Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی سر زمین سے نکال کر چھوڑیں گے یا تمہیں ہمارے دین کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا۔ پھر ان کی طرف ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر کے چھوڑیں گے
لغات القرآن آیت نمبر 13 تا 17 ارض زمین، سر زمین۔ لتعودن البتہ تمہیں ضرور لوٹنا ہوگا ۔ ملت مذہب، قوم، دین۔ اوحی اس نے وحی کی نھلکن ہم ضرور ہلاک کردیں گے۔ نسکنن ہم ضرور جما دیں گے۔ مقامی میرا مقام۔ وعید تنبیہ، غفلت سے جگانے والی استفتحوا انہوں نے فیصلہ طلب کیا۔ مانگا۔ خاب ذلیل و خوار ہوا۔ جبار بہت جبر کرنے والا۔ عنید ضدی ۔ وراء پیچھے۔ یسقی پلایا جائے گا۔ ماء صدید پیپ کا پانی، گندہ پانی یتجرع گھونٹ گھونٹ پیئے گا۔ لایکاد قریب نہ ہوگا۔ یسیغ حلق سے اتارے گا۔ میت مرنے والا۔ غلیظ سخت۔ تشریح : آیت نمبر 13 تا 17 قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انبیاء کرام نے جب بھی کفر و شرک، بدعات اور طرح طرح کی بےحقیقت رسموں سے اپنی قوم کو روکنے کی کوشش تو انہوں نے ان کو اپنی ملت اور قوم کا غدار قرار دے کر پہلے تو مذاق اڑایا۔ پھر کچھ اعتراضات کئے اور معجزات کا مطالبہ کیا۔ جب وہ اپنی ان تدبیروں سے تھک گئے اتو اپنے غرور اور تکبر میں ان دھمکیوں پر اتر آئے کہ ہم : 1) تمہیں اپنی بستی اور ملک سے نکال دیں گے۔ 2) اپنی قوم کے طریقوں پر چلنے کے لئے مجبور کردیں گے۔ ان کی دھمکیوں کے جواب میں اللہ کی طرف سے یہی کہا جاتا کہ اے نبیوں اور رسولوں تم صبر اور برداشت سے کام لو ہم خود ان سے انتقام لے کر ان کو بےبس کردیں گے اور ان کو اس قابل نہ چھوڑیں گے کہ وہ اپنے گھروں میں آباد رہ سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ حق و صداقت پر چلنے والوں کو وہ قوت و طاقت عطا فرمائیں گے کہ وہ ان ظالموں کی بستیوں کے مالک بن جائیں گے۔ ان آیات میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ کفار نے اپنے غرور اور تکبر میں اللہ کے رسولوں سے یہ کہا کہ ہم تمہیں اپنی سر زمین سے نکال باہر کریں گے یا ہم تمہیں اپنے طریقوں کی طرف واپس لے ائٓیں گے یعنی اپنے رسم و رواج پر چلنے کے لئے مجبور کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ یہ ارشاد فرمایا کہ اے انبیاء کرام آپ اللہ کا دین پہنچاتے رہئے یہ ظالم آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے فرمایا کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور ان تمام لوگوں کو جو اللہ سے ڈرنے والے اور اس کی ہر تنبیہ کو سامنے رکھنے والے ہیں ان کو ان ظالموں کی جگہ مالک بنا کر اسی سر زمین پر ان کو غلبہ و قوت عطا کردیں گے۔ فرمایا کہ یہ تو دنیا میں ان ظالموں کی سزا ہوگی اور آخرت میں تو ان کے لئے سوائے تکلیفوں اور ذلتوں کے کچھ بھی نہ ہوگا ۔ ان کو پینے کے لئے وہ پانی دیا جائے گا جو لہو پیپ ہوگا۔ وہ اسے گھونٹ گھونٹ پئیں گے لیکن ان کے حلق سے نہ اتر سکے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ فرشتے گرز مار مار کر ان کو یہ گندا پانی پینے پر مجبور کردیں گے۔ جس وقت وہ اس گرم گرم پانی کو ان کے منہ کے قریب کریں گے تو اس کی گرمی اور حرارت دماغ تک پہنچ جائیں گی اور ان کیم نہ کی کھال لٹک کر نیچے ڈھلک جائے گی ہر طرف سے موت ہی موت نظر آئے گی۔ اس وقت یہ کفار اور ظالم پچھتاتے ہوئے کہیں گے کہ اے کاش دنیا کی چند روزہ زندگی میں غرور وتکبر اور کفر و شرک نہ کرتے اور حسن عمل کا وہ مظاہر کرتے کہ آج یہ تکلیف اور اذیت نہ دیکھنی پڑتی اور اس طرح عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتے۔ تمام انبیاء کرام کے ساتھ ان کی قوم نے جو معاملہ کیا اس سے بھی سخت معاملہ کفار مکہ نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام کے ساتھ کیا۔ ظلم و ستم اور بربریت کی انتہا کردی۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ کی سر زمین چھوڑنا پڑی۔ لیکن ہجرت کے چند برسوں ہی میں اللہ نے اہل ایمان کو فتح و نصرت عطا فرمائی کفار ذلیل و خوار ہوئے اور ان پر مکمل غلبہ عطا فرما دیا گیا۔ اللہ کا یہی فیصلہ ہے جو ہمیشہ باطل پرستوں کے خلاف کیا جاتا ہے اور حق پر چلنے والوں کو غلبہ عطا کیا جاتا ہے۔
Top