Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 16
وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَمَنْ : اور جو کوئی يُّوَلِّهِمْ : ان سے پھیرے يَوْمَئِذٍ : اس دن دُبُرَهٗٓ : اپنی پیٹھ اِلَّا : سوائے مُتَحَرِّفًا : گھات لگاتا ہوا لِّقِتَالٍ : جنگ کے لیے اَوْ : یا مُتَحَيِّزًا : جا ملنے کو اِلٰي : طرف فِئَةٍ : اپنی جماعت فَقَدْ بَآءَ : پس وہ لوٹا بِغَضَبٍ : غصہ کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَمَاْوٰىهُ : اور اسکا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ (ٹھکانہ)
اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لئے کنارے کنارے چلے (یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے) یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے۔ ان سے پیٹھ پھیرے گا تو (سمجھو کہ) وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اسکا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔
61(ومن یولھم یومئذ دبرہ الا متحرفاً لقتال او متحیزاً الی) آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار سے شکست کھا کر بھاگنا ممنع ہے ہاں اگر جنگ کی کوئی چال اختیار کرنے کے لئے یا مسلمانوں کی جماعت میں ملنے کے لئے پیٹھ پھیرے کہ ان کے ساتھ مل کر دوبارہ حملہ کروں گا تو جائز ہے اور جس کی یہ نیت نہ ہوا ور پیٹھ پھیر کر بھاگے تو اس کو یہ وعید لاحق ہوگی (فتۃ فقد بآء بغضب من اللہ وماوہ جھنم وبئس المصیر) علماء رحمہم اللہ کا اس آیت میں اختلاف ہے۔ ابو سعید خدری ؓ فمایت ہیں کہ یہ آیت اہل بدر کے ساتھ خصا ہے ان کے لئے شکست کھا کر بھاگنا جائز نہ تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ ان کے ساتھ تھے اور آپ (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور جماعت نہ تھی جس سے وہ جا کر ملتے۔ ان کے سوا وہاں صرف مشرکین کی جماعت تھی۔ لیکن نبی کریم ﷺ کے بعد مسلمان آپ میں سے ایک دوسرے کی جماعت ہیں تو اب میدان جنگ سے بھاگنے والا کسی جماعت ہی کو ملے گا تو اس کا بھاگنا کبیرہ گناہ نہ ہوگا اور یہی حسن، قتادہ اور ضحاک رحمہما اللہ کا قول ہے۔ یزید بن ابی حبیب (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آگ واجب کی ہے اس شخص کے لئے جو بدر کے دن بھاگتا۔ پھر جب احد کا دن آیا تو فرمایا (انما استزلھم الشیطن ببعض ماکسبوا ولقد عفا اللہ وعنھم) (ان کو پھسلایا ہے شیطان نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے اور البتہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا ہے) پھر حنین کے دن فرمایا (ثم ولیتم مدبرین پھر تم پیٹھ بھر کر بھاگے، پھر اللہ توبہ قبول کریں گے اس کے بعد جس کی چاہیں گے۔ ) عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں ایک لشکر میں رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تو وہاں لوگ منتشر ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم تو بھاگنے الے ہیں، آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو ہم مسلمانوں کی جماعت ہیں۔ محمد بن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ جب ابوعبیدہ ؓ شہید ہوئے تو حضرت عمر ؓ کے پاس خبر آئی تو آپ ؓ نے فرمایا کہ اگر وہ میری طرف لوٹ آتے تو میں ان کی فوج اور جماعت ہوتا کیونکہ میں ہر مسلمان کی جماعت ہوں اور بعض نے فرمایا کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کے بارے میں جو شکست کھا کر بھاگ جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے میدان جنگ سے بھاگ جانا۔ عطاء بن ابی رباح (رح) فرماتے ہیں کہ آیت منسوخ ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” الان خفف اللہ عنکم “ کی وجہ سے۔ اب کسی قسم کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جب اپنے دشمن کا نصف ہوں تو ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں۔ ہاں اگر جنگ کی کوئی تدبیر کر رہے ہوں یا کسی جماعت سے ملنا ہو تو پھر ہر وقت پیٹھ پھیرنا جائز ہے اور اگر دشمن کے نصف سے بھی کم ہوں تو ان کے لئے پیٹھ پھیرنا جائز ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص تین سے بھاگا وہ بھاگنے والا نہیں ہے اور جو دو سے بھاگا وہ بھاگنے والا ہے۔
Top