Bayan-ul-Quran - Al-Hadid : 26
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق اَرْسَلْنَا نُوْحًا : بھیجا ہم نے نوح کو وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کو وَجَعَلْنَا : اور بنایا ہم نے۔ رکھا ہم نے فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا : ان دونوں کی اولاد میں النُّبُوَّةَ : نبوت کو وَالْكِتٰبَ : اور کتاب کو فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ : تو بعض ان میں سے ہدایت یافتہ ہیں وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
ہم نے ہی بھیجا تھا نوح ؑ کو بھی اور ابراہیم ؑ کو بھی اور ہم نے انہی دونوں کی نسل میں رکھ دی نبوت اور کتاب } تو ان (کی نسل) میں کچھ تو ہدایت یافتہ بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسقوں پر مشتمل ہے
اس سورة مبارکہ کا اصل مضمون تدریجاً آگے بڑھتا ہوا آیت 25 پر اپنے نقطہ عروج climax پر پہنچ گیا ہے۔ اب آئندہ آیات میں گویا اس مضمون کا ضمیمہ اور تکملہ آ رہا ہے قبل ازیں کبھی میں بغرض تفہیم اس کے لیے anti climax کی اصطلاح استعمال کرتا رہا ہوں ‘ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصطلاح مناسب نہیں ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ متعلقہ آیات کے مطالعے سے پہلے اس مضمون کی روح کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے۔ ظاہر ہے زمین پر اللہ کے قانون کی حکمرانی اور معاشرے میں عدل و انصاف کی ترویج شیطان پر بہت بھاری ہے۔ اس لیے اس نے اس ”انقلاب“ کا راستہ روکنے کے لیے یہ چال چلی کہ مخلص اہل ایمان کی توجہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مبذول کرا دی ‘ تاکہ اسے انسانوں کے معاشرے میں ننگا ناچ ناچنے کی کھلی چھٹی مل جائے۔ اہل ایمان کے دلوں میں اللہ کی محبت ‘ دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طلب کے جذبے کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ وہ اللہ کی فوج کے سپاہی بن کر اقامت دین کی جدوجہد کے علمبردار بن جائیں اور نتائج سے بےپرواہوکر ہر زماں ‘ ہر مکاں شیطانی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہیں ‘ لیکن شیطان نے ایسے لوگوں کو رہبانیت کا سبق پڑھادیا کہ اللہ والوں کا دنیا کے جھمیلوں سے کیا واسطہ ؟ انہیں تو چاہیے کہ وہ دنیا اور علائق دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کریں اور اللہ کے ہاں اپنے درجات بلند کریں۔ ظاہر ہے ایسی رہبانیت دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ غلبہ دین کی جدوجہد کی راہ میں مصیبتیں جھیلنے ‘ اس میدان میں شیطانی قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے مال و جان کی قربانیاں دینے اور خانقاہوں میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت کی سختیاں برداشت کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کی سختیاں برداشت کرنے سے معاشرے سے ظلم وناانصافی کا خاتمہ ہوتا ہے ‘ انسانیت عدل و انصاف کے ثمرات سے بہرہ ور ہوتی ہے اور ماحول میں فلاح و خوشحالی کے پھول کھلتے ہیں ‘ جبکہ رہبانیت کی راہ میں اٹھائی گئی تکالیف سے دنیا اور اہل دنیا کو کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ بہرحال شیطان کا یہ وار عیسائیت کے حوالے سے بہت کارگر ثابت ہوا۔ اس کے نتیجے میں عیسائیوں کے ہاں نہ صرف خانقاہی نظام کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ”رہبانیت“ اعلیٰ ترین ذریعہ اور وسیلہ قرار پائی۔ History of Christian Monasticism پر لکھی گئی یورپین مصنفین کی بڑی بڑی ضخیم کتابیں عیسائی راہبوں اور رہبانیت کے بارے میں عجیب و غریب تفصیلات سے بھری پڑی ہیں۔ اس کے بعد اسلام میں جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی اور احیائِ خلافت کی چند کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو مسلمانوں کے ہاں بھی رہبانیت کے طور طریقے رائج ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی عملی صورت یہ سامنے آئی کہ مخلص اہل ایمان اور اہل علم لوگ بادشاہوں اور سلاطین کے رویے کی وجہ سے امت کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق ہو کر گوشہ تنہائی میں جا بیٹھے۔ البتہ ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں نے ان سے اکتسابِ فیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح رفتہ رفتہ اہل اللہ اور اہل علم کی مسندوں نے خانقاہوں کی شکل اختیار کرلی۔ سلاطین وامراء نے اپنے مفاد کے لیے ان خانقاہوں کی سرپرستی کرنی شروع کردی۔ ایسی خانقاہوں کے لیے بڑی بڑی جاگیریں مختص کردی گئیں تاکہ خانقاہ اور اس سے متعلقہ تمام لوگوں کے اخراجات احسن طریقے سے پورے ہوتے رہیں اور یہ لوگ حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کے بجائے اطمینان کے ساتھ چلہ کشیوں اور اپنی روحانی منازل طے کرنے میں مصروف و مشغول رہیں۔ دوسری طرف ان خانقاہوں سے متعلقہ لوگوں کے ہاں بھی رفتہ رفتہ دین و دنیا کا یہ تصور جڑ پکڑتا گیا کہ حکومت کرنا اور اجتماعی معاملات نپٹانا سلاطین و امراء کا کام ہے ‘ ہمیں ان معاملات سے کیا سروکار ؟ ہمارا کام تو دینی تعلیمات کی اشاعت اور لوگوں کی روحانی اصلاح کرنا ہے ‘ تاکہ وہ اچھے مسلمان اور اللہ کے مقرب بندے بن سکیں۔ یوں دین اسلام کا اصل تصور دھندلاتا گیا اور اس کی جگہ خانقاہی نظام کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ دین کا درست تصور اور انبیاء و رسل کی بعثت کا اصل مقصد تو وہی ہے جو ہم گزشتہ آیت میں پڑھ چکے ہیں : { لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ } ”تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوجائیں۔“ چناچہ آئندہ آیات میں ایک تو یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ انسانیت نے ”رہبانیت“ کا غلط موڑ کب اور کیسے مڑا ‘ اور ساتھ ہی مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو ! بیشک دنیا سے بےرغبتی اختیار کرنا اور دنیا کے مقابلے میں آخرت بنانے کی فکر اختیار کرنا ہی دین کا اصل جوہر ہے ‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم راہب بن کر تمدن کی زندگی کو خیرباد کہہ دو ‘ بن باس لے لو ‘ اور جنگلوں میں جا کر چلے کاٹنا شروع کر دو ‘ پہاڑوں کی چوٹیوں اور غاروں میں جا کر تپسیائیں کرو ‘ یا خانقاہوں میں گوشہ نشین ہو جائو۔ تمہیں تو دنیا کی منجدھار میں رہتے ہوئے دوسروں کو زندگی کی ضمانت فراہم کرنی ہے۔ تمہیں تو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے دنیا میں حق کا بول بالا کرنا ہے۔ ظلم و ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑ کر معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا ہے ‘ اور اپنے ارد گرد ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں مظلوم کو اس کا حق ملے اور ظالم کو سر چھپانے کی جگہ نہ مل سکے۔ اس کے لیے تمہارے سامنے اُسوئہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام کا قائم کردہ معیار بطور نمونہ موجود ہے۔ حضور ﷺ نے عرب کے معاشرے کو حق و انصاف کا جو معیارعطا کیا تھا اس کی جھلک حضرت ابوبکر صدیق رض کی اس تقریر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جو آپ رض نے لوگوں سے بیعت خلافت لینے کے فوراً بعد کی تھی۔ آپ رض نے بحیثیت امیر المومنین اپنے پہلے خطاب میں عدل و انصاف کے بارے میں اپنی ترجیح واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا : ”لوگو ! تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک بہت قوی ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلوا دوں اور تمہارا قوی شخص میرے نزدیک بہت کمزور ہوگا جب تک کہ میں اس سے کسی کا حق وصول نہ کرلوں“۔ اسی طرح اس ضمن میں حضرت ربعی بن عامر رض کے وہ الفاظ بھی بہت اہم ہیں جو آپ رض نے ایرانی افواج کے سپہ سالار رستم کو مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے۔ قادسیہ کے محاذ پر اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رض نے جنگ سے پہلے ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے حضرت ربعی بن عامر رض کو بھیجا تھا۔ رستم نے ان سے سوال کیا تھا کہ تم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہو ؟ اس پر انہوں نے اپنے مشن کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی : اِنَّ اللّٰہ ابتعثنا لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ ربِّ العباد ‘ ومن ضیق الدُّنیا الی سِعَۃ الآخرۃ ومن جور الادیان الی عدل الاسلام ”ہمیں اللہ نے بھیجا ہے تاکہ ہم بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں لے آئیں ‘ اور انہیں دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت کی کشادگی سے ہم کنار کریں ‘ اور باطل نظاموں سے نجات دلا کر اسلام کے عادلانہ نظام سے روشناس کرائیں۔“ یہ ہے اس مضمون کا لب لباب جو اس سورت کے آخر میں مرکزی مضمون کے ضمیمے کے طور پر بیان ہوا ہے۔ اب اگلی آیت سے اس مضمون کی تمہید شروع ہو رہی ہے۔ آیت 26{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ } ”ہم نے ہی بھیجا تھا نوح علیہ السلام کو بھی اور ابراہیم علیہ السلام کو بھی“ { وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ } ”اور ہم نے انہی دونوں کی نسل میں رکھ دی نبوت اور کتاب“ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب کے بعد انسانیت کی نسل حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حضرت سام ‘ حضرت حام اور حضرت یافث سے چلی تھی۔ چناچہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو انبیاء بھی آئے وہ آپ علیہ السلام ہی کی نسل سے تھے۔ البتہ قرآن میں صرف سامی رسولوں کا تذکرہ ہے ‘ آپ علیہ السلام کے دوسرے دو بیٹوں کی نسلوں میں مبعوث ہونے والے پیغمبروں کا ذکر قرآن میں نہیں آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود بھی حضرت نوح علیہ السلام ہی کی نسل سے تھے ‘ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں جو انبیاء و رسل - آئے ان کا ذکر قرآن میں تخصیص کے ساتھ آپ علیہ السلام کی نسل یا ذریت کے حوالے سے ہوا ہے۔ آج حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گزرے تقریباً پانچ ہزار برس ہوچکے ہیں۔ اس دوران آپ علیہ السلام کی اولاد کہاں کہاں پہنچی اور کس کس علاقے میں آباد ہوئی ‘ یہ اپنی جگہ تحقیق کا ایک مستقل موضوع ہے ‘ لیکن اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی نسل جس جس علاقے میں بھی آباد ہوئی ان تمام علاقوں میں انبیاء آتے رہے۔ { فَمِنْھُمْ مُّھْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ } ”تو ان کی نسل میں کچھ تو ہدایت یافتہ بھی ہیں ‘ لیکن ان کی اکثریت فاسقوں پر مشتمل ہے۔“
Top