوالی ہے پھر تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ جس قیادت کا تم انکار کرتے رہے اور اس کے متعلق شہبات کا اظہار کرتے رہے وہ آکررہی۔
Top