Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 5
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِفُرُوْجِهِمْ : اپنی شرمگاہوں کی حٰفِظُوْنَ : حفاطت کرنے والے
وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
(4) کامیاب اہل ایمان کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی مکمل حفاظت کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کو اپنی بیویوں اور ان باندیوں تک (جن کی اس زمانہ میں اجازت تھی) محدود رکھتے ہیں۔ جو لوگ ان حدود سے آگے قدم نہیں بڑھاتے اس پر انہیں کسی طرف سے کسی ملامت کا سامنا کرنا نہ پڑے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص ان حدود سے آگے قدم بڑھائے گا تو وہ زیادتی کرنے والا ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر رہیں گے انہیں روحانی قوت و طاقت ‘ اطمینان قلب اور سکھ چین نصیب ہوگا۔ لیکن ان حدود کو پھلانگنے والے اللہ کی رحمتوں سے محروم اور بد ترین عادتوں اور معاشرہ کو رسوا اور برباد کرنے والے بن جائیں گے۔ اس بد ترین فعل کو زنا کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی قومیں تباہ و برباد ہوگئیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنو ! تم زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ وہ کھلی بےحیائی ‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا اور بدترین راستوں کو کھولنے والا ہے۔ اس کا پہلا نقصان تو یہ ہے کہ اس شدید گناہ میں مبتلا ہونے والا معاشرہ باہمی اعتماد اور بھروسہکو کھودیتا ہے کیونکہ اس میں کسی کی عزت ‘ آبروا ور عصمت محفوظ نہیں رہتی۔ اگر اس معاشرہ میں کفار غالب ہوں تو ان کو سوچنے ‘ سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ جب وہ بار بار کی تنبیہ کے باوجود ہوش میں نہیں آتے تو ان پر عذاب الہٰی نازل ہوجاتا ہے۔ زنا اور ایمان میں ایسی غیریت اور ضد ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی اس فعل بد میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا ایماناس کے اندر سے نکل جاتا ہے اور جب وہ اس سے فارغ ہوجاتا ہے تب ایمان واپس لوٹتا ہے۔ زنا کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ زانی اور بدکار آدمی باطنی ‘ روحانی اور جسمانی طور پر کمزور پڑجاتا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی حس اور احساس زندہ ہے تو اس کا دل اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا۔ جس سے اس کو کبھی سکون نصیب نہ ہوگا۔ لیکن اگر اس کا احساس ہی مردہ ہوچکا ہے اور اس کے اندر سے احساس گناہ ہی مٹ چکا ہے تو ایسا شخص ہر بھلے اور نیک راستے سے محروم رہتا ہے اور اس کو کبھی سچی توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور یہ بد نصیبی اسے جہنم کی بھڑکتی آگ پر پہنچا کر دم لیتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جب تک موت کے فرشتے سامنے نہیں آجاتے اس وقت تک توبہ کے دروازے بند نہیں ہوتے لہٰذا اگر کوئی شخص سچے دل سے توبہ کرے لے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرماسکتا ہے۔
Top