Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 5
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کون يَّكْلَؤُكُمْ : تمہاری نگہبانی کرتا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن مِنَ الرَّحْمٰنِ : رحمن سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ عَنْ ذِكْرِ : یاد سے رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
(اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ رات اور دن میں رحمٰن (کے عذاب سے) تمہیں کون بچاتا ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی یاد سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 42 تا 47 یکلو حفاظت کرتا ہے۔ بچاتا ہے۔ معرضون منہ پھیرنے والے۔ تمنع بچاتا ہے۔ روکتا ہے۔ طال طویل ہوگیا۔ لمبا وہ گیا۔ ننقص ہم گھٹاتے ہیں۔ الصم بہرے۔ نفحۃ لپٹ، شعلہ۔ الموازین (میزان) ترازوئیں۔ القسط انصاف، عدل مثقال وزن۔ حبۃ زرہ، ایک دانہ۔ خردل رائی۔ حاسبین حساب لینے والے۔ تشریح : آیت نمبر 42 تا 47 اللہ نے اپنے فضل و کرم سے قریش کو عرب میں ایک خاص مقام اور شدید بدامنی اور قتل و غارت گری کے دور میں بھی امن و سکون عطا کر رکھا تھا۔ وہ اللہ ان کو ہر طرح کی مشکلات، مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچاتا رہتا تھا۔ ان کے باپ دادا کو ہر طرح کا راحت و آرام اور بہترین اسباب دے رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ لمبی عمروں کے باوجود سکھ چین سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان تمام مہربانیوں کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ اللہ جو رحمٰن و رحیم ہے اس کی عبادت و بندگی اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں لگ جاتے اور اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزارتے مگر انہوں نے تکبر غرور اور ناشکری کے طریقے اختیار کر کے جھوٹے معبودوں کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا اور ان کو اپنا سہارا سمجھ رکھا تھا۔ حالانکہ ان لوگوں نے جھوٹے معبودوں کا سہارا پکڑ رکھا تھا وہ تو خود اپنے وجود پر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ کیا وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم زمین کو کتنی تیزی کے ساتھ کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں یعنی ان کی زندگی کے دائرے تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا اقتدار روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب ان پر عرب کی سر زمین تنگ ہو کر رہ جائے گی۔ فرمایا کہ آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہاری خیر خواہی اور بھلائی میں وحی الٰہی کی دلیل سے بات کہہ رہا ہوں تاکہ وہ لوگ اللہ کے اس عذاب سے بچ سکیں جس کی ایک لپٹ اور شعلہ بھی ان کو چھو جائے گا تو وہ نہ صرف اپنی بدنصیبی کا رونا روئیں گے بلکہ اس عذاب سے ان کے ہوش اڑ جائیں گے اور اس کو برداشت نہ کر پائیں گے اور یہ کہہ اٹھیں گے کہ واقعی ہم نے ظلم اور زیادتی کی تھی۔ آخرت میں جب اللہ تعالیٰ میزان عدل قائم فرمائیں گے تو کسی پر ذرا برابر ظلم اور زیادتی نہ ہوگی اور رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل چھپا نہ رہ سکے گا اور ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہوگا۔ اس ہولناک دن ان عزت داروں کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہ مل سکے گی رسوائی اور ذلت ان کا نصیب بن جائے گی۔ حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جو میزان عدل رکھی جائے گی وہ اس قدر وسیع ہوگی کہ اس میں زمین اور آسمان بھی سما جائیں گے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا کی ترازو میں تو ظاہری چیزیں تولی جاتی ہیں لیکن وہ ترازو کیسی عجیب ہوگی جس میں انسانوں کے اخلاق ، معاملات اور اعمال تک تو لے جائیں گے۔ واقعتاً اس دن کے عذاب اور ذلت سے جو بچ گیا وہ کامیاب اور بامراد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس دن کی رسوائی سے بچائے اور حساب کو آسان فرمائے۔ (آمین)
Top