Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے کسی بستی میں کسی نبی کو نہیں بھیجا کہ اس کے رہنے والوں کو سختیوں اور تکلیفوں میں مبتلا نہ کیا ہو۔ تاکہ وہ گڑ گڑائیں
لغات القرآن آیت نمبر (94 تا 99) ۔ یضرعون (وہ عاجزی کرتے ہیں) ۔ حتی عفوا (یہاں تک کہ وہ آگے بڑھ گئے) ۔ مس (چھولیا) ۔ بغتتہ (اچانک ) ۔ لفتحنا (البتہ ہم نے کھول دیا) ۔ یکسبون (وہ کمائی کرتے ہیں) ۔ افامن (کیا پھر وہ بےخوف ہوگئے) ۔ نائمون (سونے والے ) ۔ ضحی (دن چڑھے ) ۔ یلعبون (وہ کھیل رہے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر (94 تا 99 ) ۔ ” گذشتہ آیات میں مسلسل پانچ قوموں کے عبرت انگیز واقعات بیان کر کے عرب کے کفار اور مشرکین کو نصیحت کی جارہی ہے کہ ذرا سوچو ! کیا یہی آزمائشیں تمہارے ساتھ پیش نہیں آرہی ہیں ؟ تم کس غفلت میں پڑے ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیریں ٹیکی اس وقت اچانک تمہیں آ کر پکڑ نہیں سکتیں جب کہ تم رات کو نیند میں یا دن کو دنیاوی معاملات اور ہنگاموں میں مد ہوش ہوں ؟ ان پانچ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا بالکل وہی حالات حضور اکرم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت کے زمانے میں اہل عرب کو پیش آ رہے تھے مگر جس طرح گذشتہ اقوام کا حشر ہوا اور انجام ہوا وہ ابھی ان کے ساتھ نہیں ہوا۔ مگر ایسے انجام میں دیر کتنی لگتی ہے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ نے دعوت و ارشاد کا آغاز کیا تو جواب میں اہل قریش نے ظلم و ستم کا سلوک دن بدن تیز کردیا ۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر اس طرح کا قحط نازل فرما جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں نازل ہوا تھا اور مصر میں قحط پڑا تھا یہ دعا اس لئے کی گئی کہ ان کے اندر جو غرور، طاقت اور نشہ دولت ہے وہ ٹوٹ جائے ان کا دل نرم پڑجائے۔ انہیں معلوم تو ہو کہ ان کے اوپر کوئی طاقت ہے جس کے ہاتھ میں ان کے رزق اور قسمت کی باگیں ہیں اور جو انہیں کڑی سے کڑی اور بڑی سے بڑی سزا دے سکتی ہے۔ یہ دعا قبول ہوئی اور سات سال تک کے لئے قحط پڑگیا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ گلی سڑی چیزیں، پتے اور مردار تک کھانے لگے۔ آخر اہل مکہ کا ایک وفد ابو سفیان کی سرکردگی میں مدینہ منورہ آیا اس وفد نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے اہل مکہ کے لئے دعا کریں تاکہ اللہ یہ برا وقت ٹال دے نبی کریم ﷺ نے نہ صرف ان کی درخواست کو قبول کیا بلکہ تنگی اور مقروفاقہ کے باوجود جو کچھ بن پڑا وہ غلہ اور دوسرے ضروری اشیاء اہل مکہ کیلئے بھیجیں۔ سبحان اللہ یہ مکہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیرہ سال تک ناقابل تصور ظلم و ستم کئے اور ظلم و جبر کا کوئی حربہ ایسا نہیں تھا کہ جو انہوں نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کے خلاف استعمال نہ کرلیا ہو۔ لیکن جب یہی دشمن اللہ کے نبی کے پاس فریاد لے کر آئے تو آپ نے ان کو مایوس نہیں کیا بلکہ توقع سے زیادہ امداد فرمائی۔۔۔۔ ۔ جب یہ براوقت ٹل گیا اور از سر نوصحت و فراغت کا دور شروع ہوا تو ان کی گردنیں تکبر اور غرور سے تن گئیں کیونکہ ان کے سرداروں نے عوام کو یہ کہہ کر پھر سے بہکانا شروع کردیا کہ یہ اچھے برے حالات تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ تو فطرت اور وقت کا کھیل ہے ان معاملات میں اسلام اور پیغمبر اسلام کا کیا دخل ہو سکتا ہے ؟ لہٰذا ان کے جال میں پھنسنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بیماری اور شدید فقروفاقہ کا دور گذرنے کے بعد اہل عرب پر صحت اور فراوانی کا وقت آیا ہوا تھا جب سورة اعراف کی یہ آیات نازل ہوئیں جن میں اس غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے کہ تنگی اور فراخی کے دو ادوار ہیں۔ ان کو لانے والی چیز فطرت اور تاریخ نہیں ہے ۔ ان کو لانے والی اللہ کی قدرت اور حکمت ہے اور ان کے لانے کا مقصد تمہاری آزمائش ہے۔ اور یہ بھی نصیحت کی گئی ہے کہ اوپر جو پانچ اقوام کے واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں اللہ کا عذاب اچانک۔ بغیر پیشگی اطلاع کے آیا ہے اور ٹھیک اسی وقت آیا ہے جب دولت، فراغت، نشہ اقتدار، اور نشہ پندار میں قوم بد مست ہوچکی تھی اور اسے بھول کر بھی یہ تصور نہ تھا کہ اللہ کی خفیہ تدبیر گھات میں تاک لگائے بیٹھی ہے ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا کہ تم اتنی سی چیزوں پر مغرور اور بد مست ہوگئے ہو۔ اگر تم ایمان لاتے اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے تو پھر دیکھتے کہ زمین و آسمان سے کیسی کیسی برکتیں نازل ہوتیں۔ اور اللہ کی رحمتیں نازل ہوتیں مگر ان باتوں کا یقین تو ان کو ہوتا ہے جب کو اللہ نے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا ہے جن کی آنکھوں پر پردے پڑچکے ہیں ان کو یہ صداقت نظر نہیں آتی۔
Top