Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو ! نماز اور صبر کے ذریعہ مدد مانگو (سہارا حاصل کرو) ۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 153 تا 157 یایھا الذین امنوا (اے وہ لوگو ! جو ایمان لے آئے ہو۔ اے مومنو ! ) ۔ استعینوا (تم مدد مانگو) ۔ الصبر (صبر یعنی جم کر اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا) ۔ الصلوٰۃ (نماز ، عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ) یقتل (مارا جاتا ہے) ۔ احیاء (زندہ) ۔ لا تشعرون (تم شعور (ادراک ، سمجھ) نہیں رکھتے) ۔ لبنلونکم (ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے) ۔ الجوع (بھوک) ۔ نقص (کمی، نقصان) ۔ ثمرات (پھل، پھول، سبزہ ، سبزی) ۔ بشر (خوش خبری دیجئے) ۔ اصابت (پہنچ گئی) ۔ راجعون (لوٹنے والے) ۔ صلوات (رحمتیں (صلوٰۃ کی جمع ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 153 تا 157 اللہ کی راہ میں حق و باطل کا پہلا معرکہ جو غزوۂ کہلاتا ہے اس میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے ۔ کچھ لوگوں نے اللہ کی راہ میں جانیں دینے والوں کے لئے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ہائے افسوس فلاں شخص مرگیا۔ کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس دنیا کی زندگی کے بہت سے فائدے حاصل کرتا ۔ زندگی کی لذتوں سے ہمکنار ہوتا ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے ایمان والو ! زندگی اور موت، نفع اور نقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو جتنے دن اس دنیا میں رکھنا چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے اور جب اس کی زندگی کی مدت پوری ہوجاتی ہے تو اس پر موت کی کیفیات کو طارہ کردیا جاتا ہے۔ اے مومنو ! تم جس دین کی راہ میں چلے ہو اس میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا کیونکہ جس ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا اس میں اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت اور طاقت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا صبر کرو اور ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرو اور اس سے نہ گھبراؤ۔ نمازوں کے ذریعے سے اپنی بندگی کے تعلق کو مضبوط بناتے چلے جاؤ یقیناً وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب کامیابیاں تمہارے قدم چو میں گی۔ فرمایا جو لوگ اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے ہر طرح کے مصائب اور نقصانات کو برداشت کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لئے اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو وہ عالم برزخ میں ایک امتیازی شان کے ساتھ زندہ ہیں جنت کی تمام لذتوں کو حاصل کر رہے ہیں لیکن تم اس دنیا میں رہتے ہوئے اس عالم کی کیفیات کو سمجھ نہیں سکتے۔ اس بات کو ذرا وضاحت سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ : موت کے بعد انسان کی روح ایک اور جہاں میں منتقل ہوجاتی ہے اس کو عالم برزخ کہتے ہیں۔ عالم برزخ میں ہر شخص کو ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے جس میں کچھ سوالات کے بعد اس کے عذاب وثواب کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے، جسے جزا اور سزا کا پوری طرح ادراک ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کر دئیے جاتے ان کو عام لوگوں کے مقابلہ میں ایک خصوصی اور امتیازی برزخی زندگی عطا کی جاتی ہے جس کے اثرات عرصہ دراز تک ان کے جسم پر بھی باقی رکھے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے لیکن شہید کو بھی یہ مقام حیات انبیاء کرام کے طفیل عطا کردیا جاتا ہے۔ شہید جس طرح اور جس حالت میں دفن کیا جاتا ہے۔ وہ اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب شہید قبروں سے اٹھیں گے تو ان کے جسموں سے اسی طرح خون بہتا ہوا ہوگا جس طرح دنیا میں شہادت کے وقت ان کا خون بہہ رہا تھا ۔ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی ان باتوں کو ظاہر کردیتا ہے اور موطا میں حضرت امام مالک (رح) نے شہیدوں کے جسم خاکی کے باقی رہنے کے لئے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرو ابن جموح ؓ اور حضرت عبد اللہ ابن جبیر ؓ جو احد کے غزوے میں شہید ہوئے تھے ان کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ غزوۂ احد کے تقریباً چھیالیس سال کے بعد جب سیلاب کی وجہ سے ان کی قبریں کھل گئیں تو یہ حیرت ناک واقعہ ہزاروں آدمیوں نے دیکھا کہ ان کے جسم بالکل اسی طرح تروتازہ اور شگفتہ و شاداب تھے جیسے انہیں آج ہی دفن کیا گیا ہو۔ اسی طرح جب دریائے دجلہ حضرت عبد اللہ ابن جابر ؓ اور دوسرے شہیدوں کی قبروں کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔ تو حکومت عراق نے ان شہیدوں کے جسموں کو حضرت سلمان فارسی ؓ کے مزار کے قریب منتقل کرنا چاہا۔ تیرہ صدیاں گزرنے کے باوجود ان کے جسم اور کفن بالکل صحیح سلامت پائے گئے ہزارہا لوگوں نے قرآن کی صداقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شہیدوں کو نہ صرف عالم برزخ میں حیات عطا فرماتا ہے بلکہ ان کے جسموں کو بھی برقرار رکھ سکتا ہے جس کا کبھی کبھی مشاہدہ ممکن ہے۔ روحوں کی دنیا میں اور جنت میں شہیدوں کو جو اعزاز عطا کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی روحوں کو سفید اور سبز پرندوں کا جیسا جسم دیا جاتا ہے وہ جنت میں جس جگہ چاہتے ہیں آزادی کے ساتھ آ جاسکتے ہیں اور وہ جنت کی راحتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور رات کو عرش الٰہی کی قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ ہم اپنے سمجھنے کے لئے اس عالم کی زندگی کو اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں کہ عام لوگوں کے مقابلہ میں شہداء کو ایک امتیازی مقام عطا کیا جاتا ہے وہ سفید اور سبز پرندوں کی شکل میں جنت کی راحتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جبکہ اعلیٰ ترین زندگی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ہوتی ہے جن کو وہ حیات عطا کی جاتی ہے جو نہ صرف بلند ترین ، ارفع، و اعلیٰ ہوتی ہے بلکہ ان کی عظمت شان کا تصور بھی ممکن ہے۔ ایک دوسرے مقام پر قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ “ وہ لو گ جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے جاتے ہیں وہ زندہ ہیں ان کو اللہ کی طرف سے رزق عطا کیا جاتا ہے جس سے وہ خوش ہوتے ہیں ” یعنی لذات اور اعمال دونوں اعتبار سے ان کو وہاں کی زندگی کے تمام فوائد اور لذتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ تمام وہ کیفیات ہیں جن کا علم ہمیں قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ حاصل ہوا ہے۔ ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے ان ہی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں جو ہمارے پانچوں حواس کے دائرے میں سما سکتی ہوں لیکن جو باتیں ہمارے حواس سے باہر ہیں ہم ان کا نہ تو ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہمارے شعور میں وہ باتیں آسکتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ دوسرے جہان میں وہ زندہ ہیں مگر تم اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے اب ان کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے شہید ہوجانے کے بعد ان کی بیوہ عورتوں سے بھی عدت گزرنے کے بعد نکاح کیا جاسکتا ہے ان کا چھوڑا ہوا مال و اسباب ورثاء میں تقسیم کردیا جاتا ہے یہ صرف انبیاء کرام کی خصوصیت ہے کہ ان کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کی بیویوں سے کوئی نکاح نہیں کرسکتا۔ اور نہ ان کا ترکہ تقسیم ہوتا ہے کیونکہ ان کو دوسرے عالم کی زندگی میں ارفع و اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ان کے جسموں کو نہ تو زمین کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ کھا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مبارک جسموں کی بھی حفاظت فرماتے ہیں۔ بہرحال جو بات ہمارے حواس خمسہ سے باہر ہے اس کیفیت کو ہم کسی مثال سے تو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن سفید و سبز پرندوں کی کیفیت ، کھانے پینے کی لذت ، عرش الٰہی کی قندیلوں میں بسیرا کرنے کی حالت کا ہم ادراک و شعور حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان کو روحوں کے جہان میں ایک امتیازی مقام دیا جاتا ہے خواہ اس کی کیفیت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی مقدس، پاکیزہ اور لطیف روحوں پر حیات برزخی کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ شہداء سے بہت ہی قوی اور اعلیٰ و برتر ہوتے ہیں۔ اسی بات کو یہاں سمجھایا گیا ہے کہ جو لو گ اللہ کی راہ میں محض اس کی رضا و خوشنودی کے لئے مصائب اور تکلیفوں کو جھیلتے ہیں، صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اور نماز کے ذریعہ اپنے تعلق بندگی کو مضبوط کرتے رہتے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ اللہ کی راہ میں پیش کردیتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کی کیفیات اور لذتوں کا شعور نہیں کرسکتے ، ان کو عرش الٰہی کے سائے میں تمام راحتیں عطا کی جاتی ہیں۔
Top