Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 65
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَكَفَّرْنَا : البتہ ہم دور کردیتے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَ : اور لَاَدْخَلْنٰهُمْ : ضرور ہم انہیں داخل کرتے جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : نعمت کے باغات
اگر (اس سرکشی کے بجائے) یہ اہل کتاب ایمان لے آتے ‘ اور خدا ترسی کی روش اختیار کرتے ‘ تو ہم انکی برائیاں ان سے دور کردیتے ۔ اور ان کی نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے ۔
(آیت) ” نمبر 65 تا 66۔ ان دو آیات کے اندر اسلامی تصور حیات کا ایک عظیم اصول بیان کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دو آیات سے انسانی زندگی کی ایک اساسی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہاں اس اصول کی مناسب وضاحت کی ضرورت ہے اور دور جدد میں اس وضاحت کی ضرورت پہلے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ عقل انسانی اور انسانی پیمانے اور انسانی حالات بدلتے رہتے ہیں اور ان میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔ دور جدید کے ان اضطرابات اور فکری انتشار کی وجہ سے اس عظیم حقیقت کے سمجھنے میں بھی انسان صحیح راہ گم کرسکتا ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ ایمان لائیں اور اگر وہ ایمان لے آئیں تو اللہ ان کی تمام تقصیرات معاف کردے گا اور انہیں جنت نعیم میں داخل کر دے گا اور یہ تو ہے جزائے آخرت ۔ لیکن اگر انہوں نے اپنی اس دنیا کی زندگی میں اللہ کا وہ نظام رائج کیا ہوتا جو تورات اور انجیل میں ان کے ہاں موجود تھا اور جو تعلیمات اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کی تھیں جن میں انہوں نے بعد میں تحریف کردی تھی ‘ تو اگر وہ ایسا بھی کرتے تو ان کو کم از کم یہ دنیاوی زندگی تو اچھی طرح گزرتی ۔ ان کے ہاں ترقی ہوتی اور ان کے رزق حلال میں اضافہ ہوتا اور ان کے اوپر آسمان سے رزق نازل ہوتا اور ان کے نیچے سے زمین ان کے لئے سونا اگلتی ‘ پیداوار زیادہ ہوتی اور ان کے درمیان وہ خوب تقسیم ہوتی اور ان کے دنیاوی امور ومسائل سب کے سب حل ہوجاتے ۔ لیکن افسوس کہ نہ تو وہ ایمان لاتے ہیں ‘ نہ خدا ترسی کی روش اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اسلامی نظام زندگی نافذ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہاں ان میں سے قلیل لوگ ان کی تاریخ میں ایسے رہے ہی جو صراط مستقیم پر چلنے والے تھے اور اپنے نفوس کے خلاف انہوں نے ظلم نہ کیا تھا لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ بد عمل تھے ۔ (آیت) ” وکثیر منھم سآء ما یعملون “۔ (5 : 66) یوں ان دو آیات سے بالکل واضح نظر آتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کا قیام اور اس دنیا کی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونا صرف اس بات کا ضامن نہیں ہے کہ وہ ایسا کرنے والوں کے لئے اخروی زندگی کی بھلائی کے اسباب فراہم کردے گا ۔ اگرچہ اسلامی نظام کے قیام کا بڑا اور دائمی مقصد فلاح اخروی کا حصول ہے ۔ وہ بھی نہایت ہی اہم اور دائمی مقصد ہے لیکن اقامت دین اس دنیا کے مسائل کا بھی حل ہے اور دین قائم کرنے والوں کی دنیا بھی اچھی ہوگی ۔ اس دنیا کے وسائل زیادہ ہوں گے ‘ ان کی تقسیم بہت ہی اچھی طرح ہوگی ۔ معاشرے کے اندر ایک کفالتی نظام قائم ہوگا اور معاشرہ دنیاوی اعتبار سے خود کفیل ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ اسلامی معاشرے کے اندر پائی جانے والی معاشی خوشحالی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں اس تصویر کشی میں فیضان اور کثرت کا اظہار ہے ۔ (لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم “۔ (5 : 66) ” تو ان کے اوپر سے رزق برستا اور وہ کھاتے اور نیچے سے ابلتا “۔ یہاں یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق یہ بات نہیں ہے کہ ایک راستہ علیحدہ ہے جو جس وقت انسان اس راستے سے ادھر ادھر ہوگیا تو سمجھو کہ اس کی دنیا وآخرت خراب ہوگئی ۔ یہ واحد راستہ ایمان ‘ خدا ترسی اور اقامت دین کا راستہ ہے اور دینی نظام کے تحت زندگی گزارنے کا راستہ ہے ۔ یہ نظام صرف عقیدے ‘ صرف نظریئے اور صرف قلبی شعور کا نام نہیں ہے ۔ بیشک یہ چیزیں بھی اس کے اندر ہیں لیکن درحقیقت یہ قلبی شعور کے ساتھ انسانی زندگی کے لئے ایک عملی نظام بھی ہے جس کی اقامت فرض ہے اور اس کے مطابق زندگی کو تبدیل کرنا فرض ہے ۔ اور اقامت دین کے ساتھ ساتھ تقوی کی بھی ضرورت ہے ۔ تقوی ہی وہ معیار ہے جس کے ذریعے اس دنیا میں زندگی کو درست کیا جاسکتا ہے ۔ اسی کے ذریعے اس دنیا کی زندگی کا نظام درست ہو سکتا ہے اور رزق کی فراوانی ہو سکتی ہے ۔ ملک کے اندر پیداوار بڑھ سکتی ہے ‘ اس کی اچھی تقسیم ہو سکتی ہے تاکہ سب لوگ کھائیں اور پئیں اور اس نظام کے اندر ان کے لئے آسمان سے رزق برسے اور زمین ابلے ۔ ایمانی نظام حیات میں دین داری کے لئے ترک دنیا لازمی نہیں ہے اور نہ ہی سعادت اخروی کے حصول کے لئے دنیا میں ذلت اور خواری ضروری ہے ۔ آخرت کے لئے اس دنیا سے گزرنے کے سوا کوئی اور راہ نہیں ہے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہوں نے آج دنیا کے لوگوں کے افکار کو دھندلا کردیا ہے اور ان افکار کی وجہ سے لوگوں کی عملی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ لوگوں کی سوچ میں دنیا اور آخرت کے راستے جدا جدا ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے طرز عمل میں بھی ایک عظیم فرق واقعہ ہوجاتا ہے ۔ چناچہ ایک عام آدمی کی سوچ میں دنیا اور آخرت کے امتزاج کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔ اس طرح اس کرہ ارض پر پھیلی ہوئی دنیا کی سوچ میں بھی کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ دنیا اور آخرت کی راہ ایک ہوجائے ۔ ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ یہ لوگ یا تو دنیا اختیار کریں گے اس صورت میں انہیں آخرت کو ترک کرنا ہوگا اور یا وہ آخرت کی راہ لیں گے اور اس کے لئے انہیں دنیا ترک کرنا پڑے گی ۔ ایسا کوئی تصور نہیں ہے جس میں دنیا اور آخرت ایک ہی نظام میں جمع ہوجائیں اس لئے کہ اس دور میں لوگوں کی حقیقت صورت حال ‘ اس کے طور طریقے انسان کو اس طرح سوچنے پر مجبور کرتے تھے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گمراہ جاہلیت ‘ بے خدا جاہلیت اور اسلامی نظام سے بیخبر جاہلیت نے دنیا اور آخرت کے راستوں کو دور دور اور جدا کردیا ہے ۔ وہ ان دونوں راستوں کے درمیان فاصلے بڑھاتی چلی جاتی ہے اور دین کو بیخ وبن سے اکھاڑ کو پھینک دینا چاہتی ہے ۔ اس جاہلیت نے یہ لازم کردیا ہے کہ معاشرے کے اندر نمایاں ہونے اور دنیا کے مفادات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ راہ آخرت کو سرے سے بھلا دیا جائے ۔ ان دینی ہدایات کو قربان کردیا جائے ۔ بلکہ اخلاقی قدروں کو ترک کرلیا جائے اور بلند تصورات اور پاکیزہ طرز عمل کو چھوڑ دیا جائے اور یہی وہ امور ہیں جن پر ہمارا دین زور دیتا ہے ۔ چناچہ جو لوگ آخرت کے طلبگار ہیں انہوں نے اپنے اوپر لازم کردیا ہے کہ وہ اس زندگی کی تگ ودو سے علیحدہ ہوجائیں کیونکہ اس زندگی کے طور طریقے گندے ہیں اور ان ذریع سے جو لوگ معاشرے میں نمایاں ہوتے ہیں اور منافع کماتے ہیں وہ غلط طور طریقوں میں ملوث ہیں۔ کاروبار کے تمام ذرئع گندے ہیں اور انہیں صاف نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان کو دین واخلاق کے مطابق بنایا جاسکتا ہے ۔ یہ ذرائع اللہ کی مرضی کے مطابق بن ہی نہیں سکتے اس لئے اگر دین میں کمال حاصل کرنا ہے تو دنیا سے قطع تعلق کرنا ہوگا ۔ یہ جدید جاہلیت اس موجودہ صورت حالات کو حتمی سمجھتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ اس بری صورت حال سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ دنیا وآخرت کے درمیان اتحاد ممکن نہیں ‘ نہ ان دو راستوں کا ملانا ممکن ہے ‘ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ یہ کوئی ناقابل اتحاد صورت حال نہیں ہے ۔ دنیا آخرت کے درمیان تضاد اور دنیا اور آخرت کے راستوں کے درمیان یہ جدائی جو جاہلیت نے پیدا کردی ہے یہ کوئی آخری اور فیصلہ کن حقیقت نہیں ہے ‘ نہ یہ صورت حال ناقابل تغیر اور ناقابل اصلاح ہے ۔ بلکہ موجودہ صورت حال نہایت ہی غیر فطری ہے اور اس کا تبدیل کیا جانا لازمی ہے ۔ یہ تو ایک عارضی چیز ہے اور موجودہ حالات انسانیت پر مسلط کئے ہوئے حالات ہیں۔ اصل حقیقت وہ ہے جس میں دنیا وآخرت کی راہ ایک ہو ۔ آخرت کی بھلائی کی راہ بھی وہی ہو ‘ جس میں دنیا کی بھلائی ہو ‘ اور جس میں دنیا کا پیداوار عمل ‘ ترقی اور نشوونما ‘ کثرت پیداوار اور زراعت اور زمین کی ترقی کی راہ ہی ثواب آخرت کا باعث اور ذریعہ ثابت ہو۔ جس طرح یہ کام اس دنیا کی بھلائی کے کام ہیں اسی طرح ایمانداری ‘ خدا ترسی اور عمل صالح بھی اس دنیا کی تعمیر و ترقی کا باعث ہوں ۔ جس طرح یہ امور اللہ کی رضا کا سبب ہوں اور ان پر آخرت میں ثواب ملے اسی طرح یہ امور ہماری دنیاوی ترقی کا باعث ہوں۔ انسانی فطرت اور مزاج کے مطابق اور اصلی اور سیدھی راہ ہی ہے ۔ اس فطری اور اصلی راہ پر انسانیت کا گامزن ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسانی زندگی اس نظام کے مطابق ڈھل جائے جو اللہ کا پسندیدہ ہے اس لئے کہ یہ نظام ہی تمام اعمال کو عبادت بنا دیتا ہے اور یہی تو وہ نظام ہے جو انسان کے عمل خلافت فی الارض کو عبادت بنا دیت ہے ۔ خلافت فی الارض کیا چیز ہے ‘ یہ عبارت ہے عمل اور پیداوار سے ‘ زیادہ سے زیادہ ترقی اور نشوونما سے ۔ انسان کو جو رزق آسمانوں کے ذریعے ملتا ہے اس کی منصفانہ تقسیم خلافت ہے ۔ ذراغور کیجئے اللہ تعالیٰ اس آیت میں کیا فرماتے ہیں ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق اس زمین پر انسان اللہ کا خلیفہ ہے ۔ یہ خلافت اسے اللہ کے اذن سے حاصل ہوئی ہے اور یہ ایک مشروط خلافت ہے ۔ وہ یہ کہ عمل خلافت اسلامی منہاج کے مطابق ہو اور نظام خلافت نظام شریعت کے مطابق چلے ۔ انسان اللہ کا مطیع ہو اور آخرت کے ثواب کا طلبگار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا کوئی عمل جس سے دنیا میں کوئی پیداوار حاصل ہو یا وہ عمل جس سے خام مال کام میں لایا جائے اور لوگوں کے لئے اسے مفید بنایا جائے ‘ خواہ وہ زمین کے اندر ہو یا مافوق کائنات کے اندر ہو ‘ یہ تمام کام اس نظریہ خلافت فی الارض کے تحت آتے ہیں اور عبارت قرار پاتے ہیں ۔ اس خلافت کے عمل ہی کا نتیجہ ہے کہ اگر انسان اس پر درست طور پر چلے تو اسے زمین کے اندر سے بھی رزق ملے گا اور آسمانوں سے بھی اس پر فیضان اور نزول برکات ہوگا ۔ یہ بات قرآن کریم کے انداز تعبیر سے اچھی طرح معلوم ہو سکتی ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق جو انسان زمین کے سینے کو نہیں چیرتا ‘ اس سے چشمے اور نہریں نہیں نکالتا اور اس کائنات کے دوسرے قدرتی وسائل کو کام میں نہیں لاتا ‘ وہ اللہ کا نافرمان اور گنہگار ہے اور فریضہ خلافت فی الارض کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتا ہے جس کے لئے اسے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ۔ (آیت) ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ) ” میں زمین کے اوپر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں “۔ اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” وسخرلکم مافی السموات وما فی الارض جمیعا منہ) ” اور اس نے مسخر کیا تمہارے لئے وہ سب کچھ جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے خود اپنی جانب سے “۔ اگر کوئی شخص ترقیات کا کام نہیں کرتا تو وہ گویا اس رزق کو معطل رکھتا ہے جو اللہ نے اس کے لئے پیدا کیا ہے اور جب اس نے اپنی دنیا کو خسارے میں ڈال دیا تو اس کے ساتھ ہی آخرت کا خسارہ بھی ہوگیا ۔ اس نظریے کے مطابق اسلامی منہاج حیات دنیاوی عمل اور اخروی کامیابی کے درمیان ایک حسین امتزاج اور ہم آہنگی پیدا کردیتا ہے ۔ اس لئے اسلام انسان کو یہ مشورہ نہیں دیتا کہ وہ ترک دنیا کرے تاکہ اسے آخرت ملے وہ یہ مشورہ بھی نہیں دیتا کہ وہ آخرت ترک کر دے تاکہ اس کی دنیا بہتر ہوجائے ۔ اس لئے کہ دنیا اور آخرت کے درمیان ‘ اسلامی تصور حیات کے مطابق کوئی تضاد نہیں ہے یہ نہ متضاد ہیں اور نہ متبادل ہیں۔ اس دنیا کے تمام انسان اسلامی تصور حیات کے مطابق اللہ کی جانب سے مقام خلافت فی الارض پر فائز ہیں ۔ تمام اقوام وملل کے انسان خلیفۃ اللہ ہیں۔ جنس انسان خلیفہ ہے لیکن کیا یک فرد انسان کی ذمہ داری اس دنیا کے معاملے میں کوئی مختلف ہے ۔ نہیں وہ بھی خلفیہ ہے ‘ اسلامی تصور حیات کے مطابق جو انسانی جماعت کا فریضہ ہے وہ ایک انسان پر بھی فرض ہے ۔ فرد اور معاشرے کے فرائض میں کوئی فرق ‘ کوئی تضاد اور تعارض ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اسلام ہر فرد پر یہ فرض کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری جسمانی اور عقلی قوت کو زمین و آسمان کے قدرتی وسائل رزق کی ترقی میں صرف کرے لیکن یہ عمل وانتاج اور یہ کثرت پیداوار اللہ کے لئے ہو اس عمل میں وہ کوئی ظلم نہ کرے ‘ کسی کے ساتھ غداری نہ کرے ۔ اس میں چوری نہ کرے خیانت نہ کرے ‘ حرام نہ کھائے اپنے دوسرے بھائی کا حق نہ مارے ‘ اور اس کے پاس جو وسائل جمع ہوں ان کو تقسیم کرے اگرچہ یہ وسائل اسکی انفرادی ملکیت میں ہوں اور اسے ان کے رکھنے کا پورا پورا حق ہو ۔ معاشرے کو اس کے وسائل سے اور اس کی پیداوار سے وہی کچھ لینے کا حق ہو جو اللہ نے مقرر کیا ہے ان حدود وقیود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے والے کے اس کام کو اسلامی نظام ایک عبادت قرار دیتا ہے ۔ اس عبادت کا فائدہ اسے دنیا میں بھی ہوگا آخرت میں بھی ہوگا ۔ پھر یہ اسلامی نظام حیات ایک فرد اور اس کے رب کے درمیان ایک مخصوص رابطہ ان عبادات کے ذریعے ہوتا ہے جو اسلامی نظام نے تعلق باللہ کے لئے تجویز کی ہیں تاکہ اس فرد انسان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم رہے ۔ مثلا بذریعہ فرضیت نماز دن میں پانچ مرتبہ یہ تعلق تازہ سے تازہ ہوتا رہے ۔ رمضان شریف میں سال میں ایک ماہ بذریعہ صیام رمضان قوی سے قومی تر ہوتا رہے ۔ پھر ساری عمر میں کم از کم ایک بار حج کرکے یہ رابطہ اب مزید مستحکم سے مستحکم ہوتا چلا جائے اور وہ مذکورہ بالا جو پیدا واری عمل کرتا ہے اس سال میں ایک بار زکوۃ ادا کرکے یہ رابطہ مضبوط ہوتا رہے ۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عبادات کی اسلامی نظام میں کیا قدر و قیمت ہے ۔ یہ گویا اللہ کے ساتھ ایک قسم کا تجدید عہد کرتا ہے ۔ اس نظام حیات کی ذمہ داریوں میں وہ ذمہ داریاں بھی شامل ہیں جو اس نے اس کرہ ارض پر پیداواری عمل ‘ دولت کی منصفانہ تقسیم اور لوگوں کے درمیان جب اختلافات پیدا ہوجائیں تو ان کے مقدمات کے فیصلوں کے سلسلے میں ادا کرنی ہیں۔ ان عبادات کے ذریعے اس کے اندار از سر نو شعور تازہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کا اس سلسلے میں مدد گار ہے ۔ وہ تمام فرائض جو اسلام کے اجتماعی نظام کے قیام اور اس کے انتظام وانصرام کے سلسلے میں اس پر عائد ہوتے ہیں اللہ ان میں اس کا مدد گار ہے ۔ اس راستے میں اس کی اپنی خواہشات ‘ نفسانی تقاضے ‘ لوگوں کا بغض وعناد ‘ لوگوں کا انحراف اور فسق وفجور وغیرہ جو رکاوٹیں پیدا کریں گے اللہ اس میں معاون ہوگا ۔ یہ اسلامی عبادات اور اس دنیا کی سرگرمیاں مثلا پیدا واری عمل ‘ تقسیم ‘ دولت اور انتظامیہ اور عدلیہ کے کام اور اللہ کے نظام کے قیام کے سلسلے میں اقدام ودفاع اور اسلامی مملکت کے قیام وغیرہ کے تمام کاموں سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے ۔ ایمان ‘ خدا ترسی اور تقوی بھی اس اسلامی نظام کا ایک حصہ ہیں جس طرح کا حصہ دوسرے امور حیات ہیں ۔ چناچہ یہی وہ تصور حیات ہے جس کے مطابق ایمان اور تقوی اس دنیا میں فراوانی رزق اور کثرت پیداوار کا باعث بنتے ہیں اور جس کی صراحت یہ دو آیات کرتی ہیں ۔ اسلامی تصورحیات اور اس سے مستنبط ہونے والا اسلامی نظام زندگی کو اخروی زندگی کو اس زندگی پر ترجیح دیتا ہے اور نہ اس زندگی کو اخروی زندگی پر ترجیح دیتا ہے ۔ اسلامی تصور کے مطابق دنیا وآخرت سفرانسانی کے دو مراحل ہیں اور یہ ایک ہی راستے کی دو منزلیں ہیں ۔ ایک ہی راہ اور ایک ہی جدوجہد سے دونوں کا حصول ہوتا ہے لیکن دنیا وآخرت کا یہ معجون صرف اسلامی نظام زندگی کے طریق کار کے مطابق تیار ہو سکتا ہے ۔ یہ مقصد صرف اسلامی نظام کے اتباع میں حاصل ہو سکتا ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ دنیا میں خالص اسلامی نظام رائج کیا جائے ۔ اس کے اندر کوئی دوسرا نظام داخل نہ کیا جائے ‘ نہ اس کے اندر کوئی ایسی چیز ہو جو اسلامی نظام کی نہ ہو ۔ نہ اس کے اندر کسی شخص کے ذاتی رجحانات کو شامل کیا جائے ۔ اسلامی نظام اور اس پر اسلامی تصور حیات ایمان ‘ تقوی اور صالحیت کی ایسی تعبیر نہیں کرتا کہ وہ دنیاوی سرگرمیوں پیداوار ‘ نشوونما ‘ زندگی کی تحسین وتجمیل کے مخالف یا متبادل ہو ‘ یا ایسا بھی تصور نہیں دیتا کہ وہ آخرت اور حصول جنت کے لئے راہ کی نشاندہی تو کرے مگر ان کے لئے دنیاوی بہتری اور دنیا کو جنت بنانے کے لئے آزاد چھوڑ دے کہ وہ اپنے لئے خود ہی کوئی راہ بنائی جس طرح چاہیں۔ یہ تصور ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس دور جدید میں اسلام کا محض سطحی مطالعہ کیا ہے ۔ رہا اسلامی تصور حیات تو اس کے اندر تمام سرگرمیاں ‘ تمام پیداواری اعمال ‘ نشوونما کے طریقے ‘ اور اس زندگی کی ہر قسم کی تحسین وتجمیل اسلام کا تقاضا ہیں اور تصور خلافت فی الارض کے فرائض ہیں جبکہ یہ خلافت تمام انسانوں کا حق ہے ۔ ایمان ‘ عبادت اصلاح اور تقوی وہ رابطے ‘ وہ ضابطے ‘ وہ محرکات اور وہ دواعی ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں اسلامی نظام عملا قائم ہوتا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں مل کر انسان کو جنت ارضی اور جنت ساوی کا اہل اور مستحق بناتی ہیں ۔ یہی ہے صحیح راستہ اور اس کے مطابق الدین اور عملی مادی زندگی کے درمیان کوئی دوئی اور تضاد نہیں ہے ۔ جس طرح اس وقت تمام کرہ ارض پر پھیلی ہوئی مادی جاہلیتوں نے یہ صورت حال بنا دی ہے کہ دین اور مادیت کے درمیان فرق کردیا گیا ہے ۔ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ الجھن پیدا ہوتی ہے کہ آخرت کے حصول کے لئے ترک دنیا لازم ہے اور یہ کہ کسی تصور اور کسی عملی نظام کے مطابق دنیا وآخرت کے درمیان اجتماعی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی دنیا وآخرت اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔ یہ مکروہ فرق جو دنیا اور آخرت کے راستوں کے اندر روا رکھا گیا ہے ‘ دنیاوی اعمال اور آخروی اعمال کے درمیان جو لائن کھینچ دہ گئی ہے ‘ روحانی ترقی اور مادی ترقی کے درمیان جو بعد المشرقین پیدا کردیا گیا ہے اور دنیاوی زندگی میں کامیابی اور اخروی زندگی کی فلاح کے درمیان پیدا کردیا گیا ہے اور دنیاوی زندگی میں کامیابی اور اخروی زندگی کی فلاح کے درمیان جو بعد پیدا کردیا گیا ہے ۔ یہ مکروہ جدائی انسان پر تقدیر الہی نے نہیں عائد کی ، نہ قضا وقدر کے احکام الہیہ نے ایسی کوئی تفریق کی ہے ۔ یہ تو ایک نہایت ہی مکروہ بوجھ ہے جو انسانیت نے خود اپنے اوپر عائد کیا ہے اور یہ اس نے اس لئے عائد کرلیا ہے کہ اس نے اسلامی نظام زندگی کو اپنی زندگی سے جلا وطن کردیا ہے اور اپنے لئے از خود نظامہائے زندگی گھڑ لئے ہیں جو اسلامی زندگی سے متضاد اور مخالف ہیں۔ یہ وہ بوجھ ہے جس نے انسان کے اعصاب کو توڑ دیا ہے اور اس کی دنیاوی زندگی بھی تلخ ہوگئی ہے ۔ اس کی وجہ سے انسان کو جو اخروی ہلاکت ہوگی وہ اس سے بھی زیادہ سخت اور بہت ہی تلخ ہوگی ۔ لیکن یہ لوگ اس از خود عائد کردہ فریضے کو تسلسل کے ساتھ پورا کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی زندگی نہایت تلخ ہوگئی ہے ۔ وہ تحیر ‘ دل تنگی اور فکری پریشانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے اس لئے کہ وہ اللہ پر ایمان لانا بھی چاہتے ہیں اور ایسے معاشرے میں بھی زندہ رہ رہے ہیں اور ایسے بین الاقوامی حالات میں بھی رہ رہے ہیں جس کے طور طریقے ‘ جس کے افکار و تصورات اور جس کا تمام کاروبار اور جس کے تمام وسائل کسب ومعاش اور جس میں کامیابی کے تمام راستے اللہ کے راستے سے متضاد ہیں ۔ اس میں دینی تصورات اور دینی عقائد اور مروجہ اخلاقیات کے درمیان تضاد ہے ‘ اس کا طرز عمل اس کے قوانین اور ضابطے اور اس کی اقدار اور ترجیحات تمام کی تمام دین اور ضمیر کے خلاف ہیں ۔ اس وقت پوری انسانیت اس بدبختی کا شکار ہے ‘ چاہے وہ مادی اور الحادی مذاہب کی پیرو ہو یا کسی ایسے مادی مذہب کے تحت زندگی بسر کر رہی ہو جس کے پیرو کار اگرچہ مذہب کو مانتے ہوں لیکن مذہب کو علمی زندگی کے دائرے سے دور رکھے ہوئے ہوں یہ مذاہب ایسا سوچتے ہیں یا ان کے لئے انسانیت کے دشمن ایسی سوچ رائج کرتے ہیں کہ ” دین “ اللہ کے لئے ہے اور یہ زندگی لوگوں کے لئے ہے اور یہ کہ دین ’‘ اخلاق اور شعور اور عبادت پر مشتمل ہوتا ہے اور لوگوں کی عام زندگی کا نظام قانون اور طرز عمل اور پیداواری مشغولیات سب کی سب دین کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں ۔ اس وقت پوری دنیا ایک جبری ٹیکس کے طور پر یہ بھاری قیمت ادا کررہی ہے ۔ بدبختی ‘ انتہائی قلق ‘ حیرانی ‘ پریشانی اور زندگی کا روحانی خلا ایک ایسا ٹیکس ہے جو انسان نے خود اپنے اوپر عائد کر رکھا ہے ۔ یہ ٹیکس اسے اس لئے ادا کرنا پڑتا ہے کہ یہ دنیا اسلامی نظام زندگی کو قبول نہیں کرتی جس میں دنیا اور آخرت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے بلکہ اس نظام کے اجزائے ترکیبی میں دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں ۔ اس نظام میں دنیا میں حاصل ہونے والی سہولت و آرام اور آخرت میں حاصل ہونے والے آرام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ان کے اندر مکمل ہم آہنگی ہے ۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہے ‘ یہ کہ بعض اقوام جو ایمان سے بھی محروم ہیں ‘ نہ ان کے اندر خدا خوفی ہے اور نہ وہ اسلامی منہاج حیات کو تسلیم کرتی ہیں لیکن ان کے ہاں دنیاوی پیداوار دنیاوی سہولتیں ضروریات زندگی کی بڑی کثرت پائی جاتی ہے ۔ بیشک بعض ادوار میں دنیا کی تاریخ میں بعض عارضی وقفے ایسے رہے ہیں سین یہ قصے دیرپا نہیں رہے ۔ اس لئے ہم ان وقفوں کے اندر پائی جانے والی زندگی کی اللہ کی سنن ثانیہ قرار نہیں دے سکتے ۔ بہت جلد ہی ایسی امتوں اور سوسائٹیوں کے اندر دین ودنیا کی اس تفریق کے برے نتائج نمودار ہوئے ہیں اور آج کے دور میں لادینی معاشروں کے اندر درج ذیل برے آثار نمودار ہورہے ہیں ۔ (1) ۔ ان معاشروں کے اندر دولت کی تقسیم کے اندر توازن نہیں رہا ‘ بعض لوگ زیادہ امیر اور بعض زیادہ غریب ہوگئے ہیں ۔ ان معاشروں کے اندر بےپناہ مشکلات اور کینہ پروریاں پیدا ہوگئیں اور پھر خفیہ ایجنسیوں اور طبقاتی کشمکش کی وجہ سے آنے والے انقلابات کے خوف چھائے رہتے ہیں اور تمام لوگوں کی زندگیاں تلخی کا شکار ہیں ۔ (2) ۔ بعض قوموں کے اندر نہایت گھٹن ‘ جبر اور دباؤ کی فضا قائم ہوگئی ہے ۔ ان اقوام نے چاہا کہ زبر دستی دولت کو غیر فطری طریقے کے مطابق لوگوں کے اندر تقسیم کیا جائے ۔ اس غیرفطری تقسیم دولت کے نتیجے میں سخت توڑ پھوڑ اور خوف وہراس اور قتل و غارت معاشروں کی عادت بن گئی ۔ اس جبری تقسیم دولت کے نتیجے میں ان معاشروں میں نہایت ہی تشدد کا رواج ہوا ۔ یہ جبری نظام انسانیت پر وہ مصیبت لایا کہ تمام لوگوں کا اطمینان غارت ہوگیا اور لوگ آرام اور اطمینان کی ایک رات کے لئے ترس گئے ۔ (3) ۔ ان معاشروں کے اندر نفسیاتی اور اخلاقی بیماریوں نے جنم لیا اور اس کی وجہ سے جلد یا بدیر ان مادی معاشروں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا پڑے گا اس لئے کہ ہر سرگرمی ‘ مادی ترقیاں اور تقسیم دولت کے نظام کو بھی تو اخلاقی ضوابط درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مادی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں لوگ قانون کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں اور اس وقت ان تمام ممالک کے قانون نظام کو عوام کی جانب سے کوئی اخلاقی تائید حاصل نہیں ہے ۔ (4) ۔ ان نظاموں میں جہاں دین ودنیا کی تفریق ہوئی ہے لوگ اعصابی میں مبتلاہو جاتے ہیں ۔ آج دنیا کے نہایت ہی ترقی یافتہ ممالک کے اندر اعصابی بیماریاں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں اور ان کی اس بےاخلاق مادی ترقی نے ان کی ذہنی قوتوں اور قوت برداشت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے ان ممالک کے اندر پیداواری عمل اور پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے ‘ خود اقتصادی ترقی اور مادی سہولیات میں کمی ہو رہی ہے اور یہ وہ بڑے بڑے نتائج ہیں جو کافی واضح ہو کر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ (5) ۔ اس کے علاوہ وہ عظیم تباہی ‘ جس سے تمام انسانیت لرزاں ہے ‘ جس کا خطرہ ہر وقت سروں پر کھڑا ہے اور جس کی وجہ سے دنیا مضطرب ہے وہ خطرہ تباہ کن ‘ مکمل طور پر تباہ کن جنگ کا ہے ۔ یہ خطرہ ہر انسان کے اعصاب کو متاثر کر رہا ہے ‘ چاہے وہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اور اس کی وجہ سے بھی کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ سکتہ عارضہ قلب ‘ دماغی عارضہ اور اقدام خود کشی جیسی امراض جس طرح مغربی معاشرہ کے اندر پھیلی ہوئی ہیں اس طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ہیں ۔ (6) ۔ یہ تمام آثار تمام ترقی یافتہ ممالک کے اندر واضح طور پر ظاہر ہو رہے ہیں اور جو قومیں اس کے نتیجے میں تباہی اور ٹوٹ پھوٹ کی طرف بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں ان میں سے ممتاز ترین فرانس ہے جو ہر لحاظ سے زوال کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ فرانس کی تباہی دوسروں کے لئے عبرت ہے اور اس تباہی کا سبب صرف یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ کے ربانی نظام کو دنیاوی ترقی کے میدان سے خارج البلد کردیا ہے ۔ دنیا اور آخرت کی راہیں جدا کردی گئی ہیں ۔ دین کو انسان کی زندگی سے نکال دیا گیا ہے ۔ لوگوں نے آخرت کے لئے زندگی کا نظام اللہ سے لینا شروع کردیا ہے اور دنیا کے لئے زندگی کا نظام وہ لوگوں سے لیتے ہیں اور اسلامی نظام اور لوگوں کے درمیان مکمل دوئی ہوگئی ہے۔ قرآن کریم نے اس عظیم اصول کو جس طرح وضع کیا ہے اس پر اپنے اس تبصرے کو ختم کرنے سے پہلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اسلامی نظام جس نے ایمان ‘ تقوی اور انسان کی واقعی زندگی کے درمیان جو حسین امتزاج پیدا کیا ہے اور جس طرح اخلاقیات کو عمل پیہم اور نظریہ خلافت فی الارض سے منسلک کیا ہے ‘ تو یہی وہ توازن ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور دنیا میں بسنے والی تمام انسانی سوسائٹیوں کے لئے لازمی قرار دیا ہے ۔ اگر وہ اپنے اندر یہ حسین امتزاج پیدا کریں گے تو وہ رزق وافر پائیں گے ۔ آسمان ان کے لئے اپنے خزانے برسائے گا اور زمین اپنے خزانے اگل دے گی ۔ اس امتزاج کی صورت میں اگر ان سے دنیا میں کوئی اخلاقی کو تاہیاں بھی ہوں گی تو بھی آخرت میں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور دنیا میں ان کو فردوس ارضی ملے گی جس میں وافر ضروریات ‘ امن وسلامتی اور اطمینان قلب ہوگا اور آخرت میں جنت ملے گی جس میں نعیم مقیم ہوگا اور رضائے الہی ہوگی ۔ لیکن ان تمام حقائق کے ہوتے ہوئے بھی اور اس کی تاکید کرتے ہوئے بھی ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اسلامی نظام کا مرکزی ستون اور پہلا قاعدہ ایمان تقوی اور اسلامی نظامی کا قیام ہی ہے ۔ جب اسلامی نظام قائم ہوجائے تو فعالیت ‘ پیداوار ‘ ترقی اور تبدیلی جیسے عوامل خود بخود وجود میں آجاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط پیدا ہوجانے سے زندگی کے تمام امور کے اندر انسان کا ذوق بدل جاتا ہے ۔ تمام اقدار بلند ہوجاتی ہیں ۔ زندگی کے پیمانے درست ہوجاتے ہیں ۔ اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام حیات کا یہ اصل الاصول ہے ۔ تمام دوسری چیزیں اسی اصول بلکہ الاصول کے بعد وجود میں آتی ہیں تمام شاخیں اس سے پھوٹتی ہیں اور اس اصول کی طرف راجع ہوتی ہیں اور دنیا و آخرت کے تمام معاملات نہایت ہی توازن اور تناسق میں طے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اب یہ بات آپ پلے سے باندھ لیں کہ ایمان ‘ تقوی ‘ عبادت ‘ اللہ سے ربط ‘ وصل الی اللہ اور زندگی میں شریعت کے قیام سے اللہ کو کیا فائدہ ہے ۔ یہ سب امور تو انسان ہی کی بھلائی کے لئے ہیں ۔ انسانی زندگی کے درست کرنے ہی کے لئے تو ہیں ۔ اللہ تو غنی بادشاہ ہے ۔ اسلامی نظام زندگی نے تمام امور کو ایمان باللہ اور تقوی پر موقوف کردیا ہے ۔ اگر ایمان نہیں ہے تو عمل باطل ہے ۔ تمام سرگرمیاں جو اس اصول پر مبنی نہ ہوں کالعدم ہیں ‘ محض ہوا و غبار ہیں ‘ نسیا ‘ منسیا ہیں اور ہوا میں تحلیل ہونے والی ہیں یہ کیوں ؟ کیا ان سے اللہ کو کوئی فائدہ ہے اگر تمام لوگ ایمان لائیں تو اللہ کو کوئی چیز ملتی ہے ‘ کیا لوگوں کے تقوی اور اسلامی نظام حیات کے مقام سے اللہ کو کوئی فائدہ ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان چیزوں کے سوا لوگوں کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔ ان کے سوا ان کی فلاح ممکن بھی نہیں ہے ۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ ایک حدیث قدسی میں حضور ﷺ سے روایت فرماتے ہیں ‘ اللہ نے فرمایا ! ” اے میرے بندو ! میں نے تو اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا ہے ‘ اور اسے میں نے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دے دیا ہے ۔ اس لئے باہم ظلم نہ کرو ۔ اے بندو ! تم میں سے صرف وہی ہدایت پر ہو گا جسے میں نے ہدایت دی باقی سب گمراہ ہوگے ۔ اس لئے ہدایت مجھ ہی سے طالب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو ! تم میں سے سب بھوکے رہیں گے الا وہ شخص کہ اسے میں نے کھانا دیا ۔ لہذا مجھ سے ہی رزق طلب کرو۔ میں تمہیں ضرور رزق دوں گا اے میرے بندو ! تم میں سے سب ننگے ہیں ۔ ماسوائے اس شخص کے جسے میں پہنا دوں۔ اس لئے مجھ ہی سے پوشاک طلب کرو ‘ میں تمہیں پوشاک دوں گا ۔ اے میرے بندو ! تم رات اور دن غلطیاں کرتے ہو اور میں تمہارے سب گناہ معاف کرتا ہوں ۔ لہذا تم مجھ سے ہی مغفرت طلب کرو ‘ میں تمہیں بخش دوں گا ۔ اے میرے بندو ! تم مجھے نقصان پہنچانے کی قدرت ہی نہیں رکھتے کہ مجھے نقصان پہنچاؤ اور تم مجھے نفع پہنچانے کی طاقت ہی نہیں رکھتے کہ مجھے نفع پہنچاؤ اے میرے بندو ! اگر تم سے پہلے شخص اور آخری شخص اور تمہارے سب انسان اور سب جنات اس معیار پر پہنچ جائیں جس پر تم میں کوئی ایک زیادہ سے زیادہ متقی ہو سکتا ہے تو اس سے میری شہنشاہیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اے میرے بندو ! اگر تم سے پہلا شخص اور آخری شخص اور تمہارے سب انسان اور سب جن اس قدر برے ہوجائیں جس طرح تم میں کوئی ایک شخص ہو سکتا ہے تو وہ میری ملکیت میں سے کوئی چیز کم نہیں کرسکتا ۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارا پہلا شخص اور آخری شخص اور تمہارے سب انسان اور سب جن ایک ہی میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کے سوال کو قبول کروں تو میرے خزانوں میں کوئی کمی نہ ہوگی ‘ صرف اس قدر کمی ہوگی جس طرح کوئی سوئی دریا میں ڈالے (اور نکالے) اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اعمال ہیں کہ میں تمہارے لئے گنتا ہوں اور پھر میں ان پر تمہیں جزا دیتا ہوں اگر کسی کو کوئی بھلائی نصیب ہو تو اسے چاہئے کہ اس پر میرا شکر ادا کرے ۔ اور اگر کسی کو بھلائی کے سوا کچھ ملے تو وہ صرف اپنے نفس کو ملامت کرے ۔ (روایت مسلم) صرف یہ اساس ہے جس میں ہمیں ایمان ‘ تقوی ‘ عبادت ‘ اور اسلامی نظام حیات کے قیام اور نفاذ شریعت کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ سب چیزیں تو ہمارے لئے ہیں ‘ انسانوں کے لئے ہیں ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ ان تمام امور کی ضرورت اس لئے درپیش ہوتی ہے کہ یہ انسان کی اصلاح و فلاح کے لئے ضروری ہیں ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ شرط جو اہل کتاب کے لئے عائد کی گئی ہے ‘ صرف انکے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اہل کتاب کے لئے جس شرط کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کی فلاح ایمان اور تقوی اور ان کے ہاں نازل کردہ کتب میں اسلامی نظام کے قیام پر موقوف ہے یعنی اقامت نظام تورات وانجیل پر ‘ ان ہدایات پر جو ان کے نبیوں کی زبانی دی گئیں تو یہ شرط ان کے لئے حضرت نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے دور کے لئے لگائی گئی ہے ۔ یہی شرط اب ہمارے لئے بھی ہے جن کی طرف قرآن کریم نازل کیا گیا ہے ۔ یہ شرط خود بخود ان لوگوں پر عائد ہوجاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے یہ مسلمان تو منصوص طور پر قرآن کریم پر بھی ایمان لاتے ہیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور دوسری کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں جو ان سے پہلے نازل کی گئیں ۔ ان کے لئے ان احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو ان پر نازل ہوئے اور ان پر بھی جو ان سے پہلے کی شریعتوں میں نازل ہوئے تھے اور اسلامی نظام نے ان کو منسوخ نہیں کیا ہے ۔ وہ تو مسلمان ہیں اور اسلام ان کا دین ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تو دین اسلام کے سوا کوئی اور دین سرے سے مقبول ہی نہیں ہے ۔ نہ وہ اب اس دین کے سوا کوئی اور دین کسی کی جانب سے قبول کرتا ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکالا کہ اہل کتاب کے لئے جو شرط برائے فلاح دنیا وآخرت مقرر کی گئی تھی وہ ہمارے لئے بطریق اولی شرط فلاح ہے ۔ اس کے ساتھ جو عہد کیا گیا تھا وہ ہمارے ساتھ بھی عہد ہے ۔ اور یہ لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اللہ کی اس پسند کو قبول کریں جو اللہ نے ان کے لئے پسند کیا تھا ۔ اللہ کی اس شرط سے فائدہ اٹھائیں جس سے ان سے گناہ معاف ہوئے اور آخرت میں وہ جنت میں داخل ہوئے اور یہ کہ ان پر آسمان سے رزق کی بارش ہوئی اور زمین نے ان کے لئے سونا اگلا۔ اہل اسلام تو اہل کتاب کے مقابلے میں زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اللہ کی اس شرط کو پورا کرکے فائدہ اٹھائین اس لئے کہ وہ اس وقت عالم اسلام میں بھوک ‘ افلاس ‘ خوف ‘ بیماری اور غربت میں مبتلا ہیں اور پورے عالم اسلام کی یہی حالت ہے ۔ یا اس مالک میں جو کبھی عالم اسلامی تھا اللہ کی شرط قائم ہے اور اس پر عمل کا طریقہ معلوم ہے اگر وہ سمجھیں یاسمجھنے کی کوشش کریں مگر افسوس کہ وہ نہیں سمجھتے ۔ درس نمبر 51 ایک نظر میں : اس سبق میں بھی اہل کتاب کے حالات کو لیا گیا ہے ۔ یہود ونصاری دونوں کے حالات کو۔ ان کے نظریاتی انحراف کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کی تاریخی بداعمالیوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ خصوصا یہودیوں کا ذکر تفصیل سے ہوا ہے ۔ ان کے اور رسول اللہ کے باہمی تعلق کی تحدید کی گئی ہے ۔ نیز مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلق کو طے کیا گیا ہے ۔ پھر ان کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ اور مسلمانوں کے فرائض کا تعین کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں ان عظیم نظریاتی امور کو بھی طے کیا گیا ہے جو اسلامی تصور حیات کی اساس کا درجہ رکھتے ہیں۔ نیز جماعت مسلمہ کے لئے تحریکی اصول کار اور حدود بھی وضع کئے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ان منحرف مقاصد و تصورات کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ تک جو تعلیم آرہی ہے آپ اسے لوگوں تک پہنچا دیں ۔ پوری کی پوری تعلیمات لوگوں تک منتقل کردیں ۔ ان میں سے کوئی چیز رہنے نہ پائے اور حالات سے متاثر ہو کر کوئی چیز ترک یا مؤخر نہ کی جائے ۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ نے فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے ۔ اور یہ جو حضور ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ بےکم وکاست پہنچا دیں اس میں سرفہرست یہ ہے کہ اہل کتاب کو یہ صاف صاف کہہ دیا جائے کہ جب تک تم توراۃ اور انجیل کو قائم نہ کرو اس وقت تک تمہاری کوئی پوزیشن نہیں ہے ۔ اس کے بعد جو اللہ کی طرف سے ہدایات آئی ہیں ان کی تبلیغ بھی ضروری ہے ۔ یہ تبلیغ اس طرح قطعی ‘ کھل کر ‘ صریح اور دو ٹوک انداز میں ہو کہ اس میں کسی قسم کا اجمال نہ ہو ۔ آپ یہ بھی اعلان کردیں کہ یہودیوں نے انبیاء کو قتل کیا اور اللہ کے ساتھ طے پاجانے والے میثاق کو توڑ کر کفر کا ارتکاب کیا ۔ نصاری نے بھی عقیدہ توحید میں تحریف کر کے حضرت مسیح کو خدا سمجھا اور پھر یہ کہ عقیدہ تثلیث اختیار کیا ۔ یہ بھی صریح کفر کے مترادف ہے آپ یہ بھی اعلان کردیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ عقیدہ شرک کے نتیجے میں ان پر جنت حرام ہوگی اور یہ بھی اعلان کردیں کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ذریعے بھی لعنت وملامت کی گئی اس لئے کہ وہ نافرمان اور بےعمل ہوگئے تھے ۔ اس سبق کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اہل کتاب اہل اسلام کے مقابلے میں اہل شرک کی حمایت کر رہے ہیں ۔ یہ بری حرکت وہ اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کا اللہ کی ذات پر صحیح طرح ایمان نہیں ہے ۔ نبی کریم ﷺ کو تو وہ بہرحال نہیں مانتے ۔ لیکن اگر وہ اب نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لائیں گے تو وہ مومن نہ ہوں گے ۔ اس اجمالی تبصرے کے بعد آپ تفصیلات ملاحظہ فرمائیں ۔
Top