Bayan-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 25
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۠   ۧ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کو جھٹلائو گے ؟
آیت 25{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کو جھٹلائو گے ؟“ یہاں ایک دفعہ پھر نوٹ کرلیں کہ سورت کے آغاز سے لے کر اب تک جو آیات ہم نے پڑھی ہیں ان میں پہلے قرآن کی عظمت کا ذکر آیا ہے اور اس کے بعد اللہ کی صناعی اور اس کی قدرتوں کا بیان ہے۔ ابتدائی آیات میں انسان کی قوت بیان کے تذکرے کے ساتھ قرآن کی عظمت کا ذکر کر کے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اس کی اس صلاحیت کا بہترین مصرف یہی ہے کہ وہ قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس کی مزید وضاحت نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان میں ملتی ہے : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ کہ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔ بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں کو بہترین طور پر صرف کرے۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں اسی جذبے کو ترغیب و تحریک دی گئی ہے : اگر یک قطرہ خوں داری ‘ اگر مشت ِپرے داری بیا من با تو آموزم طریق شاہبازی را ! کہ اے ننھی چڑیا ! اگر تیرے پاس چند َپر ہیں اور ایک قطرئہ خون بھی ہے تو میرے پاس آئو ‘ میں تجھے شاہین کی سی اڑان کا طریقہ سکھا دوں ! جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ یہ موضوعات قرآن کی عظمت اور اللہ کی صناعی کابیان ہم سورة الواقعہ میں بھی پڑھیں گے ‘ لیکن وہاں ان کی ترتیب سورة الرحمن کے مضامین کی ترتیب کے بالعکس ہے۔ یعنی قرآن کی عظمت کا بیان جو سورة الرحمن کے آغاز میں ہے سورة الواقعہ میں بالکل آخر پر ہے۔ پھر سورة الرحمن میں اللہ کی خلاقی و صناعی کا ذکر عظمت قرآن کے بعد ہے جبکہ سورة الواقعہ میں یہ موضوع عظمت قرآن کے ذکر سے پہلے بیان ہوا ہے۔ یعنی دونوں سورتوں میں ایک جیسے موضوعات بیان ہوئے ہیں لیکن معکوس ترتیب سے۔ اس ترتیب کو قبل ازیں mirror image کا نام دیا گیا ہے۔
Top