Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 259
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
یا (تم کو اس طرح کا قصہ بھی معلوم ہے) جیسے ایک شخص تھا (ف 1) کہ ایک بستی پر ایسی حالت میں اس کا گزر ہؤ ا کہ اسکے مکانات اپنی چھتوں پر گر گئے تھے (ف 2) کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی (کے مردوں) کو اس کے مرے پیچھے کس کیفیت سے زندہ کریں گے (ف 3) سو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو سو برس تک مردہ رکھا پھر اس کو زندہ کر اٹھایا ( اور پھر) پوچھا کہ تو کتنے (دنوں) اس حالت میں رہا۔ اس شخص نے جواب دیا کہ ایک دن رہا ہونگایا ایک دن سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تو (اس حالت) میں سو برس رہا ہے تو اپنے کھانے (کی چیز) اور پینے کی (چیز کو) دیکھ لے کہ نہیں سڑی گلی اور (دوسرے) اپنے گدھے کی طرف نظر کر اور تاکہ ہم تجھ کو ایک نظیر لوگوں کے لیے بنادیں اور (اس گدھے کی) ہڈیوں کی طرف نظر کر کہ ہم ان کو کس طرح ترکیب دئیے دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں پھر جب یہ سب کیفیت اس شخص کو واضح ہوگئی تو کہہ اٹھا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں۔ (ف 4) (259)
1۔ روح المعانی میں بروایت حاکم حضرت علی سے اور براویت اسحاق بن بشیر حضرت ابن عباس وعبداللہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بزرگ عزیر (علیہ السلام) ہیں۔ 2۔ یعنی پہلے چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں گریں مراد یہ کہ کسی حادثے سے وہ بستی بالکل ویران ہوگئی تھی اور سب آدمی مر گئے تھے۔ 3۔ یہ تو یقین تھا کہ اللہ قیامت کے دن مردوں کو جلادیں گے مگر اس وقت کے جانے جو خیال غالب ہوا تو بوجہ امر عجیب ہونے کے ایک حیرت سی دل پر غالب ہوگئی اور چونکہ اللہ ایک کام کو کئی طرح کرسکتے ہیں اس لیے طبیعت اس کی جویاں ہوئی کہ خدا جانے جلانا کسی صورت سے ہوگا اللہ کو منظور ہوا کہ اس کا تماشا ان کو دنیا ہی میں دکھلادیں تاکہ ایک نظیر کے واقع ہوجانے لوگوں کو زیادہ ہدایت ہو۔ 4۔ ان کی حیرت کا جواب اس مجموعی کیفیت سے دینا اس کی وجہ احقر کے ذوق میں یہ ہے کہ محل حیرت یعنی احیاء ویوم البعث مشتمل ہے چندا اجزاء پر اول خود زندہ کرنا دوسرے مدت طویل کے بعد زندہ کرنا تیسرے خاص کیفیت سے زندہ کرنا چوتھے اس مدت تک روح کا باقی رکھنا پانچویں بعد بعث کے برزخ میں رہنے کی مدت معلوم نہ ہونا جز اول پر خود ان کے زندہ کرنے اور ان کے گدھے میں جان ڈالنے کی دلالت کی گئی اور دوسرے جزو کے اثبات کے لیے ان کو سو برس تک مردہ رکھا تیسراجزو خود گدھا ان کے سامنے زندہ کرکے دکھلا دیا جو بالاولی امکان بقاء روح پر دال ہے کیونکہ بدن طعام و شراب بوجہ اشتمال عناصر کے بہ نسبت روح کے تغیر و فساد کے زیادہ قابل ہیں اور پانچویں امر کی نظیر ان کے جواب میں یوما اور بعض یوما کہنا ہے جیسا بعینہ یہی جواب بعض اہل محشر دینگے۔
Top