Baseerat-e-Quran - Ar-Ra'd : 5
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ١ؕ۬ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَعْجَبْ : تم تعجب کرو فَعَجَبٌ : تو عجب قَوْلُهُمْ : ان کا کہنا ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہوگئے ہم تُرٰبًا : مٹی ءَاِنَّا : کیا ہم یقیناً لَفِيْ خَلْقٍ : زندگی پائیں گے جَدِيْدٍ : نئی اُولٰٓئِكَ : وہی الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ہیں الْاَغْلٰلُ : طوق (جمع) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ہیں اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور اگر تم (کسی بات میں ) تعجب کرسکتے ہو تو ان لوگوں کا قول قابل تعجب ہے جنہوں نے یہ کہا کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم ایک نئی زندگی پائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔ یہی جہنمی ہیں جس جہنم میں لوگ ہمیشہ رہیں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 5 تا 7 تعجب تو تعجب اور حیرت کرتا ہے ءاذا کیا جب تراب مٹی خلق جدید نئی پیدائش الا غلل طوق۔ گلے کا ہار اعناق (عنق) ۔ گردنیں یستعجلون وہ جلدی مچاتے ہیں السیئۃ برائی الحسنۃ نیکی، بھلائی قدخلت یقینا گذر گئی المثلت (مثل) عبرت کے واقعات ذو مغفرۃ معافی دینے والا شدید العقاب سخت عذاب دینے والا ایۃ نشانی، معجزہ منذر ڈرانیو الا ھاد ہدایت دینے والا۔ رہنمائی کرنے والا تشریح : آیت نمبر 5 تا 7 کفار مکہ ہر روز کوئی نہ کوئی اعتراض کر کے اپنی جہالت، تعصب اور حسد کا اظہار کرتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام شبہات اور سوالات کے جوابات گزشتہ آیات میں دے کر ایک مرتبہ پھر ان کے چند شبہات اور سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ ان کے تین سوالات تھے : 1) جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے تو مہارے اجزاء کیسے جمع ہو کر ہم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ 2) بجائے خیر اور بھلائی مانگنے کے وہ کہتے تھے کہ وہ جس عذاب کا وعدہ کر رہے ہیں آخر وہ کب آئے گا ؟ 3) اگر یہ سچے نبی ہیں تو کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ : 1) کتنے تعجب کی بات ہے کہ وہ ایسی بات کر رہے ہیں جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ ان کا یہ سوال بڑا ہی حیرتناک ہے کہ وہ اللہ کی قدرت کا انکار کر رہے ہیں حالانکہ جس نے انسانوں کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ پیدا کرنا کونسی مشکل بات ہے۔ کوئی بھی مشین پہلی مرتبہ بناتے ہیں تو دشواری ہوتی ہے لیکن اس کے بن جانے کے بعد دوبارہ بنانا تو ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ہم تو کس یچیز کے بنانے کے لئے اسباب کے مخاطب ہیں جب کہ اللہ کسی سبب کا محتاج نہیں ہے وہ تو صرف ” کن “ کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے ، وجود اختیار کرلیتی ہے۔ فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ اللہ کی قدرت کے منکر ہیں ان کا انجام یہ ہوگا۔ کہ ان کے گلے میں طوق پڑا ہوا ہوگا۔ اور ہاتھوں اور پاؤں میں ہتھکڑیاں پہنا کر ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ 2) کفار و مشرکین کا یہ سوال کہ اللہ کے نبی جس عذاب کا وعدہ کر رہے ہیں آخر وہ کب آئے گا ؟ ہم تو روز روز سن کر عاجز آ چکے ہیں۔ فرمایا کہ اول تو عذاب کالا نایہ نبی ﷺ کے اختیار میں نہیں ہے یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ممکن ہے اور اللہ کا یہ حکم پہلی قوموں پر بھی آچکا ہے۔ یہ اللہ کا حلم و برداشت اور عفو و کرم ہے کہ وہ ان کی ان گستاخانہ باتوں کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں کرتا لیکن اگر ان کی شرارتوں اور اللہ سے بغاوتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا اور پھر یہ اس سے کسی حال میں بچ نہ سکیں گے۔ ان کو تو عذاب کے بجائے خیر مانگنی چاہئے تھی لیکن ان کو تو عذاب کی اتنی جلدی پڑی ہوئی ہے کہ اللہ سے خیر اور عافیت مانگنا ہی بھول گئے۔ فرمایا کہ اللہ تو بڑا مغفرت کرنے والا ہے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنے پاؤں پر کہلاڑی مارنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور انجام پر غور نہیں کرتے ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور گذری ہوئی قوموں کے برے اعمال کے بدلے میں جو بھی عذاب آیا وہ اتنا سخت اور شدید تھا کہ اپنی اسری قوتوں اور طاقتوں کے باوجود اپنے تہذیب و تمدن اور اپنے وجود کو اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکے۔ 3) کفار مکہ کے اس مطالبہ پر کہ اے نبی ﷺ ! اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر معجزات کیوں نازل نہیں کئے گئے۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ اللہ کے خوف سے ڈرانے والے اور جس طرح اور امتوں میں اللہ کے نبی آکر ہدایت کرتے رہے ہیں آپ بھی ایک ہادی اور رہبر ہیں معجزات کا دکھا اللہ تعالیٰ کے اختیار ہیں ہے وہ جب چاہے معجزات کو نازل کرسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے پہل یقوموں کے سامنے تو تڑے بڑے معجزات دکھائے گئے کیا وہ ان معجزات کو دیکھ کر ایمان لائے ؟ یقینا جس کو ایمان لانا ہوتا ہے وہ معجزات کا مطالبہ نہیں کرتا اور جس کو ایمان نہیں لانا ہے وہ معجزات دیکھ کر بھی اپنے کفر و شرک پر قائم رہتا ہے اور دولت ایمان سے محروم رہتا ہے۔
Top