Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 10
فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ : تو اس نے وحی کی اس کے بندے کی طرف مَآ اَوْحٰى : جو اس نے وحی کی۔ وحی پہنچائی
تو وہ کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
9 ۔” فکان قاب قوسین او ادنیٰ “ اس کے معنی میں مفسرین رحمہم اللہ نے اختلاف کیا ہے۔ مسروق (رح) سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو کہا، کہاں ہے اللہ تعالیٰ کا قول ” ثم دنا فتدلی، فکان قاب قوسین اوادنیٰ “ انہوں نے فرمایا یہ جبرئیل آپ (علیہ السلام) کے پاس آدمی کی صورت میں آتے تھے اور بیشک وہ اس مرتبہ اپنی اصلی صورت میں آئے اور افق کو بند کردیا۔ شیبانی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے زر ؓ سے اللہ تعالیٰ کے قول ” فکان قاب قوسین اوادنیٰ “ کے بارے میں پوچھا : انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ یعنی ابن مسعود ؓ نے خبر دی کہ محمد ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کے چھ سو 600 پر تھے۔ پس آیت کا معنی پھر جبرئیل (علیہ السلام) زمین کے افق اعلیٰ پر استواء کے بعد قریب ہوئے۔ پھر نیچے اتر آئے۔ پھر محمد ﷺ کے پاس اترے تو ان سے دو کمان یا اس سے بھی کم قریب ہوگئے۔ ” اوادنیٰ بل ادنیٰ “ کے معنی میں ہے بلکہ قریب اور سای کے قائل ابن عباس ؓ ، حسن اور قتادہ رحمہما اللہ ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اس کی اصل عبارت ” ثم تدلی فدنا “ اس لئے کہ نیچے اترنا قریب ہونے کا سبب ہے اور دیگر حضرات نے کہا کہ پھر رب تعالیٰ محمد ﷺ کے قریب ہوئے، پھر نیچے اتر آئے۔ پھر آپ (علیہ السلام) کے قریب ہوئے حتیٰ کہ دو کمان یا اس سے کم فاصلہ تھا اور قصہ معراج میں حضرت انس ؓ سے ہم تک روایت پہنچی ہے کہ جبار رب العزت قریب ہوئے، پھر نیچے اترے حتیٰ کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ تھا۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ” تدلی “ کسی شے کی طرف اترنا حتیٰ کہ اس سے قریب ہوجائے اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ جبرئیل (علیہ السلام) اپنے رب سے قریب ہوگئے اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ محمد ﷺ اپنے رب سے قریب ہوئے پس اتر آئے اور سجدہ کی طرف مائل ہوئے۔ پس ان سے دوکمان یا کم قریب ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے قول کا معنی ” قاب قوسین “ یعنی دو کمانوں کی مقدار اور قاب، قیب، قید یہ عبارت ہیں مقدار سے اور قوس وہ جس کے ذریعے تیر پھینکا جائے۔ مجاہد، عکرمہ اور عطاء رحمہم اللہ کے قول میں پس خبر دی گئی کہ جبرئیل (علیہ السلام) اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان دو کمان مقدار ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں یہ اشارہ ہے قصہ کی تاکید کی طرف اور اس کی اصل یہ ہے کہ عرب کے دو حلیف جب کسی معاہدہ کا معاملہ کرنے کا ارادہ کرتے تو دونوں اپنی کمانیں لے کر نکلتے اور ان کو ملادیتے اور اس سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ وہ ایک دوسرے کی پشت پناہی کریں گے اور ایک دوسرے کی حمایت کریں گے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ” قاب قوسین “ یعنی دو گز کی مقدار اور یہ سعید بن جبیر اور شقیق بن سلمہ کا قول ہے اور قوس وہ گز جس کے ذریعے شے کو ناپا جائے اوادنیٰ بلکہ قریب تر۔
Top