Dure-Mansoor - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ضرور ضرور ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے یا یہ بات ہو کہ تم ہمارے دین میں واپس ہوجاؤ، سو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ضرور بالضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے
1:۔ امام ابن جریر، امام ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رسولوں اور ایمان والوں کو ان کی قوم نے ان کو کمزور بنا رکھا تھا اور ان کو مغلوب کر رکھا تھا اور وہ ان کو جھٹلاتے تھے اور ان کو دعوت دیتے کہ وہ اپنے (سابقہ) دین میں لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو منع فرمایا کہ وہ کفر کے دین میں لوٹ آئیں اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ ان غاصبوں اور ظالموں کے خلاف (اللہ تعالیٰ سے) مدد مانگیں اور ان سے وعدہ فرمایا کہ ان کو نیست ونابود کرنے بعد وہ انہیں ان کے ملک میں ٹھہرائے گا اللہ تعالیٰ نے ان سے کیا ہوا وعدہ پورا فرمایا اور انہوں نے (دشمن کے مقابلہ میں) فتح کی دعا مانگی جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا تھا۔ 2:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولنسکننکم الارض من بعدھم “ سے مراد ہے کہ (اللہ تعالیٰ نے) ان سے دنیا میں مدد کا وعدہ فرمایا اور جنت ( کا وعدہ فرمایا) آخرت میں (پھر) اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ ان کافروں کے ملک میں اپنے رسولوں کو اور ایمان والوں کو ٹھہرائے گا پھر فرمایا (آیت) ” ولمن خاف مقام ربہ جنتن “ (الرحمن) کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کی ایک جگہ ہے اور وہ اس کو وہاں کھڑا کرے گا اور ایمان والے لوگ اس مقام سے ڈرتے ہیں اس وجہ سے وہ دن رات اس کے سامنے کھڑا ہونے کی مشق کرتے ہیں۔ 3:۔ امام حاکم اور بیہقی نے شعب الایمان میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر یہ (آیت) ” قوا انفسکم واھلیکم نارا “ التحریم آیت 6) نازل فرمائی تو اس کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب پر تلاوت فرمایا ایک رات تو ایک نوجوان بیہوش ہو کر گرپڑا نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک اس کے دل پر رکھا تو وہ حرکت کررہا تھا آپ نے فرمایا اے جوان لا الہ الا اللہ کہہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھا تو آپ نے اس کو جنت کی خوشخبری دی آپ کے صحابہ ؓ اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہمارے درمیان سے ؟ (اسے جنت کی خوشخبری ملی ہے) آپ نے فرمایا ہاں کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد نہیں سنا (آیت) ” ولمن خاف مقام ربہ جنتن “ اور فرمایا (آیت ) ” ذلک لمن خاف مقامی وکاف وعید “ 4:۔ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول اور ابن ابی حاتم اور ابن ابی الدنیا نے عبدالعزیز بن ابو رواد سے نقل کیا ہے کہ مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی ” یایھا الذین امنوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ “ (تحریم آیت : 6) حکیم ترمذی کے الفاظ یہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت اتاری تو آپ ﷺ نے صحابہ اکرام ؓ کو پڑھ کر سنایا، ان میں ایک شیخ تھے، حکیم کے الفاظ ایک نوجوان تھا، اس نے سوال کیا یارسول اللہ ! جہنم کا پتھر دنیا کے پتھر کی طرح ہوں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جن ہم کا ایک پتھر دنیا کے پہاڑ سے بڑا ہے یہ سن کر وہ نوجوان بےہوش ہو کر گرپڑا نبی کریم ﷺ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا وہ ابھی زندہ تھا اس کو آواز دی کہ کلمہ پڑھو، لا الہ الا اللہ اس نے پڑھ لیا اس کو جنت کی بشارت دی گئی صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان سے تو فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولمن خاف مقام ربہ جنتن “ (الرحمن آیت : 46) ” ذلک لمن خاف مقامی وخاف وعید (14) 5:۔ امام حاکم نے حماد بن ابی حمید کے طریق سے مکحول سے اور انہوں نے عیاض بن سلیمان ؓ (جو صحابی تھے) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں مجھے الملا الاعلی (یعنی آسمان کے فرشتوں) نے خبر دی یہ وہ لوگ ہیں جو بلند آواز سے ہنستے ہیں اپنے رب کی رحمت کی وسعت پر اور چپکے چپکے روتے ہیں اپنے رب کے عذاب کے خوف سے، اپنے رب کو یاد کرتے ہیں صبح اور شام کو پاکیزہ گھروں میں اور مسجدوں میں اور وہ اپنی زبانوں کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں رغبت سے اور خوف سے اور وہ اس سے سوال کرتے ہیں اپنے ہاتھوں کے ساتھ آہستہ اور بلند آواز میں اور وہ اپنے دلوں کے ساتھ باربار متوجہ ہوتے رہتے ہیں ان کی لوگوں پر مونث اور مشقت بہت ہے اور وہ اپنی جانوں پر بھاری ہوتے ہیں وہ چلتے رہتے ہیں راتوں میں ننگے پاوں چیونٹی کے رینگنے کی طرح بغیر اترانے اور تکبر کے وہ پڑھتے ہیں قرآن کو اور قربانیاں دیتے ہیں اور بوسیدہ کپڑے پہنتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے اور محافظ حاضر ہوتے ہیں اور وہ بندوں میں اور شہروں میں غور وفکر کرتے ہیں ان کی روحیں دنیا میں ہوتی ہیں اور ان کے دل آخرت میں ہوتے ہیں نہیں ہوتی ان کی کوشش (یعنی محبت) مگر ان کے آگے (یعنی آخرت کے لئے) اور وہ تیاری رکھتے ہیں اپنے قبروں کے لئے اور اپنے (آخرت کے) راستوں کے لئے اور صلاحیت پیدا کرنے کے لئے (اللہ تعالیٰ کے سامنے) اپنے کھڑے ہونے کی جگہ کے لئے پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ (آیت ) ” ذلک لمن خاف مقامی وخاف وعید “ تلاوت فرمائی۔ ذھبی (رح) نے فرمایا کہ یہ حدیث عجیب ہے اور منکر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ الحاکم کے شیخ علی بن السماک نے حاکم کو بیان کی فرمایا کہ مستدرک میں اس کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں اس کا راوی حماد ضعیف ہے اور مکحول مدلس ہے اور عیاض کو وہ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے۔ 6:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور امام ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے (آیت ) ” واستفتحوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ (یہ حکم) رسولوں کے لئے ہے کہ تمام رسولوں نے فتح ونصرت کی التجاء کی اور مدد طلب کی اور (آیت ) ” وخاب کل جبار عنید “ یعنی حق کی مخالفت کرنے والا اور اس کے لئے کنارہ کش ہونے والا۔ 7:۔ امام عبدالرزاق امام ابن جریر، ابن منذر اور امام ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واستفتحوا “ یعنی رسولوں نے مدد طلب کی اپنی قوم پر (آیت ) ” وخاب کل جبار عنید “ یعنی حق سے دور اس سے اعراض کرنے والا اور لا الہ الا اللہ کے کہنے سے انکار کرنے والا۔ 8:۔ امام ابن جریر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ ” عنید “ سے مراد ہے حق سے ہٹ جانے والا۔ 9:۔ امام ابن ابی حاتم نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو قیامت کے دن ایک ہموار میدان میں جمع فرمائیں گے جنوں کو انسانوں کو جانوروں کو کیڑے اور زہریلے جانوروں کو ایک گردن آگ میں سے نکلے گی اور کہے گی مجھے مسلط کیا گیا ہے عزیز کریم جبار اور عنید پر جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خدا بناتے ہیں، پھر فرمایا ان کو اچک لے گی جیسے کہ پرندہ اچک لیتا ہے دانے کو اور ان پر غالب آجائے گی اور ان کو لے جائے گی آگ شہر کی طرف اسے ” کیت کیت “ کہا جاتا ہے اور وہ اس میں ٹھہریں گے فیصلہ سے پہلے تین سو سال تک۔ جہنم سے جانور نکلے گا۔ 10:۔ امام ترمذی، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں (ترمذی نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ایک گردن آگ میں سے نکلے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جس سے وہ دیکھتی ہوگی اور دو کان ہوں گے جس سے وہ سنے گی اور زبان جس سے وہ بولے گی، اور کہے گی مجھے تین شخصوں پر مسلط کیا گیا ہے جابر اور منکر حق اور ہر وہ شخص جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ کس اور کو خدا بنایا اور تصویر بنانے والوں کے ا وپر۔ 11:۔ امام ابن ابی شیبہ، احمد، بزار، ابویعلی، طبرانی نے الاوسط میں اور ابن مردویہ نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آگ میں سے ایک گردن قیامت کے دن نکلے گی اور بڑی تیز اور رواں زبان کے ساتھ بات کرے گی اس کی دو آنکھوں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گی اور ایک زبان ہوگی کہ جس کے ذریعے بات کرے گی اور کہے گی میں حکم دی گئی ہوں ہر سرکش اور منکر حق کے لئے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارا ہو اور جس نے کسی کی جان کو ناحق قتل کیا ہو اور ان کو گھیرے گی۔ 12:۔ امام ابن ابی شیبہ نے ابوموسی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جہنم میں ایک وادی ہے جس کو ھبہب کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہا اس میں ہر سرکش کو ٹھہرائے۔ 13:۔ امام طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے ” کل جبار عنید “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جبار سے مراد عیار اور عنید سے مراد ہے حق سے اعراض کرنے والا (پھر) پوچھا کہ عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں، کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ مصر علی الحنث لا تخفی شواکلہ یا ویح کل مصر القلب جبار ترجمہ گناہ کے اصرار پر اس کی نیت مخفی نہیں ہے، افسوس ہے ہر گناہ پر مصر اور عیار شخص پر۔ 14:۔ امام احمد، ترمذی، نسائی، ابن ابی الدنیا نے صفتۃ النار میں، ابویعلی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابونعیم نے حلیہ میں (ابونعیم نے اس کو صحیح بھی کہا) ابن مردویہ اور بیہقی نے البعث والنشور میں ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” ویسقی من مآء صدید “ (16) یتجرعہ “ کے بارے میں فرمایا کہ جب پیپ اور خون کا پانی اس کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو بہت ناپسند کرے گا اور زیادہ قریب لایا جائے گا تو اس کے چہرے کو بھون ڈالے گا اور اس کی سر کی کھال گرپڑے گی جب اس کو پیئے گا تو اس کی انتڑیوں کو کاٹ کر دبر سے نکل جائے گا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” وسقوا ماء حمیما فقطع امعاءہم “ (محمد آیت 15) اور فرمایا (آیت ) ” سرادقھا وان یستغیثوا یغاثوا بمآء کالمھل یشوی الوجوہ “ (الکہف آیت 29) 15:۔ امام ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” من مآء صدید “ یعنی (صدید وہ پانی ہے) جو کافر کی کھال اور اس کے گوشت کے درمیان سے بہے گا۔ 16:۔ امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویسقی من مآء صدید “ سے مراد ہے پیپ اور خون۔ 17:۔ امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور بیہقی نے البعث والنشور میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” من مآء صدید “ سے مراد ہے خون اور پیپ۔ 18:۔ امام عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم، نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کیا کہ (آیت) ” ویسقی من مآء صدید “ سے مراد ہے وہ پانی جو اس کے گوشت اور اس کی کھال میں سے بہے گا۔ 19:۔ امام ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اگر جہنم کی پیپ اور خون کا ایک ڈول آسمان سے لٹکا دیا جائے تو زمین والے اس کی بدبو کو پالیں البتہ ان پر دنیا خراب ہوجائے۔
Top