Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے اس گھر میں پہنچا دیا
لغات القرآن آیت نمبر 28 تا 31 بدلوا انہوں نے بدل دیا۔ نعمت اللہ اللہ کی نعمت احلوا اتارا دار البوار تباہی کا گھر (جہنم) اندادا (ند) شرکاء شریک تمتعوا تم فائدہ اٹھا لو۔ حاصل کرلو۔ مصیر ٹھکانا۔ عبادی میرے بندے یقیموا الصلوۃ وہ نماز قائم کرتے ہیں ینفقون وہ خرچ کرتے ہیں رزقنا ہم نے دیا ۔ سر چھپ کر۔ علانیۃ کھلم کھلا ۔ بیع تجارت، لین دین۔ خلل دوستی ، دوستانہ تعلقات تشریح : آیت نمبر 28 تا 31 گزشتہ آیات میں اس بات کو تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کلمہ طیبہ کی برکتیں اور رحمتیں کیا ہیں ؟ اور کلمہ خبیثہ کی نحوستیں کیا کیا ہیں ؟ مکہ کے مغرور اور امتکبر سرداروں سے کہا جا رہا ہے کہ تمہیں تو اس بات پر ناز ہے کہ تم اللہ کے گھر والے اور بیت اللہ کے رکھوا لے ہو۔ اس کے گھر کے قریب رہتے ہو لیکن تم نے کلمہ طیبہ کی برکتوں کے بجائے کلمہ خبیثہ کی نفرتوں کے گلے ڈال رکھا ہے۔ اللہ نے تمہیں ایسے عظیم پیغمبر پر ایمان لانے کا موقع عطا فرمایا ہے جو تمام نبیوں کے سردار اور آخری نیب اور آخری رسول ہیں ان پر ایک ایسی کتاب ہدایت کو نازل کیا ہے جو قیامت تک ساری دنیا کے انسانوں کے لئے مشعل راہ اور ہدایت کی روشنی ہے۔ فرمایا کہ تمہیں تو اللہ کی ان عظیم نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئے تھا ۔ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنی آخرت کو سنوارنا تھا مگر تم نے کلمہ خبیثہ یعنی کفر و شرک اختیار کرنے کے جہنم کو اپنا ٹھکانا بنا لیا جو ایک بدترین ٹھکانا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم نے جس راستہ کا انتخاب کیا ہے تم چند روزہ زندگی کے مزے اڑا لو پھر تمہیں ایک ایک بات کا حساب دینا ہوگا۔ اور نجات کا ہر راستہ بند کردیا جائے گا۔ فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ وہ لوگ جنہوں نے کلمہ طیبہ یعنی ایمان اور عمل صالح کی زندگی کو اختیار کرلیا ہے ان صاحبان ایمان سے کہہ دیجیے کہ وہ اللہ کی اس نعمت کی قدرت کرتے ہوئے ناشکری کے ہر طریقے کو چھوڑ کر اللہ کا شکر ادا کریں اور اس خلوص سے نمازوں کو قائم کریں کہ شکر کا حق ادا ہوجائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہے اس کو اپنی ذات اور اپنی اولاد تک محدود نہ کرلیں بلکہ کھل کر یا چھپ کر جس طرح ممکن ہو اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ یہی وقت ہے جس میں اپنی دولت اور محنت کی کمائی سے آخرت کی راحتیں خریدی جاسکتی ہیں لیکن موت کے بعد نہ کاروبار اور تجارت ہوگی نہ دوستیاں کام آئیں گی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ” ال دنیا مزرعت الاخرۃ “ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یعنی تمہیں اپنی نیکیوں کو کاشت کرنے کا موسم عطا کردیا گیا ہے۔ یہاں جو کچھ تم کاشت کرو گے وہ آخرت میں تمہارے کام آئے گا۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ اس مختصر عارضی زندگی میں کلمہ طیبہ یعنی ایمان اور عمل صالح کے بیج بوتا ہے یا کلمہ خبیثہ کی کاشت کرتا ہے۔ انجام دونوں کا واضح ہے ۔ دنیا کی زندگی کا موسم کاشت کرنے کا موسم ہے اور آخرت اس سے نتیجہ حاصل کرنے کا موسم ہے۔ کاٹنے بونے والا پھلولوں کی سیج کی امید نہ رکھے۔
Top