Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 42
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کون يَّكْلَؤُكُمْ : تمہاری نگہبانی کرتا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن مِنَ الرَّحْمٰنِ : رحمن سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ عَنْ ذِكْرِ : یاد سے رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں
قُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ۝ 0ۭ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ 42 كلأ الْكِلَاءَةُ : حفظ الشیء وتبقیته، يقال : كَلَأَكَ الله، وبلغ بك أَكْلَأَ العُمرِ ، واكْتَلَأْتُ بعیني كذا . قال : قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ الآية [ الأنبیاء/ 43] . والْمُكَلَّأُ : موضع تحفظ فيه السُّفُنُ ، والْكَلَّاءُ : موضع بالبصْرَةِ ، سمّي بذلک لأنهم يَكْلَئُونَ سفنهم هناك، وعبّر عن النّسيئة بِالْكَالِئِ. وروي أنه عليه الصلاة والسلام : «نهى عن الْكَالِئِ بالکالئ» «3» . والْكَلأُ : العِشْبُ الذي يحفظ . ومکان مُكْلَأٌ وكَالِئٌ: يكثر كَلَؤُهُ ( ک ل ء ) الکلاء ۃ کے معنی کسی چیز کی حفاظت کرنے اور اسے رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ کلاک اللہ ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں محفوظ رکھے وبلغ بک اکلاء العمر انتہائی عمر تک بحفاظت پہنچائے ۔ اکتلات بعینی کنا میں نے بذات خود فلاں چیز کی نگرانی کی قرآن میں : ۔ قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْالآية [ الأنبیاء/ 43] کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے ۔ الملاء ( گودی ) ہر وہ مقام جہاں کشتیوں کو محفوظ رکھا جاسکے ۔ الکلاء ۔ بصرہ میں ایک مقام کا نام ہے کیونکہ وہاں کشتیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے لے جاتے تھے اور کالی کے معنی ادھار کے ہیں ۔ چناچہ حدیث میں ہے ۔ کہ آنحضرت ﷺ نے بیع الکالی با لکالی یعنی ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع کرنے سے منع فرمایا : الکلا ۔ اس گھاس کو کہتے ہیں جسے محفوظ کرلیا گیا ہو ۔ اور ہر وہ مقام جہاں گھاس زیادہ ہوا سے مکلا یا مکان کائی کہا جاتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
Top