Bayan-ul-Quran - An-Nahl : 65
وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کی موت اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّسْمَعُوْنَ : وہ سنتے ہیں
اور اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے زندہ کردیا زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد یقیناً اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہوں
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ یہ نشانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کا سننا حیوانوں کا سا سننا نہ ہو بلکہ انسانوں کا سا سننا ہو۔ علامہ اقبال نے ”زبور عجم“ میں کیا خوب کہا ہے : دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی ‘ نشنیدی ! در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟ دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! یعنی سانس جو تم لیتے ہو یہ بھی اللہ کا ایک پیغام ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ تم اس پیغام کو سنتے ہو یا نہیں سنتے ہو۔ یہ درست ہے کہ تم خاک سے بنے ہو ‘ مگر تمہارے اسی خاکی وجود کے اندر ایک نور اور جلوۂ ربانی بھی موجود ہے۔ یہ روح ربانی جو تمہارے وجود میں پھونکی گئی ہے یہ جلوہ ربانی ہی تو ہے ‘ جسے تم دیکھتے ہی نہیں ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ تمہارے اندر کیا کیا کچھ موجود ہے : وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ الذاریات ”اور تمہارے اندر کیا کچھ ہے ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ ذرا دوسری طرح کا دیکھنا اور دوسری طرح کا سننا سیکھو ! ایسا دیکھنا سیکھو جو چیزوں کی اصلیت کو دیکھ سکے اور ایسا سننے کی صلاحیت حاصل کرو جس سے تمہیں حقیقت کی پہچان نصیب ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ دیکھنا اور یہ سننا محض حیوانوں کا سا دیکھنا اور سننا ہے۔ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ! اس سورة میں تکرار کے ساتھ اہل فکر و دانش کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر ‘ سن کر اور سمجھ کر سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آیت زیر نظر کے علاوہ ملاحظہ ہوں آیات 11 ‘ 12 ‘ 67 ‘ 69 اور 79
Top