Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا
: اور نہ قتل کرو تم
اَوْلَادَكُمْ
: اپنی اولاد
خَشْيَةَ
: ڈر
اِمْلَاقٍ
: مفلسی
نَحْنُ
: ہم
نَرْزُقُهُمْ
: ہم رزق دیتے ہیں انہیں
وَاِيَّاكُمْ
: اور تم کو
اِنَّ
: بیشک
قَتْلَهُمْ
: ان کا قتل
كَانَ
: ہے
خِطْاً كَبِيْرًا
: گناہ بڑا
اپنی اولاد کو مفلسی (غربت، آسائش و آرا) کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ بیشک ان (بچوں کو) قتل کرنا گناہ عظیم ہے ۔
لغات القرآن آیت نمبر 31 تا 35 املاق غربت، آرام و آسائش۔ خطہ کبیر بڑی خطا، گناہ عظیم۔ لاتقربوا تم قریب نہ پھٹکو۔ ولی سرپرست، وارث۔ سلطان صاحب اختیار۔ لایسرف حد سے نہ بڑھو۔ منصور مدد کیا گیا۔ احسن بہترین۔ اشدہ اپنی طاقت، اپنی جوانی ۔ اوفوا پورا کرو، وفا کرو۔ الکیل تول۔ قسطاس ترازو۔ تاویل انجام۔ تشریح آیت نمبر 31 تا 35 سورۃ الاسراء میں چھ بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔ 1- غربت و افلاس کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل کرنا۔ 2- زنا اور بدکاری کے ذریعہ بدترین راستوں کو کھولنا۔ 3- ناحق کسی انسان جان کو لینا اور قتل کرنا۔ 4- یتیم ( بےباپ کے بچوں) کے مال کو ہڑپ کر جانا۔ 5- وعدہ خلافی کرنا۔ 6- ماپ تول میں کمی کرنا۔ فرمایا کہ یہ سب کے سب بدترین گناہ اور معاشرہ کی خرابیوں کے بنیادی اسباب ہیں۔ ان سے ہر حال میں بچنا ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی اور کامیابی کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ ان میں سے ہر گناہ سے ہر حال میں بچا جائے۔ اس سے انسانی معاشرہ اور زندگی کو سدھارنے میں بڑی مدد ملے گی۔ چونکہ یہ سب باتیں نہایت اہم ہیں اس لئے ان میں سے ہر بات کی تفصیل اور وضاحت پیش خدمت ہے۔ 1- بچوں کو قتل کرنا عربت کے بعض قبیلے اور خاندان اپنی اولاد کو یہ کہہ کر مار ڈالتے یا زندہ دفن کردیا کرتے تھے کہ ہمارا گذارا ہی مشکل سے ہوتا ہے ۔ اگر اولاد زندہ رہی تو ہم ان کو کہاں سے کھلائیں گے ؟ اسی طرح بعض قبائل اپنی لڑکیوں کو پیدائش کے بعد یہ کہہ کر قتل کر دیتے یا زندہ زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے کہ یہ لڑکیاں اگر زندہ رہیں تو جوان ہو کر شادیاں کریں گی اور گھر میں داماد آئے گا جس کے سامنے اپنی لڑکی کی وجہ سے جھکنا پڑے گا اور اس کی ہر زیادتی اور ظلم کو برداشت کرنا پڑے گا اس طرح اس کی توہین ہوگی جسے وہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے لہٰذا لڑکیوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسی غلط سوچ کی وجہ سے وہ قتل اولاد میں درندگی کی حد تک پہنچ چکے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بالکل واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ اس کائنات میں جتنے بھی جان دار ہیں ان کے رزق کی ذمہ داری نہ تو افراد پر ہے نہ کسی حکومت پر بلکہ اللہ ہی سب کو رزق پہنچاتا ہے اور وہ کسی کو بھوکا نہیں سلاتا خواہ وہ انسان ہوں یا صحراؤں کے جانور، ہوا میں اڑنے والے پرندے ہوں یا جنگلوں کے درندے، سمندر کی مچھلیاں ہوں یا چیونٹی جیسے ننھے جانور۔ وہ ہر ایک کا رازق ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں قدم رکھنے والوں کا وہ خود ذمہ دار ہے تو اس کی صریح بھول اور غلطی ہے۔ فرمایا کہ ہم ان آنے والوں کے رزق کا پہلے سے انتظام کردیتے ہیں۔ کوئی انسان اس دنیا میں قدم نہیں رکھتا جس کا پہلے سے اس کی ماں کے سینے میں رزق پیدا نہیں کردیا جاتا۔ حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ جب سے انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوا ہے کہ رزق اور اس کے تمام وسائل پیدا کرنا اس کا اپنا کام ہے اس وقت سے انسان رزق اور اس کی برکتوں سے ہی محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذرائع پیداوار کے لئے محنت، مناسب تدابیر اور منصوبہ بندی کرنا کوئی گناہ ہے بلکہ قرآن کی روشنی میں ایسا کرنا لازمی اور ضروری ہے اس کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن اللہ کی شان رزاقیت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھنا کہ انسانوں کے رازق ہم ہیں یہ تصور غلط ہے۔ قرآن کریم اس غلط تصور اور سوچ کی تردید کرتا ہے کہ کچھ لوگ محنت، ذرائع و وسائل اختیار کرنے کے بجائے ایک خاص منصوبہ بندی کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنے بچوں کو اس لئے ہم دنیا میں آنے سے روکتے ہیں کہ ہمارے پاس کھانے کے لئے نہیں ہے تو ہم نئے پیدا ہونے والوں کو کہاں سے کھلائیں گے ؟ ان سے کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ اپنی آسائشوں، سہولتوں اور غربت و افلاس کا نام لے کر جو بچوں کو قتل کردیتے ہیں ان کو اس حرکت سے باز آجانا چاہئے۔ چناچہ موجودہ دور میں خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کی تعداد اس قدر بھیانک انداز میں بڑھ رہی ہے کہ اگر یہ رفتار برقرار رہی تو تمام ذرائع ختم ہوجائیں گے اور پھر انسان انسان کو کھائے گا لہٰذا بچوں کو یا تو پیدا نہ کیا جائے۔ اگر وجود اختیار کرلیں تو ان کو ضائع کرا دیا جائے۔ میرے نزدیک کفار مکہ اور موجودہ دور کے لوگوں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بس فرق ہے تو اتنا کہ پہلے جہالت کے نام پر یہ سب کچھ کیا جاتا تھا اور موجودہ دور میں فیشن اور ترقی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسی زمین میں اتنے وسائل پیداوار رکھ دیئے ہیں کہ وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے کافی ہیں کیونکہ اس رازق نے اس زمین پر انسانوں کے قدم آنے سے پہلے ہی تمام وسائل جمع کردیئے ہیں۔ وسائل کی جیشی ضرورت ہوتی ہے وہ زمین سے نکلتے آتے ہیں مثلاً آج سے ایک سو سال پہلے تیل اور گیس کا کوئی تصور موجود نہ تھا حالانکہ تیل اور گیس کروڑوں سال سے زمین کے اندر موجود تھا اور رہے گا۔ جب ضرورت ہوئی تو یہ وسائل خود بخود نکل آئے۔ میرا خیال ہے کہ اگر دو چار سو سال میں تیل اور گیس کے ذخائر ختم ہوگئے تو یقینا اس کی جگہ قدرت نے دوسری کسی طاقتور تیار کر رکھا ہے جب انسانی ضرورت ہوگی و ذرائع خود بخود زمین کی سطح پر آجائیں گے۔ اس لئے انسانوں کو اس دنیا میں آنے سے روکنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صبر و قناعت ، عدل و انصاف اور محنت کے ذرائع بڑھانے کی ضرورت ہے اس ہوس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس نے نوع انسان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیئے ہیں اس عالمی عدل و انصاف کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ہر شخص امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گذار سکے۔ لیکن اس ہوس پرست دنیا میں یہ سب کچھ کب اور کس طرح ہوگا۔ ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی فلاح و بہبود دین اسلام کے سچے اصولوں اور نبی کریم ﷺ کی کامل اتباع و محبت میں پوشیدہ ہے۔ دنیا کو امن و سکون اور آخرت کی کامیابی صرف اتباع محمدی ﷺ کے ذریعہ مل سکتی ہے۔ 