Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 65
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَكَفَّرْنَا : البتہ ہم دور کردیتے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَ : اور لَاَدْخَلْنٰهُمْ : ضرور ہم انہیں داخل کرتے جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : نعمت کے باغات
اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم ان سے انکے گناہ محو کریتے اور انکو نعمت کے باغوں میں داخل کرتے۔
آیت نمبر 67, 66, 65 تفسیر :(ولو ان اھل الکتب امنوا) محمد ﷺ پر (واتقوا) کفر سے لکفرنا عنھم سیاتھم ولاد خلنھم جنت النعیم (ولوانھم اقموا التورۃ والانجیل اور اگر وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو) یعنی ان کے احکام اور حدود کو قائم رکھتے اور ان پر عمل کرتے ( وما انزل الیھم من ربھم اور اس کو جو نازل ہو ان پر ان کے رب کی طرف سے ) یعنی قرآن اور بعض نے کہا بنی اسرائیل کی کتابیں مراد ہیں ۔ ( لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پائوں کے نیچے سے ) بعض نے کہا کہ ان کے اوپر سے بارش مراد ہے اور ان کے نیچے سے زمین کی پیداوار مراد ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ان پر بارش اتاری جاتی اور زمین سے غلہ نکالا جاتا ۔ فراء (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے رزق میں وسعت مراد ہے۔ (منھم امۃ مقتصدۃ کچھ لوگ ان میں ہیں سیدھی راہ پر) یعنی اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے جیسے عبداللہ بن سلام ؓ اور ان کے ساتھی۔ یعنی عادل ہیں نہ غالب ہیں اور کوتاہی کرتے ہیں اور لغت میں اقتصاد کا معنی عمل میں اعتدال رکھنا نہ غلو کرنا نہ کوتاہی کرنا (وکثیر منھم اور بہت سے ان میں ) کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی (سآء مایعملون برے کام کررہے ہیں) یعنی ان کا عمل برا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی تکذب کرکے برے کام کیے۔ (یایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک اے رسول پہنچا دے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے ) مسروق (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جو یہ کہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم کو چھپایا تو اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے رسول پہچا دے جو تجھ پر اترا، تیرے رب کی طرف سے۔ حسن (رح) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسولوں کو مبعوث کیا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ لوگ آپ (علیہ السلام) کی تکذیب کریں گے تو یہ آیت نازل ہوئی یہود کے عیب کے بارے میں کیونکہ جب نبی کریم ﷺ نے ان کو اسلام کی طرف بلایا تو کہنے لگے ہم آپ سے پہلے اسلام لاچکے ہیں اور آپ (علیہ السلام) کا مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے کیا آپ کا ارادہ ہے کہ ہم آپ کو ویسے حنان بنالیں جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بنایا۔ نبی کریم ﷺ ان کا یہ رویہ دیکھ کر خاموش ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور آپ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ یہود کو کہیں (یاھل الکتاب لستم علی شیٔ اے اہل کتاب تم کسی چیز ( دین) پر نہیں ہو) اور بعض نے کہا کہ معنی یہ ہے کہ رجم اور قصاص کے بارے میں جو حکم آپ (علیہ السلام) پر نازل ہوا ہے اس کو پہنچا دیں۔ یہ آیت یہود کے واقعہ میں نازل ہوئی اور بعض نے کہا کہ حضرت زینب ؓ کے معاملہ اور نکاح کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور بعض نے کہا جہاد کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ منافقین نے جہاد کو ناپسند سمجھا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (جب نازل کی جاتی ہے ان پر کوئی محکم سورت اور اس میں جہاد کا ذکر کیا جائے تو آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دل میں مرض ہے کہ وہ آپ کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے موت کی غشی ان پر آگئی ہو) بعض مومنین نے بھی