بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
نون (حروف مقطعات میں سے ایک حرف ہے جس کے معنی کا علم اللہ کو ہے) ۔ قسم ہے قلم کی اور ان (فرشتوں) کی جو لکھتے جاتے ہیں۔
لغات القرآن۔ یسطرون۔ وہ لکھتے ہیں۔ ممنون۔ منقطع ہونے والا۔ ختم ہونے والا۔ تبصر۔ تو دیکھے گا۔ المفتون۔ دیوانہ۔ ودوا۔ وہ پسند کرتے ہیں۔ تدھن۔ تو خوشامد کرے۔ تو نمر پرے۔ حلاف۔ بہت قسمیں کھانے والا۔ مھین۔ ذلیل کمینہ۔ ھماز۔ طعنے دینے والا۔ مشائ۔ پھرنے والے۔ نیمیم۔ چغل خور۔ باتیں لگانے والے۔ مناع۔ روکنے والا۔ معتد۔ حد سے بڑھنے والا۔ اثیم۔ گناہ گار۔ عتل۔ اکھڑ۔ اجد۔ زنیم۔ بدنام۔ نسیم۔ ہم داغ دیں گے۔ الخرطوم۔ ناک۔ دم۔ سونڈ۔ تشریح : سورة القلم کا آغاز ” ن “ سے کیا گیا ہے جو حروف مقطعات میں سے ایک حروف ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟ اس کی تفصیل اس سے پہلی ابتدائی سورتوں میں آچکی ہے کہ ان حروف کے معنی اور مراد کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم و کو ان حروف کے معنی بتا دئیے ہوں لیکن خود نبی کریم ﷺ نے ان حروف کے معنی نہیں بتائے۔ اگر امت کے لئے ان حروف کے معانی بیان کرنا ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ضرور ارشاد فرمادیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قلم اور اس سے لکھی جانے والی تحریر کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ دیوانے نہیں ہیں بلکہ خلق عظیم کے درجے پر فائز ہیں اور آپ کا اجرو ثواب اور فیض پر تو وہ اجر عظیم ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب ہر ایک کو اس بات کا پوری طرح اندازہ ہوجائے گا کہ راہ ہدایت پر کون ہے ؟ اور سیدھے راستے سے بھٹک کر کون گمراہی میں مبتلا ہے ؟ نبی کریم ﷺ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کی پرواہ نہ کیجئے اور نہ ان کی کسی بات کو تسلیم کیجئے جو ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے خود ہی پاگل پن کا شکار ہیں۔ خاص طور پر وہ شخص جو بہت قسمیں کھانے والا، ذلیل و خوار، طعنے باز، چغل خور، نیک کاموں سے روکنے والا، گناہوں میں حدوں سے نکل جانے والا، بدمزاج اور برے نسب کا مالک ہے۔ وہ اپنے مال اور اولاد کی کثرت کی وجہ سے اللہ کے دین کو جھٹلاتا ہے اور جب اس کے سامنے اللہ کا کلام پڑھا جاتا ہے تو وہ کہتا کہ یہ تو گزرے ہوئے لوگوں کے قصے اور کہانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اس کو ذلیل کرکے چھوڑیں گے۔ درحقیقت یہ شخس (ولید ابن مغیرہ) اور اس کی طرح ذہن رکھنے والے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ ذرا ڈھیلے پڑجائیں اور ان کے بتوں اور جھوٹے معبودوں کے معاملے میں نرمی اختیار کرلیں تو یہ بھی مخالفت میں ڈھیلے پر جائیں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ایسے لوگ ہرگز اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی طرف توجہ بھی دی جائے۔ آپ بےفکر ہو کر اللہ کے دین کو ہر شخص تک پہنچانے کی جدوجہد کرتے رہیں اس پر آپ کو ایسا اجر عظیم عطا کیا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا اور دنیا اور آخرت میں آپ ہی کا فیض جاری رہے گا۔ زیر مطالعہ آیات کی مزید وضاحت یہ ہے کہ (1) ۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھا کر اس سورت کا آغاز فرمایا ہے۔ قلم کیا ہے ؟ اور قلم سے لکھی جانے والی سطروں کی کیا اہمیت ہے ؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جابر بن اعبد اللہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ورض کیا میرے ماں باپ آپ کی (عظمت و شان) پر قربان مجھے یہ بتا دیجئے کہ اللہ نے چیزوں میں سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے سب چیزوں سے پہلے تمہارے نبی کے نور کو پیدا فرمایا تھا۔ پھر وہ نور قدرت الٰہی سے جہاں اس کو منظور ہوا سیر کرتا رہا۔ اس وقت لوح و قلم، جنت و جہنم، زمین وآسمان، چاند اور سورج، جن و انسان اور فرشتے یا ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ تھی۔ پھر جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اس نور کے چار حصے کئے۔ (1) ایک حصے سے قلم کو پیدا کیا۔ (2) دوسرے سے لوح محفوظ کو (3) تیسرے سے عرش کو (4) اور چوتھے حصے سے ساری مخلوق کو پیدا فرمایا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ۔ قلم نے عرض کیا الٰہی کیا لکھوں ؟ اللہ نے فرمایا کہ تقدیر کو لکھ۔ چناچہ قلم نے ہر اس چیز کو لکھا جو گذر گیا یا آئندہ آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی قلم کی قسم کھا کر بتایا ہے کہ نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو دیوانہ کہنے والے کتنے پاگل پن اور دیوانگی میں مبتلا ہیں کہ جن کے صدقے کائنات کو وجود ملا۔ جنہوں نے دنیا کو وہ نظام زندگی دیا جو قیامت تک انسان اور انسانیت کی فلاح اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ جن کے عظیم اخلاق نے انسانوں کو وہ نمونہ زندگی دیا جو بےمثال ہے۔ جن کی عظمت اور شان یہ ہے کہ اعلان نبوت سے پہلے ہر شخص ان کو صادق اور امین کہتا اور ان کی فہم و فراست کا قائل تھا۔ لیکن جب اس سچائی کا آپ نے اعلان کیا جس سچائی کو سارے انبیاء کرام لے کر تشریف لائے تھے تو بےحقیقت معبودوں کو پوجنے والے آپ کو دیوانہ اور مجنون کہنے لگے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اللہ کے فضل و کرم سے آپ دیوانے نہیں ہیں بلکہ وہ وقت دور نہیں ہے جب ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور ساری دنیا پر آپ ہی کے فیض کا سایہ ہوگا اور آپ کے اخلاق کریمانہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سچا راستہ نصیب ہوگا اور کبھی نہ ختم ہونے والا اجر عظیم آپ کو عطا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جب نبی کریم ﷺ پر غار حرا میں پہلی وحی نازل کی تو اس وقت بھی ارشاد فرمایا کہ انسان جن حقیقتوں سے واقف نہیں تھا اللہ نے وہ تمام حقیقتیں انسان کو سکھائیں اور قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ قلم اور اس کی تحریر کو حکومت و سلطنت کے انتظام میں بڑا دخل اور کسی بھی سلطنت کی ترقی کا دارومدار قلم اور تحریر ہی ہے۔ تاریخ اور قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں قلم کے ذریعہ ہی دنیا تک پہنچیں۔ اگر قلم اور تحریر نہ ہوتی تو انسانی زندگی کے ہزاروں گوشے پردہ گم نامی میں ہوتے۔ اگر قلم نہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ کی ہمہ گیز تعلیم، اس کی اشاعت اور تمام دنیا کو علم کا نور کیسے پہنچتا۔ اللہ نے اسی قلم کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس قلم کے ذریعہ تقدیرات الٰہی کو لکھا گیا ایسا بلند اور پاکیزہ کلام پیش کرنے والا کیا مجنون اور دیوانہ ہوسکتا ہے ؟ (2) دوسری بات اخلاق مصطفویٰ ﷺ کے متعلق فرمائی کہ اللہ نے آپ کو اخلاق کریمانہ کا پیکر اور مجسم نمونہ زندگی بنایا ہے۔ آپ نے پتھر برسانے والوں کے لئے ہدایت کی دعا کی اور راستے میں کاٹنے بچھانے والوں کے لئے پھول برسائے ہیں۔ آپ نے قرآن کریم کی تعلیمات کا مجسم نمونہ بن کر ” خلق عظیم “ کا درجہ حاصل فرمایا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے جب کسی نے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو ام المومنین نے فرمایا ” کان خلقہ القرآن “ یعنی قرآن کریم کے تمام اصولوں کی صحیح تشریح اور اخلاق ہی آپ کی سیرت ہے۔ آپ نے قرآن کریم کے ہر اصول کو عمل میں دھال کر اس طرح پیش فرمایا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والا اور درحقیقت سیرت مصطفیٰ ﷺ ہی کا مطالعہ کرتا ہے۔
Top