Baseerat-e-Quran - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق شخص کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بیخبر ی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھ تم اپنے کئے پر شرمندگی کا اظہار کرتے پھرو
لغار القرآن آیت نمبر ( 6 تا 8) ۔ نبا (خبر) ۔ تبینو ا (چھان بین کرلیا کرو) ۔ ان تصیبوا (یہ کہ تم پہنچ جاؤ۔ یہ کہ تم جا پڑو) ۔ جھالتہ (نادانی۔ ناوقفیت) ۔ فعلتم (تم نے کیا) ۔ لعنتم (البتہ تم مصیبت میں پڑجاتے) ۔ حبب (محبوب بنا دیا۔ محبت ڈال دی) ۔ زینہ (اس کو خوبصورت بنادیا) ۔ کرہ (نفرت ڈال دی) ۔ الفسوق (گناہ۔ نافرمانی) ۔ العصیان (نافرمانی) ۔ راشدون (راہ پائے ہوئے) ۔ تشریح : آیت نمبر (6 تا 8) ۔ ” عام آدمی کی لغزش، غلطی اور نافرمانی کو گناہ اور فسق کہا جاتا ہے لیکن بعض ایسی با عظمت اور اہم شخصیات جو دوسروں کے لئے نمونہ ہوتی ہیں ان کی ممولی سی بات لغزش اور بھول بھی بڑی بات سمجھی جاتی ہے اور ان کی شخصیت کی عظمت کی وجہ سے اس کو گناہ اور نافرمانی کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مثلاً اللہ کے نبی اور رسول ” معصوم عن الخطا “ ہوتے ہیں۔ جن سے نہ تو کسی گناہ کے سر زد ہونے یا گناہ کرنے کا تصور کیا جاسکتا ہے نہ وہ گناہ کرتے ہیں نہ ان کی طرف گناہ کی نسبت کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر ان سے کوئی معمولی غلطی یا بھول چوک ہوجائے تو اس کو گناہ کہہ دیا جاتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے۔ اب ان گناہوں سے مراد ہرگز وہ گناہ نہیں ہیں جیسے عام لوگ گناہ کرتے ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دین اسلام کے فروغ کی جدہ جہد میں کہیں کوئی کمی یا کوتاہی وہ گئی ہو، کوئی لغزش یا بھول ہوگئی ہو یا آئندہ ہونے کا امکان ہو تو اللہ نے اس کو معاف کردیا ہے۔ اسی طرح آپ کی نسبت کی وجہ سے آپ کے جاں نثار صحابہ ؓ کا رتبہ اور مقام بھی بہت بلند ہے اور وہ کائنات کی بہترین مخلوق ہیں اس لئے ان کی کوئی معمولی سی لغزش اور بھول چوک بھی بڑی اہم ہے۔ اس لئے کسی مقام پر اس کو فسق بھی کہہ دیا گیا ہے۔ نبی اور صحابی میں فرق یہ ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور صحابی معصوم نہیں ہوتا۔ اگر کسی صحابی سے کوئی گناہ ہوجائے تو حضور اکرم ﷺ کی صحبت اور تربیت کی وجہ سے اس کو فوراً ہی توبہ کی توفیق مل جاتی ہے کیونکہ اللہ نے ان کے لئے فرمادیا ہے کہ ” اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔ اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ رضائے الہٰی گناہوں کی معافی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ زیر مطالعہ آیات میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اہل ایمان کو ایک اصولی بات بتائی گئی ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے والد قبیلہ بن مصطلق کے سردار حارث ضرار حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے دین اسلام قبول کرلیا۔ آپ ﷺ نے ان کو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ زکوۃ بھی ادا کریں۔ حضرت حارث ؓ نے کہا کہ میں اپنے قبیلے والوں کو بھی اسلام کو دعوت دوں گا اور اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو میں ان سے زکوۃ کی ادائیگی کے لئے کہوں گا۔ جو لوگ میری بات مان لیں گے ان سے زکوۃ وصول کر کے آپ کی خدمت میں بھیج دون گا۔ آپ فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو اپنا کوئی قاصد بھیج دیجئے میں زکوۃ اس کے حوالے کر دوں گا۔ چناچہ حضرت حارث دولت ایمان سے مالا مال جب اپنے قبیلے میں پہنچے اور انہوں نے اپنے قبیلے والوں کو بتایا تو قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ حضرت حارث ؓ نے مسلمانوں سے زکوۃ وصول کرلی اور انتظار کرنے لگے جب متعین تاریخ گذر گئی اور آپ کی طرف سے کوئی نمائندہ یا قاصد نہیں آیا تو انہیں تشویش ہوئی اور وہ سوچنے لگے کہ کہیں کسی بات پر نبی کریم ﷺ ہم سے ناراض تو نہیں ہوگئے ؟ ورنہ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ وعدے کے مطابق کسی کو نہ بھیجتے۔ حضرت حارث ؓ نے اپنے اس اندیشے کا ذکر قبیلے کے بڑے لوگوں سے کیا۔ سب نے طے کیا کہ ہم سب مل کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر زکوۃ پیش کریں گے۔ یہ طے کر کے وہ لوگ روانہ ہوگئے۔ ادھر یہ واقعہ پیش آیا کہ نبی کریم ﷺ نے مقرر وعدے کے مطابق حضرت ولید ابن عقبہ ابن ابی معیط کو اپنا قاصد بنا کر زکوۃ کی رقم وصول کرنے کے لئے قبیلہ بنو مصطلق روانہ کردیا۔ حضرت ولید آپ کے حکم کی تعمیل میں روانہ تو ہوگئے مگر وہ اس خیال سے سخت پریشان تھے کہ ان کی اور حضرت حارث کے قبیلے کی پہلے سے زبردست دشمنی چلی آرہی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ پرانی دشمنی کی بنا پر ان کو قتل کردیں۔ جب وہ قبیلہ بنو مصطلق کے قریب پہنچے اور اس قبیلے کے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا قاصد پہنچنے ہی والا ہے تو بہت سے لوگ استقبال کے لئے اپنی بستی سے باہر جمع ہوگئے۔ جب حضرت ولید نے ان بہت سے لوگوں کو دیکھا تو وہ یہ سمجھے کہ یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں وہ وہیں سے پلٹ گئے اور آپ ﷺ کے پاس آکر یہ بات بنا دی کہ قبیلے والوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنے پر بھی آمادہ تھے۔ یہ بات سن کر نبی کریم ﷺ کو سخت بنادی کہ قبیلے والوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنے پر بھی آمادہ تھے۔ یہ بات سن کر نبی کریم ﷺ کو سخت افسوس ہوا اور صحابہ کرام ؓ میں اشتعال پھیل گیا۔ تمام صحابہ ؓ یہ چاہتے تھے کہ ایسے لوگوں کو فوری طور پر سزا دی جائے ۔ آپ نے حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں مجاہدین کا ایک دستہ روانہ فرمادیا تاکہ وہ حالات معلوم کر کے مناسب کاروائی کریں۔ ادھرحضرت حارث اپنے ذمہ دار لوگوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضری کے لئے روانہ ہوگئے۔ مدینہ منورہ کے قریب حضرت خالد اور حضرت حارث کی ملاقات ہوئی۔ حضرت حارث نے پوچھا کہ آپ کن لوگوں کے لئے نکلے ہیں۔ حضرت حارث کے پوچھنے پر انہوں نے حضرت ولید کا واقعہ بیان کیا اس پر حضرت حارث ؓ نے قسم کھا کر کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے میں نے تو ولید ابن عقبہ کو دیکھا تک نہیں اور نہ وہ میاے پاس آئے۔ حضور اکرم ﷺ نے حجرت ولید ابن عقبہ سے بلا کر پوچھا انہوں نے اس کا اقرار کرلیا۔ اس کے بعد زیر مطالعہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات میں ایک بنیادی بات ارشاد فرما دی گئی ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کی پوری تحقیق کرلی جائے کیونکہ عام طور پر حالات کی خرابی اور لڑائی جھگڑوں کی ابتداء بےتحقیق باتوں سے ہوا کرتی ہے۔ ارشاد ہے۔ اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (نافرمان) شخص کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی پوری طرح جانچ پڑتال کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیخبر ی میں تم کسی قوم پر چڑھ دوڑو اور پھر بعد میں تم اپنے کئے پر شرمندگی محسوس کرو۔ تم اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ کے رسول تمہارے درمیان موجود ہیں۔ اگر وہ تمہاری بہت سی باتوں کو مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑجائو گے۔ اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا کردی ہے اور اسے تمہارے دلوں میں پسندیدہ بنا دیا ہے اور کفرو فسق سے تم نفرت کرتے ہو۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و کرم سے سیدھے راستے پر ہیں۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی حکمت سے واقف ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) ۔ اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ کسی بات اور اطلاع پر اس وقت تک عمل نہ کریں جب تک اس کی پوری تحقیق نہ کرلی جائے۔ بےتحقیق بات پر عمل کرنے سے سوائے شرمندگی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتال (2) ۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنو مصطلق کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانا نہیں چاہتے تھے لیکن صحاب کرام ؓ کے اشتعال کو دیکھتے ہوئے آپ نے پورے معاملہ کی تحقیق کے لئے حضرت کالد بن ولید کی سربراہی میں مجاہد ین کا ایک دستہ بھیج دیا تھا۔ تاکہ بروقت کوئی کاروائی کی جاسکے۔ (3) ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرام وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کے نزدیک ایمان انتہائی پسندیدہ اور محبوب تھا اور وہ کفر و فسق اور ہر طرح کی نافرمانیوں سے نفرت کرتے تھے۔ لہٰذا اگر کبھی نادانستگی میں ان سے بھول چوک ہوجائے تو ان کو توبہ کی توفیق عطا کردی جاتی ہے۔ ؓ و رضواعنہ
Top