Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور نہ مار ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے ہم روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بیشک ان کا مارنا بڑی خطا ہے
خلاصہ تفسیر
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے قتل نہ کرو (کیونکہ سب کے رازق ہم ہیں) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی (اگر رازق تم ہوتے تو ایسی باتیں سوچتے) بیشک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔

معارف و مسائل
سابقہ آیات میں انسانی حقوق کے متعلق ہدایات کا ایک سلسلہ ہے یہ چھٹا حکم اہل جاہلیت کی ایک ظالمانہ عادت کی اصلاح کے لئے ہے زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ ابتداء ولادت کے وقت اپنی اولاد خصوصا بیٹیوں کو اس خوف سے قتل کر ڈالتے تھے کہ ان کے مصارف کا بار ہم پر پڑے گا آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے ان کی جہالت کو واضح کیا ہے کہ رزق دینے والے تم کون یہ تو خالص اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے تمہیں بھی تو وہی رزق دیتا ہے جو تمہیں دیتا ہے وہی ان کو بھی دے گا تم کیوں اس فکر میں قتل اولاد کے مجرم بنتے ہو بلکہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے رزق دینے میں اولاد کا ذکر مقدم کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا ہے ہم پہلے ان کو پھر تمہیں دیں گے جس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس بندہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اہل و عیال کا تکفل یا دوسرے غریبوں ضعیفوں کی امداد کرتا ہے تو اس کو اسی حساب سے دیتے ہیں کہ وہ ضروریات بھی پوری کرسکے اور دوسروں کی امداد بھی کرسکے ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے انما تنصرون وترزقون بضعفائکم یعنی تمہارے ضعیف و کمزور طبقہ ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری امداد ہوتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اہل و عیال کے متکفل والدین کو جو کچھ ملتا ہے وہ کمزور عورتوں بچوں کی خاطر ہی ملتا ہے۔
مسئلہقرآن کریم کے اس ارشاد سے اس معاملے پر بھی روشنی پڑتی ہے جس میں آج کی دنیا گرفتار ہے کہ کثرت آبادی کے خوف سے ضبط تولید اور منصوبہ بندی کو رواج دے رہی ہے اس کی بنیاد بھی اسی جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھ لیا گیا ہے یہ معاملہ قتل اولاد کی برابر گناہ نہ سہی مگر اس کے مذموم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
Top