Tafseer-e-Usmani - Al-Qalam : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے ایمان والو داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے4 اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے5
4  پہلی آیت میں مومن مخلص کی مدح فرمائی تھی جس سے نفاق کا ابطال منظور تھا، اب فرماتے ہیں کہ اسلام کو پورا پورا قبول کرو یعنی ظاہر اور باطن اور عقیدہ اور عمل میں صرف احکام اسلام کا اتباع کرو یہ نہ ہو کہ اپنی عقل یا کسی دوسرے کے کہنے سے کوئی حکم تسلیم کرلو یا کوئی عمل کرنے لگو سو اس سے بدعت کا قلع قمع مقصود ہے کیونکہ بدعت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی عقیدہ یا کسی عمل کو کسی وجہ سے مستحسن سمجھ کر اپنی طرف سے دین میں شمار کرلیا جائے مثلا نماز اور روزہ جو کہ افضل عبادات ہیں اگر بدون حکم شریعت کوئی اپنی طرف سے مقرر کرنے لگے جیسے عید کے دن عید گاہ میں نوافل کا پڑھنا یا ہزارہ روزہ رکھنا یہ بدعت ہوگا، خلاصہ ان آیات کا یہ ہوا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لاؤ اور بدعات سے بچتے رہو چند حضرات یہود سے مشرف بہ اسلام ہوئے مگر احکام اسلام کے ساتھ احکام تورات کی بھی رعایت کرنی چاہتے تھے مثلا ہفتہ کے دن کو معظم سمجھنا اور اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے بدعت کا انسداد کامل فرمایا گیا۔ 5  کہ اپنے وسوسہ سے بےاصل چیزوں کو تمہارے دلنشین کردیتا ہے اور دین میں بدعات کو شامل کرا کر تمہارے دین کو خراب کرتا ہے اور تم اس کو پسند کرتے ہو۔
Top