Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
5 ۔ ان الذین ینادونک ……………………غفوررحیم ۔ بغوی نے قتادہ اور جابر کی روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے کہ یہ آیت (یعنی یہ آیت اور اس کے بعد کی عبارت) بنی تمیم کے کچھ خانہ بدوش، بدویوں کے متعلق نازل ہوئی جنہوں نے دروازہ پر (پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کو) آوازیں دی تھیں۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ دروازہ پر پہنچ کر انہوں نے پکار مچائی : محمد ! (ﷺ ) باہر نکل کر آئو۔ ہماری طرف سے (کسی کی) تعریف (اس کے لئے) باعث زینت ہے اور ہماری طرف سے (کسی کی) مذمت موجب عیب ہے۔ آواز سن کر حضور ﷺ یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ ایسا تو بس اللہ ہے جس کی طرف سے کسی کی ستائش موجب زینت اور مذمت موجب عیب ہے۔ دیہاتی بولے : ہم اپنے شاعر اور خطیب کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ حضور ﷺ نے ثابت بن قیس ؓ سے فرمایا : اٹھو ! ان کو جواب دو ۔ حضرت ثابت ؓ رسول اللہ ﷺ کے خطیب تھے۔ حسب الحکم آپ نے بنی تمیم کے خطیب کو جواب دیا۔ پھر ان کا شاعر کھڑا ہوا اور اس نے کچھ اشعار پڑھے۔ حضور ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت ؓ کو حکم دیا، اٹھو ! ان کو جواب دو ۔ حضرت حسان ؓ نے اٹھ کر جواب دیا۔ یہ بات دیکھ کر اقرع بن حابس (تمیمی) نے کہا : محمد ﷺ کے پاس تو ہر خیر جمع ہے۔ ہمارا خطیب بولا (تو ان کا خطیب بھی بولا اور ہمارے خطیب پر غالب آیا، پھر ہمارے شاعر نے کچھ اشعار پڑھے تو ان کے شاعر نے جواب دیا) پس (ہمارے شاعر سے) تمہارا شاعر بہتر اور احسن ثابت ہوا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچا اور بول پڑا : ” اشھدان لا الہ الا اللہ واشھدانک رسولہ “ حضور ﷺ نے فرمایا : اس سے پہلے (تجھ سے) جو جرائم ہوگئے ہیں (وہ سب معاف ہوگئے) ان کا کوئی ضرر تجھے نہیں پہنچے گا۔ (یعنی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا) اس کے بعد ان سب کو رسول اللہ ﷺ نے (کچھ نقد اور) لباس عطا فرمایا۔ قافلہ میں ایک (بچہ) کمسنی کی وجہ سے رہ گیا تھا جس کا نام عمروبن اصم تھا۔ (قافلہ کے مال اور جانوروں کی نگرانی کے لئے یہ لوگ اس کو چھوڑ آئے تھے) حضور ﷺ نے اس کو بھی اتنا ہی (حصہ) دیا، جتنا ان لوگوں میں سے ایک ایک کو دیا تھا۔ بعض لوگوں نے اس لڑکے کو (اپنے مقابلہ میں) حقیر قرار دیا (اور پورا حصہ دینے پر اعتراض کیا) اس پر ان کے آپس میں حضور ﷺ کے سامنے شوروغل ہونے لگا۔ اس وقت آیات ” یایھا الذین امنوا لا ترفعوا……تا……غفوررحیم “ تک نازل ہوئیں۔ ” واللہ غفور رحیم “ یعنی اللہ بڑا مہربان ہے۔ اسی لئے اس نے (تم کو سزا نہیں دی بلکہ) صرف نصیحت کردی اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم نہ کرنے والوں اور بےادبی کرنے والوں کو تنبیہ کردی کیونکہ یہ بےادب لوگ جاہل اور بےعقل ہیں۔
Top