Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
4 ۔” ان الذین…………………یعقلون ۔ “ (جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ ﷺ کو پکارتے ہیں، بلا شبہ ان میں اکثر کو عقل نہیں) ۔ حجرت اور حجرت حجرۃ کی جمع ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حجرات حجر کی اور حجر حجرۃ کی جمع ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (قبیلہ) ابن العنبرہ کی طرف ایک جہادی دستہ عینیہ بن حصین فزاری ؓ کے زیر کمانڈ روانہ کیا۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ عیینہ کا رخ ہماری طرف ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ عیینہ نے ان کے اہل و عیال کو قید کرلیا اور لاکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ کچھ وقفہ کے بعد ان کے مرد اپنے بچوں کو زر فدیہ ادا کرکے رہا کرانے کے لئے آگئے جس وقت وہ آئے تھے دوپہر کا وقت تھا۔ رسول اللہ ﷺ کسی بی بی کے حجرہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ان کے بچوں نے جب اپنے باپوں کو دیکھا تو بےتاب ہوکر رونے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر بی بی کا ایک مخصوص حجرہ تھا۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے برآمد ہونے سے پہلے ہی جلدی میں پکارنے لگے : محمد ! باہر آئیے۔ غرض (شور مچا کر) حضور ﷺ کو بیدار کردیا۔ آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں نے کہا محمد ﷺ ! فدیہ لے کر ہمارے اہل و عیال کو رہا کردو۔ اس وقت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اللہ آپ ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے اور ان لوگوں کے درمیان کسی تیسرے شخص کو (بطور پنچ) مقرر کردو۔ رسول اللہ ﷺ نے وحی پانے کے بعد فرمایا : سبرہ بن عمرو تمہارا ہم مذہب ہے۔ کیا تم لوگ اس کو میرے اور اپنے درمیان ثالث بنانا پسند کرو گے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : جی ہاں۔ سبرہ نے کہا جب تک میرا چچا اعوربن بشامہ یہاں موجود نہ ہوگا میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اعور سے فیصلہ کر ائوں گا، خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گا) لوگ راضی ہوگئے۔ اعور نے فیصلہ دیا کہ ان کے آدھے اہل و عیال کو بغیر معاوضہ کے آزاد کیا جائے اور باقی نصف کو فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس پر راضی ہوں۔ چناچہ نصف کو بلا معاوضہ اور نصف کو فدیہ لے کر رہا کردیا اور اللہ نے آیت :
Top