Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
12 ۔ ” یایھا الذین امنا اجنبوا کثیرا من الظن “ کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھی کی غیبت کی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر جہاد یا ویسے سفر کرتے تو ایک ضرورت مند شخص کو دو مال دار آدمیوں کے ساتھ ملا دیتے وہ ان دونوں کی خدمت کرتا اور ان سے آگے پڑائو کی جگہ جاتا اور ان کی ضروریات کھانے پینے کی تیار کرتا تو سلمان فارسی ؓ کو کسی سفر میں دو آدمیوں کے ساتھ ملادیا تو حضرت سلمان ؓ منزل پر ان سے پہلے پہنچے۔ وہاں جاکر ان کو نیند آگئی، ان کے لئے کچھ تیار نہ کرسکے۔ پس جب وہ دونوں آئے تو ان کو کہا کیا تیار کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کچھ نہیں، مجھے نیند آگئی تھی۔ ان دونوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے پاس جائو اور ان سے ہمارے لے کھانا مانگو۔ حضرت سلمان ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کھانا مانگا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اسامہ بن زید ؓ کے پاس جائو ان کو کہو، اگر ان کے پاس سالن اور کھانا زائد ہے تو آپ کو دے دیں اور اسامہ رسول اللہ ﷺ کی سواری پر ان کے خزانچی تھے تو حضرت سلمان ؓ ان کے پاس گئے، انہوں نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے تو سلمان ؓ ان دونوں کے پاس آئے اور ان کو بتادیا، تو وہ کہنے لگے اسامہ کے پاس کھانا تھا لیکن اس نے بخل کیا۔ پھر انہوں نے سلمان ؓ کو صحابہ کرام ؓ کی جماعت کی طرف بھیجا، ان کے پاس بھی کچھ نہ ملا وہ واپس آئے تو ان دونوں نے کہا اگر ہم آپ ؓ کو بئرسمیحہ پر بھیجتے تو اس کا پانی بھی خشک ہوجاتا، پھر وہ دونوں تجس سے چل پڑے کہ کیا اسامہ کے پاس وہ چیز ہے جس کا ہمارے لئے ان کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا۔ پس جب یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ (علیہ السلام) نے ان دونوں کو کہا مجھے کیا ہوگیا کہ میں تمہارے منہ سے گوشت کی بدبو محسوس کررہا ہوں۔ ان دونوں نے کہا اللہ کی قسم ! ہم نے تو آج کے دن گوشت نہیں کھایا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تم بھول گئے تم نے سلمان اور اسامہ ؓ کا گوشت کھایا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن “ اور مراد یہ ہے کہ اہل خیر کے بارے میں براگمان رکھنے سے بچو۔ ” ان بعض الظن “ سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ ظن دو قسم کے ہیں، ان میں سے ایک گناہ ہے وہ یہ کہ تو گمان کرے اور اس کو زبان سے بیان کردے اور دوسرا گناہ نہیں ہے وہ یہ کہ تو گمان کرے لیکن منہ سے بولے نہ۔ ” ولا تجسوا “ تجسس لوگوں کے عیب تلاش کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے پوشیدہ عیوب کو تلاش کرنے سے روکا ہے تاکہ وہ چیز ظاہر نہ ہوجائے جس پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالا ہے۔ تجسس اور لوگوں کے عیب کے پیچھے نہ پڑو حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ظن سے بچو کیونکہ ظن سب سے جھوٹی بات ہے اور چھپ کر کسی کی بات نہ سنو اور تجسس نہ کرو اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی نہ لگائو اور مبالغہ نہ کرو اور باہم حسدنہ کرو اور باہم بغض نہ رکھو اور باہم دشمنی نہ کرو اور ہوجائو اللہ کے بندے بھائی بھائی۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے وہ جماعت ! جو اپنی زبان سے ایمان لے آئی ہے اور ایمان اس کے دلوں تک نہیں پہنچا، تم مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے پوشیدہ عیبوں کے پیچھے نہ لگو کیونکہ جو مسلمانوں کے عیبوں کے پیچھے پڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور جس کے عیبوں کے پیچھے اللہ تعالیٰ پڑجائیں اس کو رسوا کردیتے ہیں۔ اگرچہ وہ کجاوہ کے اندر ہی کیوں نہ ہو اور ابن عمر ؓ نے ایک دن کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تیری کتنی عظمت ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے اور مومن کی حرمت اللہ تعالیٰ کے ہاں تجھ سے بڑی ہے۔ زید بن وہب کہتے ہیں کہ ابن مسعود ؓ کہ کہا گیا کہ کیا آپ کے لئے ولید بن عقبہ میں کچھ ہے کہ اس کی داڑھی سے شراب ٹپکتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ہم تجس سے روکے گئے ہیں۔ پس اگر ہمارے لئے کوئی چیز ظاہر ہوگی تو ہم اس کو لے لیں گے۔ غیبت اور بہتان باندھنے کی نہی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتا ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا : تیرا تیرے بھائی کی اس چیز کو ذکر کرنا جو اس کو ناپسند ہو۔ کہا گیا آپ کا کیا خیال ہے اگر میرے بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہہ رہا ہوں ؟ فرمایا کہ اگر اس میں وہ بات ہو جو تو کہہ رہا ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہہ رہا ہے تو تونے اس پر بہتان باندھا۔ عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ خود نہیں کھاتا حتیٰ کہ اس کو کھلایا جائے اور سوار نہیں ہوتا حتیٰ کہ سوار کیا جائے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم نے اس کی غیبت کی ہے تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ہم نے وہی بات بیان کی ہے جو اس میں ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تجھے کافی ہے جب تو اپنے بھائی کی وہ بات ذکر کرے جو اس میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ” ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ “ مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ جب ان کو کہا گیا ” ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا “ تو انہوں نے کہا نہیں تو کہا گیا ” فکر ھتموہ “ یعنی جیسے تم نے اس کو ناپسند کیا ہے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کا براتذکرہ کرنے سے بچو۔ زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ اس کی تاویل یہ ہے کہ تیرا اس شخص کا ذکر کرنا جو حاضر نہیں ہے تیرے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مرتبہ میں ہے کہ اس کو بھی یہ محسوس نہ ہوگا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کرایا گیا تو میرا ایک قوم پر گزر ہوا، ان کے لوہے کے ناخن تھے، اس کے ذریعے اپنے چہروں اور گوشتوں کو نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔ میمون بن یسا (رح) فرماتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا کہ میرے سامنے ایک حبشی کی لاش لائی گئی۔ اور ایک کہنے والے نے کہا تو اس کو کھا، میں نے کہا اے اللہ کے بندے ! میں اس کو کیوں کھائوں ؟ تو اس نے کہا اس وجہ سے کہ تونے فلاں کے غلام کی غیبت کی تھی تو میں نے کہا اللہ کی قسم ! میں نے اس کا تذکرہ خیر کیا نہ تذکرہ شر تو کسی کو اپنے پاس کسی کی غیبت کرنے دیتے تھے۔ ” واتقواللہ ان اللہ تواب رحیم “۔
Top