Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
یہی سچے مومن ہیں اور ان کے لیے پروردگار کے ہاں (بڑے بڑے درجے) اور بخشش اور عزت کی روزی ہے
اولئک ھم المؤمنون حقا لھم درجت عند ربھم و مغفرت ورزق کریم : بس سچے ایمان والے یہی ہیں۔ ان کیلئے ان کے رب کے ہاں بڑے درجے ہیں اور ان کیلئے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ ان صفات کے مؤمن ہی ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاپ کے سچے مؤمن ہیں۔ حقًّایا ایمانًا محذوف کی صفت ہے یعنی پکا ایمان ‘ یا فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے جو فعل کی تاکید کر رہا ہے یعنی ان کا ایمان پکا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔ حسن بصری سے ایک شخص نے دریافت کیا : آپ مؤمن ہیں ؟ فرمایا : اگر تیرا سوال یہ ہے کہ میرا ایمان اللہ پر ‘ اللہ کے ملائکہ اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور جنت و دوزخ پر اور حشر و حساب آخرت پر ہے یا نہیں تو میں یقیناً مؤمن ہوں (ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہوں) اور اگر تو دریافت کرتا ہے کہ میں آیت اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ الخ کا مصداق ہوں یا نہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ میں ایسے لوگوں میں سے ہوں یا نہیں۔ حسن بصری کی مراد یہ ہے کہ نفس ایمان تو الحمد اللہ موجود ہے مگر ایمان کا تکمیلی درجہ اخلاص سے دل کا زنگ دور کرنے سے نفس کو (خطرات ‘ وساوس اور گناہوں سے) پاک کرنے سے اور اعضائے جسم سے ادائے طاعات اور ترک معاصی کرنے سے حاصل ہوتا ہے ‘ مجھے معلوم نہیں کہ میں اس تکمیلی درجہ پر فائز ہوں یا نہیں۔ علماء سلف میں ایک اختلافی مسئلہ ہے کہ اَنَا مُؤمِنٌ اِنْشَآء اللّٰہُ میں انشاء اللہ مؤمن ہوں کہنا جائز ہے یا نہیں۔ چونکہ اِنْ حرف شرط شک کیلئے آتا ہے ‘ اسلئے علماء بعض کہتے ہیں کہ ایمان کو حرف شرط کے ساتھ معلق کرنا درست نہیں۔ ایمان قطعی ہونا چاہئے ‘ ایمان میں شک ایمان کو زائل کردیتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اعتبار انجام کا ہے ‘ معلوم نہیں کہ خاتمہ کے وقت ایمان ہو یا نہ ہو ‘ اسلئے اِنْ حرف شرط جو ماضی کو مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے ‘ اس جگہ استعمال کرنا صحیح ہے۔ حضرت مؤلف نے فرمایا : میرے نزدیک حسن بصری کا یہ قول (یعنی یہ کہنا کہ میں مؤمنوں میں سے ہوں یا نہیں) اَنَا مُؤمِنٌ اِنْشَآء اللّٰہُ کے ذیل میں نہیں آتا (کیونکہ حسن بصری کی مراد یہ ہے کہ میں مؤمن تو ہوں لیکن کامل الایمان اور کامل صالح الاعمال ہونے کا مجھے علم نہیں۔ معلوم نہیں کہ مؤمنین ‘ کاملین ‘ صالحین میں اللہ کے ہاں میرا شمار ہے یا نہیں) ۔ علقمہ کا بیان ہے : ایک سفر میں ہماری ملاقات کچھ لوگوں سے ہوئی۔ ہم نے پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : نَحْنَ الْمُؤْمِنُوْنَ حقًّاہم یقیناً پکے مؤمن ہیں۔ ہم لاجواب ہوگئے ‘ سمجھ میں نہ آیا کہ ان سے کیا کہیں۔ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضری کا موقعہ ملا اور ہم نے یہ واقعہ حضرت سے عرض کیا تو آپ نے پوچھا : تم نے کیا جواب دیا ؟ ہم نے عرض کیا : ہم کچھ جواب نہ دے سکے۔ فرمایا : تم نے ان سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کیا تم یقینی جنتی ہو ‘ مؤمنین حق تو یقینی جنتی ہوتے ہیں۔ ثوری کا قول ہے : جو شخص دعویٰ کرتا ہو کہ میں مؤمن ہوں قطعاً ‘ یا یہ کہے کہ میں اللہ کی نظر میں مؤمن ہوں ‘ پھر اپنے جنتی ہونے کی شہادت نہ دے تو اس کا ایمان آدھی آیت پر ہوگا۔ جو لوگ اَنَا مُؤمِنٌ اِنْشَآء اللّٰہُ کہنے کو جائز قرار دیتے ہیں ‘ وہ سفیان ثوری کے اسی قول سے دلیل اخذ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انشا اللہ کہنے سے مراد یہ ہے کہ حسن خاتمہ کا یقین نہیں اور خاتمہ بخیر ہونا ہی موجب جنت ہے ‘ ان کا یہ مطلب نہیں کہ بالفعل ایمان میں ہم کو شک ہے کیونکہ ایمان نام ہے پختہ قطعی ناقابل شک اعتقاد کا۔ ایمان میں شک ہو ہی نہیں سکتا۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اَنَا مُؤمِنٌ اِنْشَآء اللّٰہُ کہنا ہی مکروہ ہے کیونکہ اس سے ایمان میں شک ہونے کا وہم پیدا ہوتا ہے بلکہ اَنَا مُؤمِنٌکے بعد اِنْشَآء اللّٰہُ کہنے کی بجائے حقًّا کہنا صحیح ہے۔ اَنَا مُؤمِنٌ حَقًّا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے اپنا خاتمہ بخیر اور بر ایمان ہونے کا قطعی یقین ہے ‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ اس وقت میں قطعی مؤمن ہوں ‘ میرا ایمان شک و شبہ سے پاک ہے۔ گویا اوّل الذکر قول میں اور امام صاحب کے قول میں صرف لفظی نزاع ہے ‘ معنوی اختلاف نہیں۔ زیادہ احتیاط امام صاحب کے قول میں ہے (کہ ایسا لفظ بھی استعمال کرنا مکروہ ہے جس سے عدم ایمان کا وہم پیدا ہوتا ہو) ۔ امام ابوحنیفہ نے قتادہ سے پوچھا : آپ اپنے ایمان کو انشاء اللہ سے مشروط کیوں کرتے ہیں ؟ قتادہ نے جواب دیا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کی تقلید میں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : وَالَّذِیْٓ اَطُمْعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْءَتِیْ یَوْمِ الدِّیْنِ (یعنی مجھے طمع ہے کہ قیامت کے دن اللہ میرے قصور کو معاف کر دے۔ اس میں لفظ طمع آیا ہے کہ جو عدم یقین پر دلالت کر رہا ہے) امام ابوحنیفہ نے فرمایا : آپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کی تقلید کیوں نہیں کی کہ جب اللہ نے ان سے فرمایا : اَوْلَمْ تُؤمِنْ کیا تو ایمان نہیں لایا ؟ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا : بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ (یعنی ایمان کیوں نہیں لایا ‘ مگر میں قلبی اطمینان کیلئے مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں) ابراہیم تیمی کا مقولہ ہے کہ تم اَنَا مُؤمِنٌ حَقًّا کہو ‘ اگر تمہارا یہ قول سچا ہے تو اس کا ثواب ملے گا اور اگر یہ بات غلط ہے (اور واقع میں تم مؤمن نہیں ہو ‘ دل سے کافر ہو اور ایمان ظاہر کر رہے ہو) تو تمہارا کفر اس قول سے زیادہ شدید اور موجب عذاب ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جو منافق نہیں ہے ‘ وہ قطعاً مؤمن ہے۔ لَھُمْ دَرَجٰتٌ ان کیلئے درجات ہیں ‘ یعنی عزت ‘ بزرگی اور مرتبہ کی بلندی ہے۔ عِنْدَرَبِّھِمْ اللہ کے ہاں۔ اسی کی طرح دوسری آیت ہے (جس میں پیغمبروں کے مراتب کا ذکر ہے) تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۔ عطاء نے کہا : لھم درجات سے یہ مراد ہے کہ جنت کے اندر ان کے درجات ہوں گے جن پر اعمال کی وجہ سے فائز ہوں گے (جتنا اور جس مرتبہ کا عمل ہوگا ‘ ویسا ہی درجہ ملے گا) حضرت عبادہ بن صامت راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت کے اندر سو درجات ہیں ‘ ہر درجہ کا دوسرے درجہ سے فاصلہ اتنا ہے جتنا آسمان زمین کے درمیان ہے۔ فردوس کا سب سے اونچا درجہ ہے۔ اسی سے جنت کی چاروں نہریں نکلتی ہیں ‘ اس سے اوپر عرش ہوگا۔ دعاء کرتے وقت تم اللہ سے فردوس مانگا کرو۔ رواہ الترمذی بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ربیع بن انس نے فرمایا : ستر درجے ہیں ‘ ہر درجہ کی دوسرے درجہ سے مسافت اتنی ہے جتنی مسافت اس دوڑ کے میدان کی ہوتی ہے جس میں مشاق سوار گھوڑا ستر برس تک دوڑاتا چلا جائے۔ وَمَغْفِرَۃٌ اور گناہوں کی بخشش ہے۔ وَرِزْقٌکَرِیْمٌ اور اچھا رزق ہے۔ اللہ نے جنت کے اندر وہ نعمتیں ان کیلئے رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نہ دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا ‘ نہ کسی کے دل میں اس کا تصور آیا اور یہ نعمتیں لازوال ہوں گی ‘ کبھی منقطع نہ ہوں گی۔
Top