Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
مومنو ! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے
یہ آیت بھی ایک واقعہ کے تحت نازل ہوئی ہے وہ یہ کہ رسول اکرم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنی مصطلق سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، یہ راستہ ہی سے واپس آگئے اور اپنے خیال کے مطابق کہ دیا کہ وہ لوگ تو میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں یہ سن کر رسول اکرم اور صحابہ کرام نے ان لوگوں سے لڑائی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے جیسا کہ ولید بن مصطلق کی خبر لایا ہے تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو کہ صحیح ہے یا غلط، کہیں کسی قوم کو اپنی نادانی سے کوئی نقصان نہ پہنچا دو پھر اس لیے پچھتانا پڑے۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ (الخ) امام احمد نے سند جید کے ساتھ ابن ضرور خزاعی سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی میں نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام میں داخل ہوگیا اور آپ نے مجھے زکوٰۃ کا حکم دیا میں نے اس کو بھی قبول کرلیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی قوم کی طرف جاتا ہوں اور اسے اسلام اور زکوٰۃ ادا کرنے کی دعوت دیتا ہوں، تو جو میری بات قبول کرلے گا اس کی زکوٰۃ میں جمع کرلوں گا تو آپ فلاں وقت میرے پاس قاصد بھیج دیں تاکہ میں نے جو زکوٰۃ کا مال جمع کیا ہو آپ کے پاس لے آئے۔ چناچہ جب حارث نے زکوٰۃ کا مال جمع کرلیا اور وہ وقت مقررہ بھی آگیا تو قاصد ان کے پاس نہ پہنچا تو حارث یہ سمجھے کہ کچھ ناراضگی پیش آگئی تو انہوں نے اپنی کے سرداروں کو جمع کرکے ان سے کہا کہ رسول اکرم نے ایک وقت طے کیا تھا تاکہ اس وقت آپ قاصد بھیجیں کہ زکوٰۃ میرے پاس جمع ہوئی ہے وہ لے جائے، اور رسول اکرم کا یہاں کوئی خلیفہ بھی نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ رسول اکرم نے ناراضگی کی وجہ سے اپنے قاصد کو نہیں بھیجا، لہذا تم تیار ہوجاؤ تاکہ خود رسول اکرم کی خدمت میں پہنچیں۔ اور دوسری طرف رسول اکرم نے ولید بن عقبہ کو ان کے پاس زکوٰۃ کا مال لینے کے لیے بھیجا اور چناچہ جب ولید روانہ ہوئے تو ان سے ڈرے اور واپس آکر اپنے خیال کے مطابق کہہ دیا کہ حارث نے زکوٰۃ کا مال نہیں دیا اور میرے قتل کا ارادہ کیا۔ یہ سن کر رسول اکرم نے حارث کی طرف ایک جماعت روانہ کی جب حارث نے وہ جماعت آتی دیکھی تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور بولے کہ تم لوگ کہاں بھیجے گئے ہو انہوں نے کہا کہ آپ کی طرف آئے ہیں، حارث بولے کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اکرم نے تمہاری طرف ولید بن عقبہ کو بھیجا ان کا خیال ہے کہ تم نے انہیں زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور قتل کرنا چاہا، حارث بولے ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے نہ میں نے ان کو دیکھا اور نہ وہ میرے پاس آئے ہیں۔ چناچہ جب حارث رسول اکرم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور میرے قاصد کو قتل کرنا چاہا، حارث بولے ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی، یعنی اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی (الخ) اس سند کے رجال ثقہ ہیں۔ اور امام طبرانی نے اسی طرح جریر بن عبداللہ اور علقمہ بن ناجیہ اور ام سلمہ سے اور ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس اور دوسرے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔
Top