Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور جب ہم مصیبتوں اور پریشانیوں کے بعد لوگوں کو نعمت کا مزا چکھا دیتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں شرارتیں کرنے لگتے ہیں۔ (اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ اس مکر و فریب کی سزا بہت جلد دینے والا ہے۔ یقینا ہمارے فرشتے ان تمام شرارتوں کو لکھ رہے ہیں جو وہ کرتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 21 تا 23 اذقنا (ہم نے چکھا دیا) ضرآء (ضرر، نقصان، تکلیفیں، مصیبتیں) مست (پہنچی) مکر (شرارت، مکر و فریب) اسرع (بہت جلد) یکتبون (وہ لکھتے ہیں) تمکرون (تم مکر و فریب کرتے ہو، تم شرارتیں کرتے ہو) یسیر (وہ چلاتا ہے) البر (خشکی، زمین) البحر (تری، سمندر) جرین (وہ چلتی ہیں) ریح طیب (پاک ہوا یعنی موافق ہوا) فرحوا (انہوں نے فرحت اور خوشی محسوس کی) عاصف (طوفانی ہوا ، طوفان) احیط (گھیر لیا گیا) مخلصین (خالص کرنے والے) الدین (انصاف، اعتقاد) انجیتنا (تو نے ہمیں نجات دے دی) یبغون (وہ بغاوت و نافرمانی کرتے ہیں) بغیر الحق (ناحق، جس کا ان کو حق حاصل نہ تھا متاع (سامان ، زندگی کا لطف و کرم ) نئبئکم (ہم تمہیں مطلع کریں گے۔ ) تشریح :- آیت نمبر 21 تا 23 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ ہر کام میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں وہ جتنا شکر ادا کرتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں میں اور اجر آخرت میں اتنا ہی اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ اگر اس کے بندے اس کا شکر ادا کرتے رہیں اور ایمان پر قائم رہے ہیں کہ وہ ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ انسان کے ناشکرے پن کی عادت سب سے بری عادت ہے اور اللہ کو سخت ناپسندید ہے۔ جب کوئی شخص مشکلات میں گھر جاتا ہے۔ کسی طوفان یا بھنور میں پھنس جاتا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی شخص کسی سخت بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کو صحت کے آثار نظر نہیں آتے تو وہ اللہ کو پکارتا ہے، فریاد کرتا ہے۔ دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور جیسے ہی وہ مشکلات پریشانیوں بیماریوں سے طوفان کی بلاخیز یوں سے نکل آتا ہے تو اللہ کو بھول کر وہ ان اسباب کا ذکر کرنے لگتا ہے جن سے اس کو مصیبتوں سے نجات ملی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بری عادت کو نہ صرف ناپسند فرمایا ہے بلکہ شرک تک فرما دیا اور اس کو کفران نعمت قرار دیا ہے۔ ان آیات کے پس منظر میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں اور آس پاس کے علاقوں میں زبردست قحط پڑگیا تھا اور کئی سال سے بارش بھی نہیں ہوئی تھی۔ جب حالات اس درجہ تک پہنچ گئے کہ وہ مردار تک کھانے پر مجبور ہوگئے تب انہوں نے اپنے جھوٹے معبودوں اور بتوں کو چھوڑ کر اللہ سے فریاد کرنی شروع کردی۔ ایک وفد کو مدینہ منورہ بھیجا گیا جس نے نبی کریم ﷺ سے مدد کی درخواست کی اور یہ بھی کہا کہ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ نبی مکرم ﷺ اور صحابہ کرام نے نہ صرف ان کی ہر طرح کی مدد کی بلکہ آپ ﷺ نے بارش کی دعا بھی فرمائی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا کو قبول کرلیا۔ بارش ہوگئی اور قحط کے اثرات جاتے رہے تو پھر انہوں نے اپنے بتوں پر چڑھا دے چڑھانے شروع کردیئے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنا شروع کردیا۔ ان آیات کو اس پس منظر میں دیکھا جائے یا آیت کے مفہوم کو عام رکھا گیا ہے یہ بات اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان پر جب مشکلات آتی ہیں تو اس کے دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے کہ اے اللہ میری اس مشکل کو آسان فرما دے۔ اور اللہ اس کی مشکلات / آسان بھی فرما دیتا ہے لیکن پھر وہ بھول جاتا ہے کہ ان کی ان مشکلات کو حل کرنے والی کونسی ذات تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر ادا کرتے رہنے ، ذکر و فکر کرنے پر مہارت و بندگی تو فیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Top