Baseerat-e-Quran - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف خاندان اور قبیلے بنا دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو لیکن اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ قابل احترام وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا اور خبر رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 13 : خلقنا (ہم نے پیدا کیا) ذکر (مرد) انثی (عورت) شعوب (خاندان) ‘ قبائل (قبیلے) ‘ لتعارفوا (تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو) ‘ اکرم (سب سے زیادہ عزت والا) ‘ اتقی (بہت زیادہ پرہیز گار) ۔ تشریح : آیت نمبر 13 : دنیا پرستوں نے مال و دولت کی بنیاد دیر ساری کائنات کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ایک طرف تو غریب مزدور اور محت کش طبقہ ہے دوسری طرف دولت مند ‘ سرمایہ دار اور عیش پسند طبقہ ہے۔ لوگوں کے نزدیک جس کے پاس جتنی دولت ‘ سرمایا اور اونچی بلڈنگیں اور بہتریں سوراریاں ہیں اس کو عزت دار اور بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے خواہ اس میں ہزاروں عیب کیوں نہ ہوں اس کے بر خلاف وہ آدمی جس کے پاس مال و دولت نہیں ہے محض اس کی اپنی ذاتی شرافت ہے اور دنیاوی وسائل سے وہ محروم ہے تو اس کو معاشرہ میں چھوٹا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ اس طبقاتی تقسیم نے دنیا میں سارے فسادات اور ظلم و جبر کو جنم دیا ہے۔ اسی لئے دین اسلام نے انسانی شرافت اور بڑائی کا معیار مال و دولت اور سرمائے کو نہیں بلکہ تقویٰ اور پرہیز گاری کو قرار دیا ہے۔ وہ شخص جو اللہ سے ڈرتا ہے تقویٰ اور پرہیزگاری کی زندگی گذارتا ہے وہ اللہ کے نزدیک انتہائی معزز اور قابل احترام ہے لیکن وہ سرمایہ دار شخص جو برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہے ‘ اللہ کا نافرمان اور ظالم و جابر ہے وہ دنیا والوں کی نظر میں کتنا ہی باعزت اور بڑا آدمی ہو اللہ کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے لوگوں کے نزدیک عزت و شرافت کا معیار مال و دولت ہے لیکن اللہ کے نزدیک تقویٰ ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے علان نبوت فرمایا اس وقت بھی رنگ و نسل ‘ زبان ‘ وطن ‘ خاندان ‘ اولاد ‘ مال و دولت اور نسبی شرافت پر فخر کیا جاتا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اس ادنیٰ اور اعلیٰ کے من گھڑت تصور کو بےبنیاد قرار دے کر تقویٰ و پرہیز گاری کو انسانی شرافت کا معیار قرار دیا چناچہ آ پنے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ تمام لوگ آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں جنہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر نہ کسی کالے کو گورے پر اور نہ کسی سفید اور سرخ رنگ والے کو دوسروں پر سوائے تقویٰ کے کوئی بڑائی اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (آدم ؐ و حوا (علیہ السلام) ) سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں محض ایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے تقسیم کیا ہے۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا پورا پورا علم ہے اور وہ ہر ایک کی خبر رکھنے والا ہے۔ صرف دین اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی بیشمار مخلوق کی نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک بنایا ہے ورنہ دنیا پر ستوں نے تو لوگوں کو اتنے خانوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے کہ آدمیت کی شکل پہچاننا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ انسانی شکل کا یہ بگاڑ انسان کی خود غرضی ‘ لالچ ‘ رنگ و نسل ‘ زبان ‘ وطن اور قومیت اور اس کی تقسیم سے پیدا ہوا ہے۔ یہ صرف دین اسلام ہی ہے جس نے ساری دنیا کو بتادیا کہ ذات ‘ پات ‘ چھوٹا ‘ بڑا ‘ کالا ‘ گورا ‘ عرب اور عجم ان سب کی اصل ایک ہے کیونکہ اللہ نے سب مردوں اور عورتوں کو ایک ہی ماں باپ سے وجود عطا کیا ہے۔ قبیلہ ‘ خاندان ‘ زبان اور وطن یہ ایک دوسرے کی پہچان کا ذریعہ تو ہیں لیکن ان میں فخر و غرور کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قومیتوں ‘ خاندانوں اور قبیلوں پر فخر نے انسان کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ آج پوری دنیا کے تمام خطوں میں شدید کرب اور اذیت میں مبتلا لوگوں کی چیخیں اور آہیں بھی گھٹ کر رہ گئی ہیں۔ نسل پرستی کے نعرے کی ابتدا یہودیوں سے ہوئی ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کو اللہ کی منتخب اور پسندیدہ مخلوق قرار دے کر غیر اسرائیلیوں کو حقیر و ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہندوؤں نے برہمنوں کو ساری عزت و سر بلندی کا مالک قرار دے کر شودروں اور نیچی ذات والوں کو ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا ہے۔ افریقہ اور امریکہ میں کالے اور گورے کے فرق نے جو تباہی مچائی ہے اس سے تاریخ بھی شرماجاتی ہے۔ یورپ کے گوروں نے براعظم امریکہ میں ریڈانڈین نسل کے ساتھ جو ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا ہے اس کی داستانوں کی گونج سے آج بھی پورا امریکہ لرزرہا ہے۔ یورپ کے سرمایہ دار اگر غریب اور مزدور پر ظلم کی انتہا نہ کردیتے تو کمیونزم اور سوشلزم کا کینسر جنم نہ لیتا۔ ان ہی باتوں کا اثر ہے کہ نازی جرمنوں کے نسل پرستانہ فلسفہ اور نارڈک نسل کی برتری نے دنیا کو پہلی جنگ عظیم کے شعلوں میں دھکیل دیا جس کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم ہوئی۔ ہر ملک نے اپنی حفاظت کے نام پر ایسے ایسے ہتھیار بناڈالے کہ انسان کو بارود کے ڈھیر پر لاکر بٹھا دیا ہے نجانے کب کوئی پاگل اور دیوانہ سر براہ ساری دنیا کو تباہو برباد کرنے کا سبب بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متقی اور غیر متقی میں تقسیم کرکے انسانیت پر احسان عظیم کیا ہے اور یہی فلسفہ حیات اب بھی دنیا بھر کے لوگوں کو انسانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتا ہے۔ دنیا کے سامریوں نے سرمایہداری کے بچھڑے کو اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ اس کا مقابلہ مشلک ہے لیکن اللہ کا نظام انسانوں کے ان بتوں کو توڑ نے کی طرف متوجہ ہوچکا ہے اور عجب نہیں کہ اللہ اپنے دین کو ہر نظریہ حیات اور ہر ایک دین پر غالب کرنے کے لئے سوئی ہوئی امت کو جگا کر دنیا کی باگ ڈوران کے ہاتھ میں تھمادے۔
Top