Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 5
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ١ؕ۬ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَعْجَبْ : تم تعجب کرو فَعَجَبٌ : تو عجب قَوْلُهُمْ : ان کا کہنا ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہوگئے ہم تُرٰبًا : مٹی ءَاِنَّا : کیا ہم یقیناً لَفِيْ خَلْقٍ : زندگی پائیں گے جَدِيْدٍ : نئی اُولٰٓئِكَ : وہی الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ہیں الْاَغْلٰلُ : طوق (جمع) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ہیں اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور اگر آپ تعجب کریں تو ان کی بات زیادہ قابل تعجب ہے (جبکہ وہ کہتے ہیں) کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا نئی پیدائش میں پیدا کیے جائیں گے ، یہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ ، اور یہی لوگ ہیں کہ طوق ہونگے انکی گردنوں میں ، اور یہی لوگ ہیں دوزخ والے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
(ربط آیات) اس سورة کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ پر مشتمل بعض دلائل توحید بیان فرمائے ہیں ، زمین اور اس میں پیدا ہونے والے مختلف قسم کے درختوں اور پھلوں کا ذکر فرمایا ، سارے ایک پانی سے سیراب ہونے والے پھلوں کے ذائقے اور رنگ مختلف ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا کام ہے ، فرمایا کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیاں ہیں ، ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور غوروفکر کرتے ہیں ، جو ایسا نہیں کرتے ان کو یہ واضح دلائل بھی کچھ مفید نہیں ہوتے ، وہ اپنی جہالت اور نادانی میں ہی پڑے رہتے ہیں ، اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ساتھ کافروں کیضد اور ہٹ دھرمی پر حضور ﷺ کو تسلی بھی دی ہے ۔ (قیامت کا انکار) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان تعجب “ اگر آپ تعجب کریں اس بات پر کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید ، بعث بعد الموت اور محاسبہ اعمال پر ایمان کیوں نہیں لاتے ” فعجب قولھم “ تو ان کی یہ بات زیادہ تعجب انگیز ہے (آیت) ” ء اذا کنا تربا “۔ کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے ہمارے اجسام ذرات بن کر خاک میں مل جائیں گے (آیت) ” ء انا لفی خلق جدید “۔ تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا ہوں گے ؟ کفار کی یہ منطق سورة الم سجدۃ میں اس طرح بیان ہوئی ہے (آیت) ” ء اذا ضللنا فی الارضء انا لفی خلق جدید “۔ جب ہمارے اجزاء زمین میں رل مل جائیں گے تو کیا ہم پھر سے دوبارہ پیدا ہوجائیں گے ، سورة النزعت میں کفار کا یہ بیان بھی مذکور ہے (آیت) ” ء اذا کنا عظام نخرۃ “ کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے تو پھر زندہ ہوجائیں گے ؟ گویا ان لوگوں کا بعث بعد الموت پر یقین نہیں تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کا انکار نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے اس عظیم کائنات کو بغیر مادے ، سابقہ نمونے اور آلے کے پیدا فرمایا تو انسان جیسی چھوٹی سی چیز کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کون سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشکل بات ہے وہ تو پہلے بھی انسان کو پیدا کرچکا ہے تو اب اس کو دوبارہ کیوں نہیں کھڑا کرسکے گا ؟ بہرحال وہ لوگ قیامت کے وقوع اور دوبارہ زندگی پر تعجب کرتے تھے ۔ کفار کی دوسری تعجب انگیز بات یہ تھی کہ وہ کہتے تھے (آیت) ” اجعل الالھۃ الھا واحد ، ان ھذا لشیء عجاب “۔ کیا تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود کی پوجا کی جائے ، یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، ہمارے آباؤ اجداد نے ہر کام کے لیے علیحدہ علیحدہ معبود بنا رکھے ہیں جو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں لوگوں کی بگڑی بناتے ہیں ان کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں ، بھلا انتے سارے کام صرف ایک معبود کیسے انجام دے سکتا ہے یہ تو ناممکن بات نظر آتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں باتوں کی نفی فرمائی ہے اس کی قدرت میں وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال بھی ہے اور کائنات کے تمام امور اللہ وحدہ لاشریک ہی انجام دینے پر قادر ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ّ (منکرین کے لیے سزا) فرمایا (آیت) ” اولئک الذین کفروا بربھم “۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ، اس کی قدرت کا یقین نہ کیا اور اس کی صفت ہی کو نہ پہچانا وہ کہتے تھے کہ مرنے کے بعد کون زندہ ہوگا ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” بلی وعدا علیہ حقا “۔ (النحل) ہمارا وعدہ بالکل سچا ہے اور ہم ایسا ضرور کریں گے مگر افسوس کہ آخر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں ان لوگوں کی سزا بھی سن لیں (آیت) ” واولئک الاغلال فی اعناقھم “۔ قیامت والے دن ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے جو کہ ذلت کی نشانی ہے جن لوگوں نے اس دنیا میں باطل کو سینے سے لگائے رکھا قیامت والے دن یہی چیز ان کے گلے کا طوق بن جائے گی ، سورة یس میں ہے (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللا فھی الی الاذقان فھم مقمحون “۔ ان کے گلے میں طوق ہوں گے جن کیوجہ سے ان کی گردنیں اوپر کو اٹھی ہوں گی ، اور پھر مجرموں کو کھینچنے کے لیے بڑی بڑی زنجیریں ہوں گی سورة الحاقۃ میں ہے (آیت) ” فی سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعا “۔ ستر ستر گز زنجیریں ہونگی جن سے باندھ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں بیڑی یاہتھکڑی لگی دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص دین میں ثابت قدم ہے ، اور یہ اس کے حق میں اچھی علامت ہے اور اگر کوئی گردن میں طوق پڑا ہو ادیکھے تو یہ ذلت کی نشانی ہے ، غرضیکہ مشرکین کی شرکیہ باتیں ، باطل رسم و رواج اور کفریہ کلمات ہی قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق بن جائیں گے ، بخیل کے متعلق بھی سورة آل عمران میں آتا ہے (آیت) ” سیطوقون مابخلوا بہ “۔ بخل کی وجہ سے ان کے گلے میں طوق ڈال دیا جائے گا ، وہ سانپ بن کر بخیل کو ڈسے گا ، کیونکہ اس نے دنیا میں مال کا حق ادا نہیں کیا ، زکوۃ نہیں دی یا معاشرے کے کمزور لوگوں کا خیال نہیں رکھا فرمایا (آیت) ” واولئک اصحب النار “۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں ، وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے (آیت) ” ھم فیھا خلدون “۔ وہ اس دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، وہاں سے خلاصی کی کوئی صورت نہیں ہوگی کیونکہ کفر اور شرک کی سزادائمی ہے ، البتہ اعمال کی خرابی کی سزا وقتی ہوگی ، جو کہ تطہیر قلب کے لیے دی جائے گی ۔ (بھلائی سے پہلے برائی) آگے اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور منکرین کی ایک اور خرابی کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” ویستعجلونک بالسیئۃ قبل الحسنۃ “۔ یہ لوگ آپ سے بھلائی سے پہلے برائی کو چاہتے ہیں ، بھلائی تو ایمان قبول کرنے اور نیکی اختیار کرنے سے آتی ہے ، مگر یہ تو انہوں نے کیا نہیں وہ اپنے کفر اور شرک پر اڑے ہوئے ہیں اور خود اپنی زبان سے عذاب طلب کرتے ہیں سورة انفال میں ان کا یہ بیان موجود ہے (آیت) ” الھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوئتنا بعذاب الیم “۔ اے اللہ ! اگر محمد ﷺ کی بات سچی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے یا کوئی اور دردناک عذاب نازل کردے “۔ سورة بنی اسرائیل میں ہے (آیت) ” اوتسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا “۔ یا ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرا دے ہم تو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اللہ نے فرمایا کہ دیکھو یہ کتنے بیوقوف لوگ ہیں جو اپنے مونہوں سے سزا کے طالب ہیں اور جب یہ سزا آجاتی ہے تو پھر ٹالی نہیں جاتی ، فرمایا (آیت) ” وقد خلت من قبلھم المثلت “۔ اور اس سے پہلے اس قسم کی سزاؤں کی مثالیں گزر چکی ہیں ، اللہ نے نافرمانوں کی طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کیا مگر یہ لوگ ان مثالوں کو دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے بلکہ کفر وشرک پر اصرار کرکے ویسی ہی سزاؤں کا دوبارہ مطالبہ کر رہے جو کہ سخت نادانی کی بات ہے ۔ (معافی اور سزا) فرمایا (آیت) ” وان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمھم “۔ بیشک تیرا پروردگار البتہ بخشش کرنے والا ہے لوگوں کے لیے باوجود ان کے ظلم اور زیادتی کے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا ذریعہ پیدا ہوجاتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم ، وان عذابی ھو العذاب الالیم “۔ (الحجر) میرے بندوں کو مطلع کرو کہ میں بخشش کرنے والا اور مہربان ہوں ‘ اور میری سزا بھی بڑی سخت ہے ، یہاں بھی فرمایا کہ ایک طرف تو تیرا رب زیادتی کرنے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے والا ہے اور دوسری طرف (آیت) ” وان ربک لشدید العقاب “۔ خدا تعالیٰ سخت سزا دینے والا بھی ہے ، انسان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفات کی طرف ہونی چاہئے ، اگر کسی کو مہلت ملے تو اسے مغرور نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ کی گرفت بھی بڑی سخت ہے ، حضرت سعید ابن مسیب (رح) کی روایت میں آتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی معافی اور درگزر نہ ہوتا تو انسانوں کے لیے زندگی قطعی خوشگوار نہ ہوتی بلکہ نہایت تلخ ہوتی ، فرمایا اگر خدا کی گرفت نہ ہوتی تو لوگ بھروسہ کرکے ہی بیٹھ جاتے گویا معافی اور سزا کا قانون ساتھ ساتھ چلتا ہے ، اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں ۔ ” الایمان بین الخوف والرجآء “ یعنی انسان کا ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے ، انسان کو اللہ کی پکڑ کا ڈر بھی ہو اور اس کی بخشش کی امید بھی ۔ امام ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں حافظ ابن عساکر (رح) کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ ایک بزرگ ابو حسان حسن ابن عثمان (رح) نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جلوہ فرما ہیں اور حضور ﷺ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ایک آدمی کی سفارش فرما رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ” الم یکفک “ کیا آپ کے لیے سورة رعد کی یہ آیت کافی نہیں ہے ۔ (آیت) ” وان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمھم “۔ یعنی تیرا پروردگار لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود بخشنے والا ہے ، بشرطیکہ فکر پاک ہو۔ (معجزے کی فرمائش) کفار کی ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا (آیت) ” ویقول الذین کفروا لولا انزل علیہ ایۃ من ربہ “۔ کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتاری جاتی اس پیغمبر پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے ، اس نشانی سے وہ نشانی مراد ہے جو کافر خود اپنے منہ سے طلب کرتے تھے ، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ پر بیشمار نشانیاں ظاہر فرمائی ہیں مگر ضدی لوگ محض اپنی من مانی نشانی پر اڑے ہوئے ہیں ، کہتے ہیں کہ مکہ میں باغ لگ جائیں ، ان میں نہریں جاری ہوں آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے ہمارے سامنے کتاب لائیں فرشتے آکر آپ کی رسالت کی گواہی دیں یا خدا خود سامنے کتاب لائیں فرشتے آکر آپ کی رسالت کی گواہی دیں یا خدا خود سامنے آکر کھڑا ہوجائے (العیاذ باللہ) کوئی منصف مزاج آدمی ایسی بات نہیں کرسکتا مگر یہ ایسی جاہل قوم تھی کہ من مرضی کی نشانی پانے کے باوجود انکار کردیتے تھے ، انہوں نے شق القمر کا معجزہ خود طلب کیا ، مگر جب ظاہر ہوگیا تو کہنے لگے (آیت) ” سحر مستمر “ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے یعنی محمد نے جادو کردیا ہے ، تو فرمایا کافر کہتے ہیں کہ نبی پر کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی ، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ نشانیوں کا ظاہر کرنا نبی کا کام نہیں بلکہ یہ تو اللہ کا کام ہے ، وہ جب چاہے اپنی مصلحت کے مطابق کوئی معجزہ ظاہر کردے کوئی نبی اپنی مرضی سے معجزہ ظاہر نہیں کرسکتا ۔ (ہر قوم کے لیے ہادی) اللہ نے فرمایا ، اے نبی ﷺ (آیت) ” انما انت منذر “۔ آپ تو ڈر سنانے والے ہیں ، آپ لوگوں کو شدید محاسبے اور عذاب سے ڈرائیں کہ آگے ایک منزل آنے والی ہے ، اس کے لیے تیاری کریں ہر نبی کو اللہ نے مبشر اور منذر بنا کر بھیجا ہے (آیت) ” رسلا مبشرین ومنذرین “۔ (النسائ) انبیاء کے علاوہ ان کے پیروکار بھی منذر ہوتے ہیں ، جو لوگ بھی اہل حق ہوتے ہیں ، وہ لوگ کو کفر ، شرک ، اور معاصی کے انجام سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ، فرمایا آپ تو ڈر سنانے والے ہیں (آیت) ” ولکل قوم ھاد “۔ اور ہر قوم کا ہادی ہوتا ہے ۔ یہ سنت اللہ ہمیشہ جاری رہی ہے کہ اللہ نے ہر قوم میں ہادی بھیجے ہیں اللہ نے اپنے آخری نبی کو بھی ہادی بنا کر بھیجا ہے آپ کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا اور ڈر سنانا ہے ، لوگوں کی فرمائشیں پوری کرنا آپ کے فرائض میں شامل نہیں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ سابقہ انبیاء خاص خاص قوموں کی طرف مبعوث ہوتے تھے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا (آیت) ” ورسولا الی بنی اسرآئیل “۔ (آل عمران) یعنی آپ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ، مگر حضور ﷺ کو تمام اقوام عالم کی طرف نبوت عامہ عطا کی گئی ، آپ ہر قوم کے ہادی اور راہنما ہیں سورة اعراف میں بھی موجود ہے (آیت) ” قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا “۔ اے نبی (علیہ السلام) آپ کہہ دیں کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں آپ کے علاوہ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی نبوت عامہ سے سرفراز فرمایا (آیت) ” انی جاعلک للناس امام “۔ (البقرہ) حضور ﷺ تمام قوموں کی طرف رسول ہیں ، آپ نے فرمایا ” بعثت الی الاسود والاحمر “۔ مجھے تمام کالے اور سرخ لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے اس میں ہر قوم اور ہر ملک چین ، جاپان ، روس ، امریکہ ، افریقہ ، اور ایشائی ممالک شامل ہیں ، سورة انعام میں ہے کہ آپ کو اس لیے مبعوث کیا گیا ہے (آیت) ” لتنذر ام القری ومن حولھا “۔ تاکہ آپ اہل مکہ اور گردوپیش کے لوگوں کو ڈرائیں ، اور فرمایا یہ قرآن آپ کی طرف اس لیے نازل کیا گیا ہے (آیت) ” لانذرکم بہ ومن بلغ “۔ تاکہ آپ انکو بھی ڈرائیں اور ان کو بھی جہاں تک یہ قرآن پہنچے ، تمام جہاں والے آپ کے مخاطب ہیں ، آپ کو تسلیم کیے بغیر کسی کے لیے ہدایت کا دروازہ نہیں کھلے گا ، بہرحال اللہ نے ہر قوم کے لیے ہادی بھیجے ۔
Top