Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 26
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق اَرْسَلْنَا نُوْحًا : بھیجا ہم نے نوح کو وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کو وَجَعَلْنَا : اور بنایا ہم نے۔ رکھا ہم نے فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا : ان دونوں کی اولاد میں النُّبُوَّةَ : نبوت کو وَالْكِتٰبَ : اور کتاب کو فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ : تو بعض ان میں سے ہدایت یافتہ ہیں وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجا نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو (رسول بنا کر) اور ہم نے مقرر کی ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب۔ پھر ان میں بعض ہدایت پانے والے ہیں اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں
ربط آیات : پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بینات کے ساتھ انبیاء کی بعثت ، نزول کتاب اور میزان کے قیام کا ذکر کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہ سکیں اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کریں۔ پھر اللہ نے لوہے کی تخلیق اور اس کے فوائد کا ذکر کیا ، اور فرمایا کہ اس کا بڑا مقصد اللہ کے دین اور اس کے رسولوں کی مدد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس چیز کو ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کون اس لوہے کا صحیح استعمال کرکے اس سے استفادہ کرتا ہے اور کون اس سے مستفید نہیں ہوتا۔ نیز فرمایا کہ خدا تعالیٰ بڑی قوت کا مالک ہے ، اس کو تو کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر اس نے یہ چیزیں لوگوں کی آزمائش کے لئے قائم کی ہیں تاکہ لوگ ان سے ہدایت اور راہنمائی حاصل کریں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ : اب اسی ہدایت اور راہنمائی ہی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو جلیل القدر انبیاء حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ولقد ارسلنا نوحا وابرھیم اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجا حضرت نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو رسول بنا کر ۔ نوح (علیہ السلام) کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے اور ایک مکمل سورة آپ کے نام پر سورة نوح بھی موجود ہے۔ اس سورة میں مکمل طور پر آپ ہی کا ذکر ہے۔ اللہ نے آپ کے طریقہ تبلیغ ، لوگوں کے لئے ناصحانہ کاوش ، قوم کی نافرمانی اور ایذاء رسانی اور آخر میں قوم کے حق میں آپ کی بددعا کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد سب سے پہلے عظیم المرتبت رسول حضرت نوح (علیہ السلام) ہی ہیں جن کو اللہ نے مستقل شریعت اور احکام دیے اور پھر نافرمانی کی وجہ سے آپ ہی کی قوم کو سب سے پہلے ہلاک کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دونوں ابو الانبیاء کہلاتے ہیں کیونکہ آپ کے بعد تمام انبیائے کرام آپ کی ہی نسل سے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اللہ کے عظیم المرتبت رسول ہیں جن کو شریعت اور احکام عطا ہوئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی اللہ نے بہت سی سورتوں میں کیا ہے ، اور آپ کے نام پر بھی ایک مستقل سورة قرآن میں موجود ہے۔ انہوں نے فریضہ تبلیغ ادا کرنے میں بڑی تکالیف اٹھائیں حتیٰ کہ آپ کو عراق سے مصر اور پھر فلسطین کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ پھر آپ نے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کی تجدید فرمائی اور اپنی ایک بیوی ہاجرہ ؓ اور ایک بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو وہاں آباد کیا۔ اس کے علاوہ اللہ نے کئی امور میں آپ کو آزمائش کی اور آپ پر آزمائش میں پورا اترے آپ کے دینی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ اولاد نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کی فضیلت : ان دونوں جلیل القدر رسولوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وجعلنا فی ذریتھما البنوۃ والکتب ، اور ہم نے ان دونوں بزرگوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کر رکھ دیا۔ طوفان نوح کے بعد آپ کے بیٹوں حام ، صام اور یافث کی اولاد ہی مشرق ومغرب میں پھیلی اور سلسلہ نبوت بھی آپ کی اولاد میں ہی رہا۔ پھر جب ابراہیم (علیہ السلام) کا دور شروع ہوا تو نبوت اور کتاب کی امامت آپ کی اولاد میں منتقل ہوگئی۔ آپ حنیفی دور کے ابوالانبیاء ہیں۔ چناچہ آپ کے بعد جتنے رسول اور نبی آئے سب آپ کی اولاد حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں ہوئے ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں تو اللہ نے بیشمار انبیاء کو مبعوث فرمایا جنہیں انبیائے بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ، البتہ اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں اللہ نے سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ کی کو مبعوث فرمایا آسمانی کتابوں میں سے زبور ، تورات اور انجیل انبیائے بنی اسرائیل میں نازل ہوئیں جب کہ اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن حکیم اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد صلی علیہ وسلم پر نازل فرمائی بعض خاندان اور نسلوں کو اللہ نے خصوصیت عطا فرمائی ہے۔ چناچہ حضور ﷺ کا خاندان قریش عرب میں معزز ترین خاندان سمجھا جاتا تھا۔ قریش کو یہ عزت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ اللہ نے جو شرف حضور ﷺ کے خاندان کو بخشا ہے ، وہ کسی سلسلہ نسب میں نہیں پایا جاتا ، مثلاً خود آپ (علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ ہمارے سلسلہ خاندان میں جرام کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جس کے متعلق کوئی دوسرا خاندان وثوق کے ساتھ دعویٰ نہیں کرسکتا۔ دونوں عظیم الشان رسولوں میں سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے تو طویل عمر پائی ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کے مطابق انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی جس میں انہوں نے بڑی تکالیف برداشت کیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر اگرچہ بہت زیادہ نہیں تاہم انہوں نے بھی 175 برس کی عمر محنت ، کوشش اور آزمائشوں میں ہی گزاری۔ ہدیات یافتہ اور نافرمان لوگ : دونوں انبیاء اور ان کی اولاد کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا فمنھم مھت ان میں سے بعض لوگ ہدایت یافتہ ہیں وکثیر منھم فسقون تاہم ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے۔ دونوں انبیاء کی اولاد میں نافرمان لوگ زیادہ ہوئے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے بنی اسرائیل کے تذکرے میں فرمایا وان……………فسقون (المائدہ 59) تمہاری اکثریت نافرمانوں پر مشتمل ہے ، شرک ، کفر اور معصیت کو اختیار کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ خصوصاً حضور ﷺ کے زمانہ میں تو ساری دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والا ہزاروں میں اکادکا ہی ہوگا۔ آج بھی دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سے مسلمانوں کی تعداد ایک ارب کے قریب ہے۔ باقی چار ارب کفر وشرک میں مبتلا ہیں۔ اور جہنم کے کندناتراش بنے ہوئے ہیں۔ خود کلمہ گو مسلمانوں کی حالت بھی بڑی پتلی ہے ان کی اکثریت بھی گمراہی اور بدعقیدگی میں مبتلا ہے اور حق پرست بہت کم ہیں۔ مابعد رسول : اللہ نے نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکرکے بعد فرمایا ثم قفینا علی اثارھم برسلنا ، پھر ہم نے ان کے نقش قدم پر دوسرے رسولوں کو بھیجا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) ، یوسف (علیہ السلام) ، حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت شعیب (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے علاوہ بیشمار انبیاء اور رسول ایسے ہیں جن کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں نہیں ملتا۔ اللہ نے تمام انبیاء کا اجمالی طور پر اس طرح ذکر کیا ہے ولکل امۃ رسول (یونس 47) اللہ نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے ہیں۔ نیز فرمایا رسلا……………………الرسل (النساء 165) یہ سارے رسول خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے تاکہ لوگوں کو اللہ کے ذمے کوئی حجت باقی نہ رہے اور وہ یہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا ۔ پھر فرمایا وقفینا بعیسی ابن مریم پھر ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے عیسیٰ بن مریم ؓ کو نبی بنا کر ان کے پیچھے بھیجا۔ آپ اپنی پیدائش اور معجزات کے اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی پیدائش حیرت انگیز طریقے سے باپ کے بغیر ہوئی ، اور اللہ نے آپ کو نبوت و رسالت کے جلیل القدر منصب پر فائز فرمایا۔ پھر آپ کو واتینہ الانجیل انجیل کتاب بھی دی گئی۔ انجیل کا معنی ہی خوشخبری ہے۔ چناچہ آپ کے فرائض منصبی میں ایک فریضہ اللہ کے آخری نبی کی آمد کی بشارت دینا بھی تھا۔ آپ نے اپنی قوم سے واضح طور پر فرمایا کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں ومبشرا……………احمد (الصف 6) اور میں اپنے بعد ایک عظیم الشان رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام نامی اور اسم گرامی احمد ہوگا۔ سر یانی زبان میں احمد کا متبادل لفظ فار قلیط ہے جس کا معنی سردار جہاں ہے جب کہ احمد کا معنی تعریفوں والا ہے۔ چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اس فرض کی ہر جگہ تبلیغ کی اور لوگوں سے آخری نبی کا تعارف کرایا اور خوشخبری دی۔ متبعین عیسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت : آگے اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کے صحیح پیروکاروں کی خصوصیت بیان فرمائی ہے۔ وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ہم نے آپ کے پیروکاروں کے دلوں میں نرمی اور مہربانی رکھ دی۔ وہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے ، اور آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کا برتائو کرتے تھے۔ یہ خصلت اللہ نے نبی آخر الزمان کے صحابہ ؓ میں بھی ودیعت کردی تھی جن کے متعلق سورة الفتح میں فرمایا رحمآء بینھم (آیت 29) کہ وہ آپس میں بڑے رحمدل مگر کفار کے مقابلے میں بڑے سخت تھے۔ رہبانیت کی مذمت : اللہ نے فرمایا کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں میں نرمی اور مہربانی مقرر فرمائی تھی۔ مگر ورھبانیۃ ا ابتد عوھا مگر رہبانیت یعنی ترک دنیا انہوں نے خود نکالی ما کتبنھا علیھم جو ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔ تاہم رہبانیت سے ان کا مقصد الا ابتغاء رضوان اللہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تلا ش کرنا تھا۔ مگر فما رعوھا حق رعایتھا وہ لوگ اپنے اس مقصد کی وہ رعایت نہ کرسکے جیسا کہ اس کی رعایت کا حق تھا وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نرمی اور مہربانی کو نباہ نہ سکے۔ رہبانیت رہب کے مادہ سے ہے جس کا معنی ترک دینا ، ترک لذات اور ترک نکاح ہے۔ چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعض پیروکاروں نے دنیا کا کاروبار چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں جاکر عزلت کی زندگی اختیار کرلی۔ اور وہیں کٹیا بنا کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہوگئے۔ اگرچہ راہب کا معنی خدا تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے ، مگر وہ لوگ خوف خدا کی بجائے طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئے جو ان کی گمراہی کا ذریعہ بن گئیں۔ اسی لئے حضور ﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کو رہبانیت سے منع فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد مبارک ہے رھبانیۃ فی الاسلام ولا صیرودۃ فی الاسلام اسلم میں ن ترک دنیا کی گنجائش ہے اور نہ ہی قطع تعلقی کی۔ اسلام تو دنیا میں رہ کر صلہ رحمی کی تلقین کرتا ہے۔ رہبانیت اور جہاد : حضور ﷺ کا ارشاد بھی ہے لکل نبی رھبانیۃ و رھبانیۃ ھذہ الامۃ الجھاد فی سبیل اللہ ہر نبی اس کی امت کے لئے رہبانیت ہوتی ہے اور اس امت کی رہبانیت جہاد ہے۔ مسند احمد کی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ گھر بار ، بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں علیحدگی کی زندگی گزارنا رہبانیت نہیں بلکہ ہماری اس امت کی اصل رہبانیت یہ ہے کہ گھر بار اور دیگر لوازمات کاروبار وغیرہ کو چھوڑ کر جہاد میں شامل ہوجائیں جس کا مقصد اقامت دین ہو۔ یعنی دنیا سے کفر ، شرک اور شروفساد کو ختم کیا جائے اور اللہ کا کلمہ بلند کیا جائے غرضیکہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی رہبانیت جہاد ہے۔ مسنداحمد ہی کی روایت کے مطابق حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی ہے جو میں نے اس سے پہلے حضور ﷺ سے دریافت کی تھی۔ اور آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا اوصیک بتقوی اللہ وعلیک بالجھاد فانہ رھبانیۃ الاسلام میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ ہر شے کی بنیاد ہے۔ نیز جہاد کو لازم پکڑو کیونکہ اسلام کی رہبانیت یہی ہے۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ کے ذکر کو لازم پکڑو ، اور اللہ کی کتاب کی تلاوت پر مداومت اختیار کرو کیونکہ یہ تمہارے لئے آسمانوں سے پاکیزہ رزق اور بلند روحانیت کا ذریعہ ہے۔ جب تم یہ دو کام کرو گے تو زمین میں تمہارا تذکرہ ہوگا۔ بہرحال اس حدیث مبارکہ میں بھی رہبانیت جہاد کو قرار دیا گیا ہے۔ رہبانیت کی تین قسمیں : مفسرین اور محدثین کرام فرماتے ہیں کہ رہبانیت کی تین صورتیں ہیں۔ پہلی صورت رہبانیت کی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی حلال یا مباح چیز کو حرام سمجھتا ہے یا اس کو عملاً چھوڑ دیتا ہے تو یہ دین میں تحریف شمار ہوگی۔ جو قطعاً حرام ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے لا تحرموا……………لکم (المائدہ 87) جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال قرار دی ہیں ان کو حرام نہ ٹھہرائو۔ رہبانیت کی دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی حلال یا مباح چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام تو نہیں سمجھتا۔ مگر کسی دینی یا دنیوی مصلحت کی بناء پر اس کو ترک کردیتا ہے مثلاً گائے کا گوشت حلال ہے مگر سوداوی مرض کے مریض کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اسے استعمال نہ کرے بعض لوگوں کو طبی لحاظ سے دودھ موافق نہیں آتا اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اسے استعمال نہ کریں یہ تو دنیوی یا طبی مصلحت سمجھ لیں اور دینی مصلحت یہ ہے کہ کوئی شخص غیبت ، جھوٹ ، فریب وغیرہ سے بچنے کے لئے بعض لوگوں سے میل جول چھوڑ دیتا ہے۔ ان دونوں مصلحتوں کی وجہ سے کسی جائز چیز کو ترک کرنا رہبانیت شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ تقویٰ ہے جو شریعت میں مطلوب ہے۔ فرماتے ہیں کہ رہبانیت کی تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی جائز اور مباح چیز کو حرام تو نہیں سمجھتا لیکن اس کے ترک کو ثواب سمجھتا ہے ، اس کو بدعت کہا جاتا ہے جس کی شریعت مطہرہ نے مذمت کی ہے اور جس سے منع کیا گیا ہے یہ صورت خالص رہبانیت ہے اور مذموم ہے۔ بدعت کی تعریف : بدعت ایک بڑی مذموم چیز ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد جس شخص نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے تو وہ مردود ہے تمام بدعات کو لوگ ثواب سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں لہٰذا یہ بڑی خطرناک چیز ہے مجدد صاحب (رح) اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں ” تضرر مبتدع زیادہ است از تضرر کافر “ یعنی بدعتی کا نقصان دین کے معاملے میں کافر سے زیادہ ہوتا ہے۔ کافر کو تو ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ کافر ہے لہٰذا اس سے بچنے کی تدبیر کرتا ہے مگر بدعتی آدمی ہر بدعت کو نیکی اور افضل کام سمجھ کر کرتا ہے لہٰذا اس کی بدعت سے بچ نکلنا بڑا ہی مشکل ہے۔ اس زمانے میں عبادات میں بھی چیزوں کا اضافہ کرلیا گیا ہے اور اس کو برا سمجھنے کی بجائے اعلیٰ درجے کی نیکی تصور کیا جاتا ہے۔ مثلاً اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام کو بڑی اعلیٰ عبادت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس موقع پر درود شریف پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے بعض لوگ اقامت کے آخر میں لا الہ الا اللہ سن کر محمد رسول اللہ کہہ دیتے ہیں۔ یہ کلمات اگرچہ بابرکت ہیں مگر ان کی ادائیگی کا یہ موقع اور محل نہیں ہے لہٰذا ایسا کرنا بدعت میں شمار ہوگا۔ ایک موقع پر ایک شخص نے حضور ﷺ کے سامنے چھینک ماری اور کہا السلام علیکم۔ حضور ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا وعلیک وعلی امک یعنی تجھ پر اور تیری ماں پر سلام ہو۔ اس شخص نے ناراضگی کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ سلام تو ہم بھی کہتے ہیں مگر چھینک مارنے کے وقت نہیں ایسے موقع پر الحمد للہ کہنا۔ صحیح اور سلام کہنا بدعت ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اذان ختم کرنے کے بعد مجھ پر درود پڑھو اور مسنون دعا مانگو۔ یہاں بالجہر دعا یا دورود کا کوئی ثبوت نہیں۔ مگر آج لوگ اذان سے قبل سپیکر پر زور زور سے صلوٰۃ وسلام پڑھنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ حضور ﷺ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ، با تبع تابعین (رح) یا بعد کے ادوار میں اس چیز کا کہیں ثبوت نہیں ملتا بلکہ یہ تو بالکل ماضی قریب میں ایجاد ہوا ہے۔ غرضیکہ صلوٰۃ وسلام کا محل اذان سے پہلے ہرگز نہیں ہے اور اگر اذان کے بعد درود کا حکم ہے تو آیت آہستہ آواز سے۔ ہر شئے کا موقع اور محل ہوتا ہے ، اب اگر کوئی شخص غسل خانے میں کپڑے اتار کر درود شریف پڑھنے لگے تو گنہگار ہوگا۔ کہ یہ درود شریف کا محل نہیں ہے۔ بعض لوگ دھوکہ دیتے ہیں کہ ہر نبی چیز کی بدعت نہیں کہا جاسکتا۔ اگر ایسا کرو گے تو موجودہ زمانے کی تمام ایجادات بدعات میں شمار ہوں گے جیسے لائوڈ سپیکر ، موٹریں ، ریل گاڑیاں ، ہوائی جہاز اور دیگر ضروریات زندگی جو اسلام کے ابتدائی دور میں نہیں تھیں۔ حقیقت میں بدعت وہ کام ہے جس کا ثبوت کتاب وسنت ، عمل صحابہ ؓ اور ائمہ مجتہدین کے اقوال میں موجود نہ ہو اور لوگ اس کو نیک کام اور باعث ثواب سمجھ کر انجام دیں۔ یہ ایجادات تو ضروریات زندگی ہیں جن کا کارثواب کے طور پر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ زندگی کی آسائش کا ذریعہ ہیں۔ پہلے بیلوں کے ذریعے کھیتی باڑی ہوتی تھی ، اب لوگ ٹریکٹر استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے اونٹ اور گھوڑے پر سواری ہوتی تھی اب موٹریں ، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز ہیں۔ پہلے تلوار اور تیر کے ساتھ جنگ ہوتی تھی اب بندوق ، توپ ، گولہ بارود اور ٹینک ایجاد ہوچکے ہیں۔ یہ چیزیں بدعت کی تعریف میں نہیں آتیں۔ بدعت وہ ہے جو نیکی کا کام کار ثواب کے طور پر کیا جائے مگر قرون اولیٰ میں وہ پایہ ثبوت کو نہ پہنچتا ہو۔ بزرگوں کی قبور کے ساتھ سلوک : قبروں کی حفاظت ضروری ہے ۔ قبرستان میں بول وبراز نہیں ہونا چاہیے۔ قبروں پر بیٹھنے کی ممانعت ہے۔ قبروں کو پختہ بنانے کے لئے اینٹ اور سیمنٹ وغیرہ استعمال کرنا اور ان پر عمارت بنانا جائز نہیں ہے۔ لوگ اس کو اہل قبور کی تعظیم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اسراف اور ناجائز ہے۔ بزرگوں کی تعظیم کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کی اشاعت کی جائے اور ان پر عمل کیا جائے نہ کہ پختہ قبریں بنا کر ان کو چوما چاٹا جائے یا ان پر سجدے کیے جائیں۔ حضرت میاں میر (رح) زندگی بھر توحید کا درس دیتے رہے ، ان کی تعلیمات کو یکسر بھول کر محض قبر پر گنبد بنا دینا کون سی نیکی کا کام ہے۔ سید علی ہجویری (رح) نے آج سے ایک ہزار سال قبل یہاں آکر لوگوں کو ایمان سے روشناس کرایا ، ان کی کتاب کشف المجوب موجود ہے جس سے تصوف ، سلوک اور خدا پرستی کا بہترین سبق ملتا ہے اس کو نصب العین بنایا جائے۔ اس کی بجائے شرک ، بدعت اور قوالی ہی ان کی تعظیم کا ذریعہ رہ گیا ہے یا قبر کو چومنے چاٹنے ، غسل دینے اور غلاف چڑھانے اور سجدہ کرنے سے بزرگوں کی تعظیم ہوتی ہے۔ یہودیوں نے بھی حرام چیزوں کو نبیوں کی طرف منسوب کرکے ان پر عمل شروع کردیا تھا اور مسلمان بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان بزرگوں نے قبر پر گنبد بنانے کا حکم دیا تھا یا عرس منانے کی تلقین کی تھی یہ سب چیزیں بدعات میں داخل ہیں۔ کوئی نیک آدمی فوت ہوجائے تو سنت کے مطابق غسل دو ، کفن پہنائو ، جنازہ پڑھو ، سنت کے مطابق قبر بنائو اور اس کے لئے دعا کرو ، ایصال ثواب کرو ، کون روکتا ہے۔ مگر قل ، تیسرا ، ساتواں اور چالیسواں کرنا کس حدیث میں لکھا ہے۔ یا کس صحابی ؓ کے عمل سے ثابت ہے ؟ یہ تو برصغیر کی ایجاد بندہ چیزیں ہیں جنہیں کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے اور یہی بدعت ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) کا نظریہ : شاہ عبدالقادر (رح) نے ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر رہبانیت کے بارے میں نوٹ لکھا ہے جس میں لکھتے ہیں کہ فقیر اور ترک دنیا کی رسم نصاریٰ نے نکالی جو نہ جورو رکھتے تھے نہ بیٹا ، نہ کماتے نہ جوڑتے بلکہ جنگل میں تکیہ بنا کر بیٹھ جاتے ، عبادت میں لگے رہتے اور خلق سے نہ ملتے۔ یہ حکم اللہ نے اپنے بندوں کو ہرگز نہیں دیا ، مگر جب اپنے اوپر ترک دنیا کا نام ، رکھ لیا تو اس پردے میں میں دینا چاہنا بڑا ویالی ہے۔ اسی لئے شریعت نے فطری اعتدال سے متجاوز رہبانیت کی اجازت نہیں دی۔ اس امت کی رہبانیت جہاد میں ہے۔ اپنے نفس کی لذات سے الگ ہو کر اللہ کے راستے میں نکلنا مجاہدہ ہے۔ فاتینا الذین امنوا منھم اجرھم وکثیر منھم فسقون ، پس دیا ہم نے ان کو جو ایمان لائے ان میں سے ان کا بدلہ اور بہت سے لوگ ان سے نافرمان ہیں۔
Top