Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ مچائو۔ اپنے اللہ کو اس سے ڈرتے ہوئے اور امید کے ساتھ پکارو۔ بیشک اللہ کی رحمت نیک کام کرنے والوں سے قریب ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر (56 تا 58 ) ۔ لا تفسدوا (تم فساد نہ کرو) ۔ اصلاح (درست۔ درستگی) ۔ طمعا (امید) ۔ یرسل (وہ بھیجتا ہے) ۔ الریع (ریع) ۔ ہوائیں) ۔ اقلت (اٹھالائیں۔ (اقلال) ۔ سحاب (بادل) ۔ ثقال (بھاری) ۔ سقناہ (ہم اس کو ہانک دیتے ہیں) ۔ بلدمیث (مردہ شہر) ۔ کل الثمرات (ہر طرح کے پھل) ۔ نخرج (ہم نکالتے ہیں) ۔ تذکرون (تم دھیان دیتے ہو) ۔ البلد الطیب (پاکیزہ شہر۔ مبارک سر زمین) ۔ نبتہ ( اپنا سبزہ۔ اس کا سبزہ) ۔ خبت (خراب۔ گندہ) ۔ نکد (نامکمل چیز۔ ناقص چیز) ۔ یشکرون (وہ شکر کرتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر (56 تا 58 ) ۔ ” دو آیت پہلے اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا تعلق آسمان اور بلندی سے ہے یعنی دن رات کا بدلنا، سورج، چاند، ستارے۔۔۔۔ اب ان آیات میں ان نعمتوں کا ذکر ہے جن کا تعلق زمین سے ہے اور جن سے انسان کی غذا اور دیگر ضروریات پوری ہوتی ہیں یعنی اناج، پھل، پھول وغیرہ جو کچھ ان آیات میں فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ : یہ تو ان آیات کا ظاہری پہلو ہے جس کے معنی روشن ہیں لیکن ان آیات میں ایک باطنی پہلو کی طرف بھی ارشاد کیا گیا ہے۔۔۔۔ ۔ ان آیات کے بعد پیغمبروں کے واقعات کو نصیحت و عبرت کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔ اور نصیحت کی زمین ہموار کرنے کے لئے یہ مثال دی گئی ہے۔ کسی پیغمبر کا مبعوث ہونا ذہنی اور روحانی باران رحمت ہے۔ اس رحمت کی بارش سے پہلے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں یعنی اچھی اچھی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں۔۔۔۔ ۔ پیغمبر اللہ کا پیغام بلا فرق اور بلا تعصب ہر خاص و عام کو پہنچاتے ہیں۔۔۔۔ جس طرح بارش یہ نہیں دیکھتی کہ یہاں میدان ہے یا صحرا، جنگل ہے یا پہاڑ، کون سی قوم رہتی ہے، کالی یا گوری، وہ سب پر یکساں برستی ہے۔ اسی طرح اللہ کے پیغمبر بھی اللہ کا پیغام ہر شخص تک پہنچاتے ہیں مگر اچھی ہی زمین اچھا اناج اور پھل پھول اگاتی ہے۔ خراب اور بنجرزمین بےاثر رہتی ہے یا زیادہ سے زیادہ ناقص جھاڑیاں، کانٹے دار درخت اور زہریلے پھل پھول نکالتی ہے اس طرح دین کی تبلیغ کا اثر صرف ان ہی لوگوں پر پڑتا ہے جو سمجھنے بوجھنے کی عقل اور موزوں طبعیت رکھتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ بنجر زمین کی طرح ہیں۔۔۔۔ ۔ ان سے کانٹے اور زہر کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ یہ آیات ” لقوم یشکرون “ پر ختم ہوتی ہیں۔۔۔۔ ۔ تبلیغ دین سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ” خلق اور امر “ کے مالک اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر کتنے بڑے بڑے احسانات ہیں جن کا ذکر گذشتہ آیات میں بھی کیا گیا ہے۔ جم کے دل و دماغ میں یہ جذبہ ہے کہ اللہ کے احسانات کو مانا جائے اور وہ ان کی قدر کرتے ہوئے اس کے سامنے جھکتے ہیں یہ ان کی قولی اور عملی شکر گذاری ہے۔۔۔۔ ۔ جب تک یہ جذبہ نہیں ہوگا۔ ایمان کا تخم جڑ نہیں پکڑے گا۔ آگے پیغمبروں کے واقعات آتے ہیں۔۔۔۔ پیش بندی کے طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ قرآن کریم نے ان پیغمبروں کی زندگی کے صرف ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جن کا تعلق جہاد اور تبلیغ دین سے ہے۔ ان کے پرائیویٹ معاملات سے بحث نہیں کی ہے ہمیں کسی پیغمبر کے متعلق یہ نہیں معلوم کہ ان کی شکل و صورت کیسی تھی، بال بچوں سے کیا اور کیسے تعلقات تھے۔ کتنا کماتے تھے اور کتنی عبادتیں کرتے تھے۔۔۔۔ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اصل زندگی اس کا وہ مقصد حیات ہے جس کے لئے وہ اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
Top