Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
یہی سچے مومن ہیں۔ اور ان کے لئے پروردگار کے ہاں (بڑے بڑے) درجے اور بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
(4) (اولئک ھم المئومنون حقاً ) ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کفر سے بری ہیں۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ ان کے ایمان میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے آپ کو مئومن حق کہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صفت مخصوص صفات والے لوگوں کی بیان کی ہے اور ہر ایک میں یہ صفات پائی نہیں جا سکتیں۔ ابن ابی لجیح فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت حسن (رح) سے سوال کیا کہ کیا آپ مئومن ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر تو اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور آخرت کے دن اور جنت اور جہنم اور دوبارہ جی اٹھنے اور حساب پر ایمان رکھنے کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو میں ان پر ایمان رکھتا ہوں اور اگر تو اس آیت کے بارے میں پوچھا رہا ہے ” انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ الخ “ تو مجھے معلوم نہیں کہ میں ایسا مئومن ہوں یا نہیں۔ علقمہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے تو ہمیں ایک جماعت ملی تو ہم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم مئومنین حق ہیں تو ہم ان کو کوئی جواب نہ دے سکے یہاں تک کہ ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ہوئی تو ان کے قول کی ہم نے آپ ؓ کو خبر دی تو آپ ؓ نے پوچھا تم نے ان کو کیا جواب دیا ؟ ہم نے کہا کچھ نہیں کہا۔ تو آپ ؓ نے کہا کہ تم نے ان کو یہ کیوں نہ کہا کہ کیا تم جنتی لوگ ہو ؟ کیونکہ مئومنین تو جنتی لوگ ہیں۔ سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ جس کا گمان ہے کہ وہ عند اللہ مئومن حق ہے پھر وہ اپنی جنتی ہونے کی گواہی نہیں دیتا تو وہ آدھی آیت پر ایمان لایا، آدھی پر نہیں لایا (لھم درجت عند ربھم) عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ جنت کے درجے ہیں جن پر اپنے اعمال کے ذریعے چڑھیں گے۔ ربیع بن انس (رح) فرماتے ہیں کہ ستر درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان تیز رفتار گھوڑے کے ستر سال دوڑنے جتنا فاصلہ ہے (ومغفرۃ) ان کے گناہوں کی (ورزق کریم) اچھی یعنی جو ان کے لئے جنت میں تیار کی گئی ہے۔
Top