Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 124
وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کرے گا مِنَ : سے الصّٰلِحٰتِ : اچھے کام مِنْ : سے ذَكَرٍ : مرد اَوْ اُنْثٰى : یا عورت وَھُوَ : بشرطیکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : تو ایسے لوگ يَدْخُلُوْنَ : داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت وَلَا : اور نہ يُظْلَمُوْنَ : ان پر ظلم ہوگا نَقِيْرًا : تل برابر
اور جو شخص کوئی بھال کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ایسے مومن جنت میں داخل ہوں گے ۔ ان کے حق میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
آیت نمبر 124-126 لغات القرآن : ذکر اوانثی، مردوں میں سے یا عورتوں میں سے۔ نقیر، تل برابر۔ احسن دین، بہترین طریقہ، بہترین راستہ۔ خلیل، دوست۔ تشریح : یہود، نصاریٰ اور مسلم تینوں مذہب والے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بزرگ پیغمبر مانتے ہیں جن کا مقام بہت واجب التعظیم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور خود حضور نبی کریم ﷺ سب ان کی اولادوں میں ہیں۔ اس آیت میں خاص خطاب بنی اسرائیل یعنی یہود دے ہے کہ اگر وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے ہیں تو دیکھ لو ان کی خاص صفت توحید تھی یعنی وہ اللہ کو معبود مانتے تھے۔ وہ صرف اللہ سے امیدیں رکھتے تھے۔ اسی کا وہ خود رکھتے تھے۔ مگر تم نے ان کا دین چھوڑ دیا ہے اور اب مسلمانوں نے ان کا دین اختیار کرلیا ہے اور وہ دین اسلام ہے۔ اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو محض عقیدتاً ماننا نہیں ہے بلکہ عملاً بھی ماننا ہے (اور عمل کی اہمیت پچھلی آیات میں گزرچکی ہے) تو پھر تم اس دین کی اتباع و پیروی کرو جس میں توحید خالص ہے۔ اور تم اللہ کے دین کو مانو یا نہ مانو، یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہے ان سب کا مالک اور خالق اللہ ہے اور ذرہ ذرہ پر اس کی گرفت ہے اس کی بندگی اور عبادت ہی ایک مومن کے لئے سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
Top