2- زنا اور بد کاری زنا اور بدکاری اتنا بڑا جرم ہے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے والی چیز ہے جس کے متعلق مومنوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم اس ” فعل بد “ کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بےحیائی اور بدترین راستوں کو کھولنے کا ذریعہ ہے جس سے قومیں برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس آیت کا دلچسپ انداز یہ ہے کہ زنا اور بد کاری کے ہر اس انداز کو چھوڑنے کا حکم ہے جس سے کوئی شخص اس گناہ عظیم کے قریب بھی پہنچ سکتا ہو، مثلاً چند باتیں ایسی ہیں جن کے اختیار کرنے سے آدمی زنا اور بد کاری سے بچ ہی نہیں سکتا ان میں تمام باتوں سے بڑھ کر رزق حرام، سود خوری، جوئے بازی، بےپردگی، بےحیائی اور بےشرمی کے وہ مناظر ہیں جن سے انسان زنا اور بد کاری کے قریب پہنچ سکتا ہے ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے زنا کرنے والا زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا، چوری کرنے والا چوری کے وقت مومن نہیں ہوتا، شراب پینے والا شراب پیتے وقت مومن نہیں ہوتا (بخاری و مسلم) مراد یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص صاحب ایمان بھی ہو اور وہ زنا، چوری اور شراب نوشی میں بھی مبتلا ہو یہ سب چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ اسی لئے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ جس وقت ایک مومن زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس کے اندر سے نکل جاتا ہے اور جب وہ اس فعل بد سے فارغ ہوجاتا ہے تو ایمان دوبارہ اس کے جسم میں واپس آجاتا ہے (ابو داؤد) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ساتوں آسمان اور زمین اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا اور بدکاری کرتا ہے۔ جہنم میں ایسے بدکاروں کی شرم گاہوں سے اس قدر شدید بدبو پھیلے گی کہ جہنم والے بھی اس سے سخت پریشان ہوجائیں گے۔ (رواہ البزاز) خلاصہ یہ ہے کہ زنا اور بدکاری ہی سے نہیں بلکہ ان تمام باتوں کے قریب جانے کی بھی ممانعت کی گئی ہے جن سے ایک صاحب ایمان شخص بد کاری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ زنا وہ بدترین فعل ہے جو آخر کار کسی بھی معاشرہ کو روحانی اور جسمانی اعتبار سے تباہی کے کنارے پہنچا دیتا ہے جو اللہ کے عذاب آنے کا سبب بن جاتا ہے۔ باہمی اعتماد اور رشتوں کا احترام اٹھ جاتا ہے اور یہ بےاعتمادی باہمی اختلافات اور جھگڑوں کی بنیاد بن جاتی ہے اسی لئے فرمایا کہ تم اس کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ زنا صرف بےحیائی اور بےغیرتی ہی نہیں ہے بلکہ بہت سے برے راستوں کو کھولنے کا سبب اور بنیاد بھی ہے۔ 3- انسانی جان کا احترام شرعی حق کے بغیر کسی انسان کی جان لینا یا اس کو قتل کرنا حرام ہے۔ اگر کسی کو ناحق قتل کردیا جائے تو شریعت نے مقتول کے وارثوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے ” قصاص “ لے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عقل و سمجھ رکھنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” اے عقل والو ! قصاص ہی میں (تمہارے معاشرہ کی) زندگی ہے۔ اگر قاتلوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا تو وہ معاشرہ جنگل کا معاشرہ بن جائے گا اور احترام انسانیت اٹھ جائے گا۔ دنیا کے قوانین سے الگ اللہ نے قصاص (برابری) کا طریقہ یہ رکھا ہے کہ مقتول کے وارث (1) یا تو جان کے بدلے جان کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ (2) یا خون بہا (جو آپس میں طے پا جائے ) لے کر قاتل کو چھوڑ سکتے ہیں (3) یا چاہیں تو قاتل کو معاف کرسکتے ہیں۔ یہ ایک شرعی حق ہے جس میں کسی عدلات یا حکومت کو مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ صرف مقتول کے وارثوں کو قصاص لینے یا معاف کردینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ کسی بھی عدلات یا حکومت کا کام صرف یہ ہے کہ وہ انصاف دلانے میں مقتول کے وارثوں کی مدد کرے تاکہ ایسا نہ ہو کہ مقتول کے وارث جوش انتقام میں کوئی ایسی زیادتی کر بیٹھیں جس سے وہ خود ہی ظالموں کی صف میں جا کھڑے ہوں مثلاً قاتل کے ساتھ یا اس کے متعلقین کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کر بیٹھیں یا قاتل کے ناک کان اور دیگر اعضاء کو کاٹ ڈالیں۔ شریعت نے اس کی کسی حالت میں اجازت نہیں دی ہے کیونکہ اگر اس طرح انتقام کا سلسلہ شروع ہوگیا تو وہ کسی حد پر جا کر ختم نہ ہوگا۔ اور وہ معاشرہ تہذیب و قانون کی دھجیاں بکھیرنے والا بن جائے گا۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت پورا عرب اسی جہالت و درندگی میں مبتلا تھا اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کے قاتلوں سے جوش انتقام میں بےچین و بےقرار رہا کرتا تھا اور اپنے انتقام کیا آگ بجھانے میں لگا ہوا تھا اور یہ سلسلہ برسوں اور صدیوں تک پھیل چکا تھا۔ اس معاشرہ میں کسی کی جان محفوظ نہ تھی قتل و غارت گری اور جنگ وجدال کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ قرآن کریم نے بالکل واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ ہر شخص قانون کے مطابق مقتول کا قصاص لے سکتا ہے مگر خود نہیں بلکہ کسی عدالت کے ذریعہ قاتل اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ انسانی جان کا احترام اور انصاف دلانے میں مدد کرنا ہر عدالت، حکومت اور معاشرہ کے افراد کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ دین اسلام صرف انسانی جان ہی کا احترام نہیں سکھاتا بلکہ بلا وجہ کسی بھی جان دار کی جان لینے یا اس پر زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ اگر کسی جان دار جانور سے جان جانے کا خطرہ اور اندیشہ ہو تب تو اس کی جان لی جاسکتی ہے لیکن بلا وجہ کسی جانور کی جان لینے یا ستانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ شریعت نے بعض حلال جانوروں کو ذبح کرنے کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہے کہ ان حلال جانوروں کو ذبح کرتے وقت ” اللہ کا نام لیا جائے “ اللہ کے نام کی بڑائی بیان کی جائے جو اس بات کی علامت اور ثبوت ہوگا۔ کہ ہم جس جانور کی جان لے رہے ہیں اس کی اجازت ہمیں اللہ نے عطا کی ہے۔ اگر اللہ کی اجازت نہ ہوتی تو ہم اس جانور کی جان لینے کے بھی حق دار نہ تھے چونکہ اللہ نے اجازت دی ہے تو ہم اس جانور کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر غور کیجیے کہ جس دین نے جانوروں کی جان لینے یا ان کو بلا وجہ ستانے کی بھی اجازت نہ دی ہو وہ شریعت بلا وجہ کسی انسان کو جان لینے کی کیسے اجازت دے سکتی ہے یا اس دین و شریعت کے ماننے والے بلا وجہ ناحق کسی انسان کی جان کیسے لے سکتے ہیں۔ 4- یتیم بچوں کے حقوق کی حفاظت ٭… بعثت نبوی ﷺ کے وقب عرب میں جنگ وجدال اور قتل و غارت گری کی وجہ سے جہاں بدامنی اور جہالت عام تھی وہیں ان جہالتوں کی وجہ سے ہر خاندان میں ایسے یتیم بچوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی جو باپ کے سایہ محبت سے محروم اور معاشرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہو رہے تھے۔ یہ حال تھا کہ ٭… بچے اور بچیوں کو ماں باپ کی میرثا سے محروم رکھتے تھے۔ یتیم بچوں کو دھکے دے کر نکالنا اور ان کو ذلیل و رسوا کرنا ایک عام بات تھی۔ ٭… بچیوں کی جائیداد اور مال و دولت پر قبضہ کرنے کے لئے نگراں خود ہی ان سے نکاح کرلیتے تھے تاکہ گھر کی جائیداد باہر نہ جائے۔ ٭… خاندان کے لوگوں میں سے جو شخص یتیم بچوں کے مال کا نگران ہوتا تھا وہ یتیم کے مال و دولت کو فضول خرچیوں میں اس طرح اڑانے کی کوشش کرتا تھا کہ بچے جوان ہو کر ان سے مال و جائیداد کا حساب کتاب نہ پوچھ لیں۔ ٭… وہ یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کا قطعاً خیال نہ کرتے تھے۔ ٭… اپنی اولاد کے مقابلے میں یتیم بچوں کے ساتھ طرز عمل میں سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ غرضیکہ بدسلوکی، بد دیانتی، بد اخلاقی، ذلیل و رسوا کرنے اور اچھے مال کو خراب مال میں تبدیل کرنے میں وہ یتیم بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے تھے۔ دنیا میں دین اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے بےباپ کے بچوں کے لئے ایسے اصول ارشاد فرمائے جس سے کسی یتیم پر ظلم و زیادتی نہ کی جاسکے۔ قرآن کریم کی سورة بقرہ، سورة النساء ، سورة انفال اور سورة حشر میں بار بار یتیموں کی پرورش ، دیکھ بھال، بہترین سلوک اور نیکی و احسان کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے اور عموماً قرآن کریم کے لاتعداد مقامات پر یتیموں کی دل داری اور ان کے ساتھ انصاف اور محبت کا معاملہ کرنے کا نہ صرف حکم دیا گیا ہے بلکہ یتیموں کے ساتھ نیکی کو معاشرہ کے تمام افراد کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ضرورت ہو تو صدقات و خیرات سے ان کی مدد کی جائے اور اگر ان بچوں کے ماں باپ نہ ہوں تو ان کے مال اور جائیداد کی پوری دیانت و امانت کے ساتھ حفاظت کی جائے نیز ان بچوں کو کسی طرح باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے محروم نہ کیا جائے۔ قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کے ارشادات نے ان لوگوں کی دنیا بدل کر رکھ دی تھی جو یتیموں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتے تھے جن کے پتھروں کبھی یتیموں کے لئے نرم گوشہ نہ رکھتے تھے وہ یتیموں پر بےانتہا مہربان ہوگئے۔ ہر یتیم کی پرورش، نگہبانی اور نرمی و محبت کیلئے کئی کئی ہاتھ بڑھنے لگے اور ہر ایک دل کی یہ خواہش بن گئی کہ وہ کسی نہ کسی یتیم بچے کی پر وشر کرسکے۔ ٭… اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یتیموں کو ان کے وارثوں کا چھوڑا ہوا مال دے دو ۔ ان کے اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور نہ اپنے مال کے ساتھ ملا کر ان (یتیموں کا) مال کھا جاؤ یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔ (سورۃ النسائ) ٭… فرمایا گیا کہ جو لوگ یتیموں کا مال ہضم کر جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرتے ہیں فرمایا کہ وہ لوگ یتیموں کے جوان ہوجانے کے خوف سے ان کے باپ کی چھوڑی ہوئی وراثت کو جلد از جلد کھا کر ہضم کرنے کے چکر میں لگے رہتے تھے اور ان کو بےعزت کرتے تھے۔ (سورۃ البلد) ٭… فرمایا کہ وہ مال جس کو اللہ نے تمہارے کھڑا رہنے کا ذریعہ بنایا ہے اس مال کو نادانوں کے سپرد نہ کرو۔ ان (یتیم) بچوں کو کھلاؤ پہناؤ اور ان سے قاعدے طریقے کی بات کرو اور ان کو آزماتے رہو جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور پھر تم ان میں سمجھ اور شعور کو محسوس کرلو تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو ۔ غرضیکہ یتیم کے مال کی حفاظت اور ان کے اخلاق کی نگرانی کو ہر مسلمان کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ نے بھی یتیموں کی خبر گیری کے احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو کسی یتیم بچے کو اپنے گھر بلا کر اس کو کھلائے پلائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت عطا فرمائے گا بشرطیکہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔ (ترغیب و ترھیب) فرمایا کہ مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم بچے کیس اتھ محبت و مہربانی کا معاملہ کیا جا رہا ہو اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہو (ابن ماجہ) قرآن کریم اور ارشاد نبوی کی وجہ سے صحابہ کرام نے بھی یتیموں کے معاملے میں بہت احتیاط کی ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ چناچہ حضرت عبداللہ ابن عمر کا یہ حال تھا کہ وہ اس وقت تک کھانا پسند نہ فرماتے تھے جب تک ان کے دستر خوان پر کوئی یتیم موجود نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ بےباپ کے بچے پورے معاشرے اور خاندان کے ہر فرد کی ذمہ داری ہیں کہ ان کی اور ان کے مال و جائیداد کی حفاظت کریں تاکہ وہ بڑے ہو کر اسلامی معاشرے کے مفید اور بہترین فرد بن سکیں اور الحمد اللہ اہل ایمان نے اس تقاضے کو ہر دور میں احسن طریقے پر پورا کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا ہے۔ 5- وعدہ پور کرنا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو گم راہ اور فاسق قرار دیا ہے جو عہد و پیمان کرنے کے بعد ان کو توڑ دیتے ہیں۔ فرمایا کہ قرآن کریم پڑھنے کے باوجود وہ لوگ گم راہ ہوجاتے ہیں جو فاسق ( گناہ گار نافرمان) ہیں۔ وہ لوگ جو عہد کو پختہ کرنے کے بعد اس کو توڑ دیتے ہیں (بقرہ) اسی طرح نبی کریم ﷺ نے وعدے کی پابندی کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ عہد و پیمان بندوں نے بندوں سے کیا ہو یا بندوں نے اللہ سے کیا ہو۔ اپنے عہد اور وعدوں کو پورا کرنے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت گواہ ہے کہ آپ نے جنگ و امن اور عام زندگی میں ایفائے عہد کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ جب بھی وعدہ کرتا ہے تو اس کو پورا نہیں کرتا۔ قرآن کریم کی سورة المومنون میں اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہونے والوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب وہ کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو اس کو ہر حال میں پورا کرتے ہیں۔ کوئی حال بھی ہو وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہر اس معاہدہ کو جو شریعت کے احکامات کے مطابق ہو اس کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے۔ اصل میں وہ انسان ہمیشہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنی زبان کا پابند ہو۔ تجارتی لین دین کا وقت ہو یا گھریلو خاندانی معاملات ہوں ان میں سے اسی شخص کو پسند کیا جاتا ہے جو زبان کا پکا ہو اور اس پر وہ عمل کرتا ہو خواہ اس کی وجہ سے اس کو کتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ اٹھاناپ ڑے۔ لیکن وہ شخص جو زبان کا پکا اور پابند نہ ہو اس کا اعتماد اور بھروسہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی نہیں کیا جاتا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اے مومنو ! تم اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو کیونکہ کل قیامت کے دن اس کے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن نہایت ذمہ دار شخص ہوتا ہے۔ وہ جس بات کا عہد کرتا ہے اس کو پورا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ 6- ماپ تول میں کمی جس معاشرہ میں تجارتی دیانت و امانت کا چلن ہوتا ہے وہ ایک کامیاب، بہترین، پر اعتماد اور خوش حال معاشرہ کہلاتا ہے۔ اس کا ہر طرف ایک بھرم اور وقار ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف جس معاشرہ میں بد دیانتی، بد نیتی، دھوکہ، فریب عام ہوجائے جس میں لینے کے پیمانے اور دینے کے پیمانے الگ الگ ہوجائیں وہ معاشرہ نہ صرف بد نام ہوجاتا ہے بلکہ وہ اپنے ہی کرتوتوں میں ڈوب جاتا ہے اور اس کا نقصان ہر شخص کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ماپ تول میں کمی کرن کو تجارتی بد دیانتی کہا جاتا ہے اس بددیانتی اور بد معاملگی کی شریعت نے سخت ممانتع فرمائی ہے۔ فرمایا گیا کہ لوگو ! تم ہمیشہ سیدھی ترازو سے تولا کرو اس میں کمی نہ کرو، ڈنڈی نہ مارو (ورنہ تمہاری زندگی کی برکتیں اٹھ جائیں گی) جو لوگ دیانت و امانت کو رواج دیں گے بہترین انجام ان ہی لوگوں کا مقدر ہوگا۔ لیکن اگر بد دیانتی عام ہوگئی تو نہ صرف دنیا کین ظروں میں بےوقعت اور بےوزن ہوجائیں گے بلکہ اس معاشرہ کا انجام بھی بڑا بھیانک ہوگا ۔ ماپ تول میں کمی نہ کرنے والی قوموں کو باعزت مقام عطا کیا جاتا ہے اور ماپ تول میں بد دیانتی معاشرہ کو لے ڈوبتی ہے۔ ماپ تول میں کمی کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ حضرت شعیب کے واقعات زندگی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ قوم جو تجارتی اور معاشرتی اعتبار سے نہایت مضبوط اور خوش حال تھی ہر طرف سے مال و دولت کی ریل پیل تھی، خوبصورت و حسین شہر، سرسبز و شاداب باغات ، لہلہاتی کھیتیاں اور وہ بلند وبالا عمارتوں کے مالک تھے لیکن ان میں دنیا کے حرص، لالچ اور دولت پیدا کرنے کی تمنا اور لوٹ کھسوٹ اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ جائز و ناجائز کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ ایک اللہ کو بھول کر انہوں نے اپنی تمناؤں کے سینکڑوں بت بنا رکھے تھے تجارتی بد دیاتنی، لالچ، حرص اور کفر و شرک کی جب انتہاء ہوگئی تو اللہ نے اس قوم کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب کو بھیاج۔ حضرت شعیب نے اس قوم کو ہر طرح سمجھایا ہر اونچ نیچ سے آگاہ کیا مگر وہ قوم اپنی بدمستیوں، دنیا کے لالچ اور کفر و شرک میں اس طرح مگن تھی کہ انہوں نے حضرت شعیب کی ایک بات بھی تسلیم نہ کی بالآخر وہ قوم اپنے انجام سے دوچار ہوئی اور پانی کے وہ بند جوان کی زندگی کا سامان تھے ان کو اللہ نے اس طرح توڑ کر رکھ دیا کہ اسی پانی کے سیلاب میں ان کی دولت ، گھر بار، تہیذب و ترقیاں سب ڈوب گئیں اور اس قوم کا نام و نشان مٹ گیا۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں تجارتی بد دیانتیوں کی سخت مذمت فرمائی ہے وہیں آپ نے ان تاجروں کی عظمت بھی بیان فرمائی ہے جو نہایت سچے، دیانت دار اور امانت دار ہو کر تجارت کرتے ہیں۔ فرمایا کہ سچے اور دیانت و امانت کے پیکر ایک تاجر کا یہ مقام ہے کہ وہ قیامت کے دن جب اٹھے گا تو انبیاء کرام، صدقین، صلحا اور نیک انسانوں کی صف میں کھڑا ہوگا۔ ( اور جنت کا ہر دروازہ اس کو اپنی طرف آنے کی دعوت دے گا) اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو بھی ہر طرح کی بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی حرص، لالچ اور کفر و شرک سے محفوظ فرمائے۔ (آمین) ۔
Top