جہاد کو ناپسند سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو نبی کریم ﷺ بعض مجالس میں جہاد کی ترغیب دینے سے رک گئے کہ آپ (علیہ السلام) کو ان کی کراہت معلوم ہوگئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( وان لم تفعل فما لغت رسالتہ اور اگر ایسا نہ کیا تو تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام) اہل مدینہ و شام، ابوبکر ، یعقوب رحمہما اللہ نے ” رسالاتہ “ جمعج کا صیغہ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے ” رسالتہ “ مفرد پڑھا ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر آپ (علیہ السلام) نے بعض احکامات نہ پہنچائے تو کچھ بھی نہ پہنچایا۔ یعنی بعض احکام کی تبلیغ نہ کرنے کا جرم تمام احکام کی تبلیغ نہ کرنے جتنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ہم ایمان لاتے ہیں بعض پر اور کفر کرتے ہیں بعض کا اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی راستہ بنالیں یہی لوگ پکے کافر ہیں ) اور بعض نے کہا ” بلغ ما انزل الیک “ کا مطلب ہے کہ یعنی اس کی تبلیغ کو ظاہر کریں۔ اللہ کے فرمان کی طرح ( فاصد ع بماتومر آپ کر گزریئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے) اگر آپ نے اس کی تبلیغ ظاہر ہ کی تو آپ نے بالکل پیغام نہ پہنچایا ( واللہ یعصمک من الناس اور اللہ تجھ کو بچالے گا لوگوں سے) لوگوں سے حفاظت کرے گا اور روکے گا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کے سر پر زخم لگا آپ کے دندان شہید ہوئے اور کئی طرح کی تکلیفیں دی گئیں تو یہ کیسی حفاظت ہوئی ؟ تو جواب دیا گیا کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ قتل سے بچائے گا کہ لوگ آپ (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکیں گے اور بعض نے کہا یہ آیت آپ (علیہ السلام) کا سر زخمی ہونے کے بعد نازل ہوئی۔ اس لیے کہ سورة مائدہ قرآن مجید میں سب سے آخر میں نازل ہوئی اور بعض نے کہا کہ اللہ نے لوگوں میں آپ (علیہ السلام) کو عصمت کے ساتھ خاص کیا ہے اس لیے کہ نبی (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں (ان اللہ لایھدی القوم الکفرین بیشک اللہ راستہ نہیں دکھلاتا قوم کفار کو) من یعصمک منی تمہیں مجھ سے کون بچائے گا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوٹ رہے تھے تو ایک خاردار وادی میں قیلولہ کے لیے رک گئے تو نبی کریم ﷺ سواری سے اترے اور لوگ درختوں کا سایہ تلاش کرنے کے لیے بکھر گئے۔ نبی کریم ﷺ ایک درخت کے نیچے ٹھہرے اور اپنی تلوار اس پر لٹکا دی اور ہم سو گئے تو نبی کریم ﷺ نے ہمیں آواز دی ہم بیدار ہوئے تو آپ (علیہ السلام) کے پاس ایک بدو بیٹھا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس نے میری تلوار اٹھائی، میں سوایا ہوا تھا، میں بیدار ہوا تو وہ اس کے ہاتھ میں تنی ہوئی تھی تو کہنے لگا آپ (علیہ السلام) کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ تو میں نے تین مرتبہ اللہ کہا۔ آپ ﷺ نے اس کو کچھ نہیں کہا۔ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ بدو نے آپ (علیہ السلام) کی تلوار کھینچی اور کہنے لگا کہ اے محمد ! آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے کہا اللہ تو اس بدو کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی اور اپنا سر درخت پر مارنے لگا یہاں تک کہ اس کا دماغ پھٹ گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جاگتے تھے جب میدنہ آئے تو فرمانے لگے کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک شخص رات کو میری چوکیداری کرتا تو اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کون ہے ؟ کہا میں سعد بن ابی وقاص ؓ ہوں ، آپ کی چوکیداری کے لیے آیا ہوں تو نبی کریم ﷺ سو گئے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی پہرہ داری کی جاتی تھی یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ( اللہ بچائے گا آپ کو لوگوں سے) تو نبی کریم ﷺ نے گنبد سے سر نکالا اور فرمایا اے لوگو ! تم چلے جائو اللہ تعالیٰ نے مجھے حفوظ کردیا ہے۔
Top