Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 130
وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر يَّتَفَرَّقَا : دونوں جدا ہوجائیں يُغْنِ اللّٰهُ : اللہ بےنیاز کردے گا كُلًّا : ہر ایک کو مِّنْ : سے سَعَتِهٖ : اپنی کشائش سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ وَاسِعًا : کشائش والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور اگر میاں بیوی میں (موافقت نہ ہو سکے) اور ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو خدا ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کر دے گا اور خدا بڑی کشائش والا (اور) حکمت والا ہے
130۔ (آیت)” وان یتفرقا “۔ عورت اور مرد دونوں طلاق کی وجہ سے الگ الگ ہوجائیں ، (آیت)” یغن اللہ کلا من سعۃ “۔ وسعت کا معنی یہاں رزق سے کیا ہے یعنی عورت کو دوسرا شوہر دے دے گا اور مرد کو دوسری بیوی (آیت)” وکان اللہ واسعا حکیما “۔ (ازواج کے درمیان مساوات کے مسائل) واسعا کا معنی ہے فضل اور رحمت اور حکیما سے مراد جن امور میں حکم دیا گیا اور اس سے روکا گیا ، من جملہ اس آیت کا حکم یہ ہے کہ جب ایک مرد کے پاس دو بیویاں ہوں یا اس سے زائد ہوں تو اس پر برابری لازمی ہے تقسیم میں اور اگر اپنی بیویوں میں تقسیم میں کمی برتے گا تو اللہ کے ہاں نافرمان لکھا جائے گا اور اسی پر فیصلہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ رات گزارنے میں برابری کرے نہ کہ جماع کرنے میں کیونکہ جماع تو نشاط اور عدم نشاط پر مبنی ہے ، اس کے بارے میں اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور اگر اس کے نکاح میں ایک آزاد عورت ہے اور ایک باندی ہے تو آزاد عورت کے پاس دو راتیں اور باندی کے پاس ایک رات گزارے گا، اسی طرح اگر وہ پرانی بیویوں کی موجودگی میں نئی بیوی سے شادی کرے گا تو نئی کو ترجیح دے گا اور اس کے پاس کم از کم سات دن گزارے گا ، اگر وہ نئی بیوی باکرہ ہو اور اگر وہ عورت ثیبہ ہو تو پھر اس کے ساتھ تین راتیں گزارے پھر اس کے بعد برابری اختیار کرے ، ان راتوں میں پرانی عورتوں کے درمیان برابری لازمی نہیں ۔ حضرت ابو قلابہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ سنت ہے کہ اگر پہلی بیوی پر کسی کنواری سے نکاح کرلے تو اس کے پاس سات رات رہے اور اگر شادی شدہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات رہے ، پھر سات اور تین راتوں کے بعد باری کی تقسیم کرے ۔ ابو قلابہ فرماتے ہیں اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بیان کیا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص سفر کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیویوں میں سے بعض کو اپنے ساتھ لے جائے تو قرعہ اندازی کرکے ، پھر باقی عورتوں کے لیے واجب نہیں مدت سفر کی راتیں ان عورتوں میں تقسیم کرے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات ؓ عنھن کے درمیان قرع ڈالتے جس کا نام قرع میں نکل آتا اس کو ساتھ لے جاتے لیکن جب آپ ﷺ کا ارادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا ہو تو پھر اپنی ازواج مطہرات ؓ عنھن میں سے بعض کو بعض کے ساتھ خاص نہ کرتے نہ قرعے کے ساتھ اور نہ ہی کسی اور وجہ سے ۔
Top