Bayan-ul-Quran - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے اہل ِایمان ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی بڑی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کرلیا کرو } مبادا کہ تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی میں اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔
آئندہ آیات میں آٹھ خصوصی احکام کا ذکر ہے۔ ان میں دو بڑے احکام ہیں اور چھ چھوٹے۔ بڑے اور چھوٹے کی یہ تقسیم میں نے اس بنیاد پر کی ہے کہ ان میں دو احکام ایسے ہیں جن میں سے پہلے حکم کے لیے تین اور دوسرے کے لیے دو آیات مختص کی گئی ہیں ‘ جبکہ بعد کے چھ احکام مجموعی طور پر دو آیات میں بیان ہوئے ہیں ‘ یعنی ان میں سے تین تین احکام کو ایک ایک آیت میں جمع کردیا گیا ہے۔ ان تمام احکام کا تعلق اسلامی معاشرے اور غلبہ دین کے لیے کھڑی ہونے والی تنظیم کو مضبوط اور مربوط رکھنے سے ہے۔ اگر کوئی تنظیم خود مضبوط و مربوط نہیں ہوگی تو ظاہر ہے اس کی جدوجہد بھی کمزور اور غیر موثر رہے گی۔ بہر حال ان آٹھ احکام میں ایسے اصول دے دیے گئے ہیں جو کسی معاشرے اور جماعت کے لیے مفید ہوسکتے ہیں اور ان باتوں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے جن سے کسی معاشرہ یا تنظیم کی وحدت میں رخنے پڑ سکتے ہیں۔ دو بڑے احکام میں سے پہلا حکم یہ ہے : آیت 6 { یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا } ”اے اہل ِایمان ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی بڑی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کرلیا کرو“ اگر خبر دینے والا شخص تمہارے خیال کے مطابق ”متقی“ نہیں ہے تو اس خبر کے مطابق کوئی اقدام کرنے سے پہلے اچھی طرح سے تحقیق کرلیا کرو۔ ہوسکتا ہے اس نے آپ کو غلط اطلاع دی ہو کہ فلاں قبیلہ تم لوگوں پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور آپ تحقیق کیے بغیر اس قبیلے پر خواہ مخواہ چڑھائی کر دو۔ { اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ } ”مبادا کہ تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی میں اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔“ تاریخ ِعالم گواہ ہے کہ افواہوں کی بنیاد پر کیے گئے اکثر اقدامات سے قوموں اور ملکوں کے مابین بڑے بڑے جھگڑوں نے جنم لیا ہے۔ اس لیے افواہوں کی بنیاد پر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر خبر لانے والا شخص صاحب ِتقویٰ اور قابل اعتماد ہو تو دوسری بات ہے۔
Top