Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہونگے وہ تو نجات پانے والے ہیں۔
(8) (والوزن یومئذ الحق) یعنی سوال کے دن۔ قیامت کے دن دن وزن اعمال کا ہوگا یا صاحب اعمال کا ؟ مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ فیصلہ اسی دن انصاف کے ساتھ ہوگا اور اکثر حضرات نے فرمایا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اعمال کا وزن ترازو کے ساتھ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک ترازو لگائیں گے اس کی ایک زبان اور دو پ لڑے ہوں گے۔ ہر پلڑا مشرق و مغرب کے درمیان جتنا بڑا ہوگا اس وزن کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اعمال کے صحیفوں کا وزن کیا جائے گا۔ ہم تک روایت پہنچی ہے کہ ایک آدمی پر ننانوے رجسٹر کھولے جائیں گے۔ پھر اس کے لئے ایک کاغذ نکالا جائے گا جس پر ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ “ لکھا ہوا ہوگا تو وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں اور وہ کاغذ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ دفتر اڑنے لگیں گے اور وہ کاغذ کا ٹکڑا بھاری ہوجائے گا۔ (رواہ الامام ابن ماجہ) اور بعض نے کہا صاحب عمل کو تولا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے ہمیں روایت پہنچی کہ قیامت کے دن لمبے قد موٹے جسم والا شخص لایا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس مچھر کے پر کے برابر وزن نہ ہوگا اور بعض نے کہا خود عمل کو تولا جائے گا۔ یہی بات ابن عباس ؓ سے مروی ہے تو اچھے اعمال کو اچھی شکل میں اور برے اعمال کو بری شکل میں لایا جائے گا اور ترازو میں رکھ دیا جائے گا۔ اعمال کے وزن کی حکمت دنیا میں اپنے بندوں کا امتحان لینا ہے کہ وہ اس پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں اور آخرت میں ان کے خلاف حجت قائم کرنا ہے۔ (فمن ثقلت موازینہ) مجاہد (رح) فرماتے ہیں مراد اس کی نیکیاں ہیں (فاولئک ھم المفلحون)
Top