Dure-Mansoor - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
پرھ اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور ضرور سوال کیا جائے گا
جسمانی اعضاء وجوارح کی سلامتی نعمت ہے 22۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم میں النعیم سے مراد ہے بدنوں اور کانوں اور آنکھوں کا صحیح اور تندرست ہونا اللہ تعالیٰ بندوں سے سوال کریں گے ان کے استعال کرنے بارے میں ار وہ اس بارے میں ان سے زیادہ جانتے ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا۔ (السراء آیت 36) بیشک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ 23۔ فریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔ سے مراد ہے کہ دنیا کی لذت میں سے ہر چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 24۔ عبداللہ بن احمد فی زوائد الزہد وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے امن اور صحب۔ 25۔ ہناد وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ نعمت سے مراد ہے امن اور صحت کہ ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 26۔ بیہقی نے شعب الایمان میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ آیت ثم لتسئلت یومئذ عن النعیم میں نعمت سے مراد ہے عافیت۔ 27۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا مثلاً گیہوں کی روٹی کھانا اور میٹھا اور ٹھنڈا پانی پینا اور اس گھر کے بارے میں جس میں رہتا تھا یہی نعمتیں ہیں۔ جن کے بارے میں اس دن اس سے پوچھا جائے گا۔۔ 28۔ ابن مردویہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔ کے بارے میں فرمایا میری امت کے کچھ لوگ خالص گھی اور شہد جمع رکھتے ہیں پھر اس کو کھاتے ہیں۔ 29۔ عبد بن حمید نے حمران بن ابان (رح) سے روایت کیا کہ وہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو تین سے اوپر جو بھی عطا فرمائے گا تو ان کے بارے میں قیامت کے دن اس سے سوال کرے گا۔ روٹی کی اتنی مقدار کے بارے میں کہ جس سے وہ اپنی پیٹھ سیدھا رکھ سکے۔ اور وہ چھت جس کے نیچے وہ سر چھپاتا ہے اور وہ کپڑا جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو لوگوں سے چھپاتا ہے۔ ٹھنڈا پانی بھی نعمت ہے 30۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے پوچھا یارسول اللہ ! ہم کونسی نعمتوں میں ہیں کہ ہم جو کی روٹی سے بھی اپنا پیٹ نہیں بھرتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی طرح وحی فرمائی کہ ان کو کہہ دیجیے کیا تم جوتے نہیں پہنتے ہو اور تم ٹھنڈا پانی نہیں پیتے ہو اور یہ بھی نعمت میں سے ہیں۔ 31۔ ابن ابی شیبہ وہناد واحمد وابن جریر وابن مردویہ و بیہقی نے شعب الایمان میں محمود بن لبید (رح) سے روایت کیا کہ جب سورة الہکم التکاثر نازل ہوئی تو آپ نے ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم تک پڑھی۔ تو صحابہ ؓ ن یعرض کیا یارسول اللہ ! کونسی نعمتوں کے بارے میں ہم سے سوال ہوا گا۔ بیشک وہ نعمتیں پانی اور کھجور ہیں اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں اور دشمن سامنے حاضر ہے۔ پھر کونسی نعمت سے ہم سے سوال ہوگا۔ فرمایا لیکن یہ نعمتیں عنقریب ملنے والی ہیں۔ 32۔ عبد بن حمید والترمذی وابن مردویہ نے ابوہریرہرہ رضٰ اللہ عنہ سے روایت کیا جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نزل ہوئی تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! کونسی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا وہ دو سیاہ چیزیں ہیں کھجور اور پانی اور دشمن سامنے حاضر ہے اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں ر ہیں فرمایا بیشک وہ عنقریب ہوں گے یعنی عنقریب تم کو ملیں گی۔ 33۔ احمد والترمذی وحسنہ وابن ماجہ وابن المنذر وابن مردویہ نے زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کونسی نعمت ہے جس کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اور بیشک یہ دو دنوں سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی ہے ؟ آپ نے فرمایا بیشک وہ عنقریب تم کو ملیں گی۔ 34۔ الطبرانی وابن مردویہ وابو نعیم نے الحلیہ میں ابن الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو زبیر بن عوام ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کونسی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اور بیشک یہ دو سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی ہے آپ نے فرمایا بیشک وہ عنقریب تم کو ملیں گی۔ 35۔ عبد بن حمید نے صفوان بن سلیم (رح) سے روایت کیا کہ جب آیت الہکم التکاثر نازل ہوئی اس کے آخر ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم تک تو نبی ﷺ کے اصحاب ؓ نے عرض کیا کونسی نعمت سے ہم سے سوال ہوگا ؟ بیشک ہمارے پاس دو سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی ہے اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں پر ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا بیشک وہ عنقریب تم کو ملیں گی۔ 36۔ ابو یعلی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کونسی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں پر ہیں۔ پھر آگے مذکورہ بالا حدیث کو ذکر کیا۔ 37۔ احمد فی زوائد الزہد وعبد بن حمید والترمذی وابن جریر وابن حبان وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے قیامت کے دن جن نعمتوں کے بارے میں بندے سے پوچھا جائے دو نعمتوں کی ناقدری 38۔ ہناد وعبد بن حمید والبخاری وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان دونوں میں بہت لوگ غلطی اور خسارے میں رہ جاتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور فراغت۔ 39۔ ابن جریر نے ثابت بن انی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ وہ نعمتیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا وہ یہ ہیں گوشت سمیت ہڈی جو اس کو قوت دیتی ہے اور وہپانی جو اسے سیراب کرتا ہے اور وہ کپڑا جو اس کی شرم گاہ کو ڈھانپتا ہے۔ 40۔ احمد والنسائی وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ و بیہقی نے شعب الایمان میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ ابوبکر اور عمر ؓ تشریف لائے۔ ہم نے ان کو پکی کھجوریں کھلائیں۔ اور ہم نے ان کو پانی کے ساتھ سیراب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اس نعمت میں سے ہے جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ 41۔ عبد بن حمید وابن مردویہ والبیہقی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ میرے باپ کے ذمہ ایک یہودی کی کچھ کھجوریں بطور رقرض واجب الادا تھیں میرے والد احد کے دن شہید کردئیے گئے اور دو باغ ترکہ میں چھوڑ گئے۔ اور یہودی کی کھجوریں دونوں باغوں کی کھجوروں کو محیط تھی ۔ یعنی دو باغوں کی کھجوریں اس کے قرضے میں پوری نہ ہوتیں نبی ﷺ نے اس یہودی سے فرمایا کیا تیرے لیے ممکن ہے کہ تو اس سال کچھ کھجوریں لے لے اور کچھ آئندہ سال تک موخر کردے ؟ یہودی نے انکار کردیا تو نبی ﷺ نے فرمایا جب کھجوروں کو توڑنے کا وقت آجائے تو مجھ کو بلالینا چناچہ میں نے آپ کو اطلاع دی تو رسول اللہ ﷺ ابوبکر اور عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لے آئے تو ہم نے کھجوروں کو توڑن اشروع کیا۔ اور کھجوروں کے درخت کے نیچے یہودی کو وزن کر کے دینے لگے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی برکت کی دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس کا سارا حق باغوں میں سے چھوٹے باغ سے ہی پورا کردیا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے پاس کھجوریں اور پانی لے آیا تو انہوں نے ان میں سے کھایا اور پانی بھی پیا پھر آپ نے فرمایا یہ ہے ان نعمتوں میں سے جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ 42۔ مسلم وابو داوٗد والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن جریر وابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے تو اچانک ابوبکر اور عمر ؓ بھی موجود تھے آپ نے اس وقت کس چیز نے تم کو اپنے گھروں سے نکالا عرض کیا یارسول اللہ بھوک نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے بھی اس بھوک نے نکالا جس نے تم کو نکالا سو کھڑے ہوجائے اور اس کھجور کے خوشے میں سے کھایا اور پانی پیا۔ جب وہ شکم سیر ہوگئے۔ اور پانی سے بھی سیراب ہوگئے تو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر اور عمر ؓ سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے تم ضرور اس نعمت کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیے جاؤگے۔ 43۔ البزار وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عمر بن خطاب ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت باہر نکلے تو ابوبکر ؓ کو مسجد میں بیٹھے ہوئے پایا آپ نے پوچھا کس بات نے آپ کو اس وقت گھر سے نکالا تو انہوں نے کہا مجھے اس چیز نے نکالا ہے جس چیز نے آپ کو نکالا ہے یا رسول اللہ ! پھر عمر ؓ آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا اے ابن خطاب ! اس وقت تجھے کس چیز نے نکالا تو انہوں نے کہا اس چیز نے مجھے نکالا ہے جس چیز نے تم دونوں کو نکالا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے پاس اتنی طاقت ہے کہ تم دونوں اس درخت تک چل سکو تو تم وہاں کھانے اور پینے کو پاؤگے۔ دونوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہاں اتنی طاقت ہے۔ پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم مالک بن التیہمان ابو الہیثم الانصاری ؓ کے گھر آگئے۔ 44۔ ابن حبان وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ گرمی کی دوپہر میں مسجد کی طرف نکلے عمر ؓ نے سنا تو وہ بھی نکل پڑے اور ابوبکر ؓ نے پوچھا کسی چیز نے اس وقت آپ کو گھر سے نکالا انہوں نے کہا میں اپنے اندر بھوک کی تلخی کو پا رہا ہوں۔ اسی نے مجھے گھر سے نکالا ہے۔ عمر ؓ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھ کو نہیں نکالا مگر بھوک نے وہ اسی حال میں تھے کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ اور اور پوچھا اس وقت تم دونوں کو کس چیز نے گھروں سے نکالا۔ دونوں عرض کیا اللہ کی قسم ہم کو کسی چیز نے باہر نہیں نکالا مگر بھوک کی اس تلخی نے جو ہم اپنے پیٹوں میں پا رہے ہیں یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اس کے علاوہ کسی اور چیز نے نہیں نکالا پس وہ کھڑے ہوئے اور ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کی طرف چل دئیے جب اس کے گھر پہنچے اس کی بیوی نے کہا خوش آمدید اے اللہ کے نبی اور آپ کے ساتھ آنے والوں کو۔ نبی ﷺ نے پوچھا ابو ایوب ؓ کہاں ہیں ؟ اس کی بیوی نے کہا اے اللہ کے نبی وہ تھوڑی دیر میں آپ کے پاس آجائیں گے ابو ایوب ؓ حاضر خدمت ہوئے اور کھجور کا ایک خوشہ توڑا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کیا تو نے ہمارے لیے اسے کاٹنے کا ارادہ کیا کیا تو نے پھل چن نہیں لیا۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ آپ اس کی خشک وتر اور پکی کھجوریں تناول فرمائیں پھر انہوں نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اس کا اڈھا بھونا اور آدھا پکا لیا۔ جب نبی اکرم ﷺ کے سامنے رکھا تو آپ نے کچھ گوشت اٹھا کر روٹی پر رکھا اور فرمایا اے ابو ایوب ؓ یہ فاطمہ ؓ کو پہنچا دو کیونکہ اس نے اس طرح کا گوشت کوئی دن سے نہیں پایا۔ ابو ایوب ؓ وہ لے کر فاطمہ ؓ کو دینے چلے گئے۔ جب ان حضرات نے کھالیا اور شکم سیر ہوگئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا روٹی اور گوشت اور کچی اور پکی کھجوریں اور ساتھ ہی آپ کی آنکھیں بہہ پڑیں اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ثم لتسئلن یومئذ یہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ تو آپ کے ساتھیوں پر یہ بات بھاری گذری تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ جب تم ان نعتوں کو پہنچو اور تم اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاؤ تو کہو بسم اللہ جب تم پیٹ بھرلو تو یوں کہو۔ الحمدللہ الذی ہو اشبعنا وانعم علینا و افضل فان ہذا کفافا لہا۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارا بیٹ بھردیا اور ہم پر یہ انعام فرمایا اور ہم کو یہ فضیلت عطا فرمائی تو یہ دعا اس کے لیے کافی ہوجائے گی یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا ہوجائے گا۔ 45۔ احمد وابن جریر وابن عدی والبغوی فی معجمہ وابن مندہ فی المعرفہ وابن عساکر وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابو عسیب (رح) نے نبی ﷺ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ایک رات کو نکلے میرے پاس سے گذرے اور مجھ کو بلایا میں آپ کی طرف گیا پھر آپ ابوبکر ؓ کے پاس سے گذرے ان کو بلایا تو وہ بھی آپ کی طرف باہر نکلے پھر عمر ؓ کے پاس سے گذرے ان کو بلایا تو وہ بھی باہر آگئے پھر آپ چل پڑے یہاں تک کہ آپ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوگئے۔ باغ والے سے فرمایا ہم کو کھلاؤ جو کھجور کا ایک خوشہ لے آیا اور آپ کے سامنے رکھ دیا۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے کھایا۔ پھر آپ نے ٹھنڈا پانی منگوایا اور اس کو پیا۔ اور فرمایا ان نعمتوں کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا عمر ؓ نے اس خوشے کو زمین پردے مارا یہاں تک کہ کھجوریں بکھرگئیں پھر کہا یارسول اللہ ! ہم اس کے بارے میں قیامت کے دن ہم سے پوچھ اجائے گا ؟ فرمایا ہاں سوائے تین چیزوں کے روٹی کا وہ ٹکڑا جو آدمی کی بھوک کو روک دے۔ یا وہ پکڑا جو اس کی شرم گاہ کو چھپادے یا وہ گھر جس میں گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے رہتا ہے 6۔ ابن مردویہ نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ایک چھوٹی نہر پر تھے ؟ آپ کے پاس کھجوریں اور ٹھنڈا پانی لایا گیا۔ آپ نے کھجوروں میں سے کھایا اور پانی میں سے پیا۔ پھر فرمایا یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ 47۔ ابو یعلی وابن مردویہ نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چلا ایک آدمی کی طرف جس کو واقفی کہا جاتا تھا۔ اور ہمارے ساتھ عمر ؓ بھی تھے۔ ایک آدمی کے پاس گئے جو کو واقفی کہا جاتا تھا اس نے بکری ذبح کی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا دودھ والی سے بچنا یعنی دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا۔ سو ہم نے ثرید اور گوشت کھایا اور پانی پیا۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تم سے پوچھا نہ جائے گا۔ 48۔ ابن مردویہ نے ابن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ایسے وقت میں نکلے کہ جس میں آپ نہ نکلا کرتے تھے۔ پھر ابوبکر ؓ نکلے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا اے ابوبکر ! کسی چیز نے تجھ کو نکالا عرض کیا مجھ کو بھوک نے نکالا۔ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی اسی چیز نے نکالا جس نے تجھ کو نکالا۔ پھر عمر ؓ نکلے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا اے عمر ! تجھے کس چیز نے نکالا ؟ عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے بھوک نے نکالا۔ پھر آپ کے صحابہ ؓ میں سے کچھ لوگ اور آگئے۔ آپ نے فرمایا ہمارے ساتھ ابو الہیثم ؓ کے گھر کی طرف چلو وہاں پہنچے تو اس کی بیوی نے ان سے کہا : وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ پس تم باغ کی طرف چلو چناچہ اس نے اس ن کے لیے باغ کا دروازہ کھولایہ حضرات باغ میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے۔ اتنے میں ابوالہیثم آگئے۔ ان کی بویوی نے ان سے کہا کیا تم جانتے ہو تیرے پاس کون آئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں بیوی نے ان سے کہا تیرے پاس رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھی ہیں۔ پس وہ اندر حاضر ہوئے اپنے مشکیزہ کو ایک درخت کے ساتھ لٹکایا پھر چوٹی سے ٹوکری اٹھائی اور آپ کے لیے کھجوروں کا ایک خوشہ لے آئے اور ان کے لیے تر کھجوریں چنیں اور ان کے سامنے آکر انڈیل دیں۔ سب نے یہ کھجوریں کھائیں پھر ان کے لیے ٹھنڈا پانی لائے انہوں نے اس میں سے پیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا یہ چیزیں ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ بھوک وپیاس کے ستائے تین دوست 49۔ البیہقی نے الدلائل میں ابو الیہثم بن التیہان ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق ؓ باہر نکلے اچانک عمر ؓ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پاس جا کر ان کو سلام کیا۔ عمر ؓ نے سلام کا جواب دیا ابوبکر ؓ نے ان سے پوچھا اس وقت آپ کو کونسی چیز نے باہر نکالا۔ عمر ؓ نے ان سے کہا آپ کو اس وقت کس چیز نے نکالا۔ ابوبکر ؓ نے کہا میں نے آپ سے سوال کیا اس سے پہلے کہ آپ مجھ سے سوال کریں عمر ؓ نے کہا مجھے بھوک نے باہر نکالا اور ابوبکر ؓ نے کہا مجھے بھی اس چیز نے نکالا ہے جس نے آپ کو نکالا ہے یہ حضرات ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے آپ نے ان دونوں کی طرف ارادہ کیا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس ٹھہرے اور ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کو جواب دیا پھر پوچھا اس وقت تم دونوں کو کس چیز نے نکالا ہر ایک کے ان میں سے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ دوسرا ہی آپ کو باہر آنے کے متعلق بتائے۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ وہ مجھ پہلے باہر آئے ہیں اور میں اس کے بعد نکلا ہوں۔ آپ اس سے پوچھیے کہ اس وقت کس چیز نے اس کو نکالا ہے تو میں نے ان سے پوچھا بلکہ تجھے اس وقت کونسی چیز باہر نکال لائی ہے تو انہوں نے جواب دیا بلکہ تم بتاؤ اس وقت تمہارے نکلنے کا سبب کیا ہے میں نے تمہارے سوال سے پہلے تم سے پوچھ لیا ہے پھر انہوں نے کہا مجھے تو بھوک باہر نکال لائی ہے تو میں نے انہیں بتیا کہ مجھے بھی اسی نے نکالا ہے جس کے تم کو نکالا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا مجھے بھی اس چیز نے نکالا ہے جس نے تم دونوں کو نکالا ہے پھر نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی جانتا ہے ہم کس کے مہمان ہوں گے دونوں نے عرض کیا ہاں ابو ہیثم بن التیہان کے اس کے کھجوروں سے لدے ہوئے درخت ہیں اور بھیڑ کے بچے بھی ہیں۔ اگر ہم اس کے پاس گئے تو ہم اس کے پاس اچھی اور وافر کھجوریں پائیں گے چناچہ نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باغ میں تشریف ائے اور ان کو سلام فرمایا تو ام الہیثم ؓ نے آپ کے سلام کو سن لیا۔ اور عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ اور اس نے بالوں کا اون کا بنا ہوا ایک ٹاٹ بچھا یا۔ یہ حضرات اس پر بیٹھ گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا ابوالہیثم کہاں ہے ؟ اس نے کہا وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے۔ اور ابوالہیثم اپنے کاندھے پر مشکیزہ رکھے ہوئے آگئے۔ جب اس نے نبی اکرم ﷺ کو کھجوروں کے درمیان دیکھاتو مشکیزہ ایک تنے کے ساتھ رکھ دیا۔ اور آپ کے سامنے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب انہوں نے اپنے مہمانوں کو دیکھا تو مدی کو پہچان لیا پھر ام الہیثم نے کہا کیا تو نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو کچھ کھلایا ہے ؟ اس نے کہا ابھی تو نبی ﷺ بیٹھے ہیں۔ پھر پوچھا تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس جو کے دانے ہیں اس نے کہا ان کو پیس لے اور گوندھ کر روٹی پکالے۔ کیونکہ یہ خمیر کو نہیں جانتے یعنی پسند نہیں کرتے۔ راوی نے کہا اس نے چھری اٹھائی نبی ﷺ نے انہیں پھیرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا دودھ والی بکری کے ذبح کرنے سے اجتناب کرنا اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! بیشک میں بکرے کے بچہ کا ارادہ رکھتا ہوں۔ پھر انہوں نے ذبح کیا زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ وہ کھانا تیار کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس لے آئے۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے کھایا اور شکم سیر ہوگئے۔ ان کے لیے ان جیسے کھانے کے عوض کوئی ضمانت نہیں تھی۔ ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یمن سے کچھ قیدی لائے گئے۔ تو آپ ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ آپ کے پاس حاضر ہوئیں او اپنے کام کی کثرت اور ہاتھوں کے زخمی ہونے کی شکایت کی آپ سے ایک خادم کا سوال کیا۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ میں تو ابوالہیثم ؓ کو دوں گا کیونکہ میں نے اس کی حالت اور مشقت دیکھی ہے جس سے وہ اور ان کی بیوی اس دن دوچار ہوئے تھے جس دن ہم ان کے مہمان بنے چناچہ آپ نے ابوالہیثم کو بلایا اور خادم اس کے حوالے کردیا اور فرمایا یہ غلام لے لو تمہارے باغ کے کام میں یہ تمہارا مددگار ہوگا اور اسے خیر اور نیکی کی نصیحت فرماتے رہے۔ چناچہ وہ ابوالہیثم کے پاس ٹھہرا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر آپ نے اسے فرمایا میں اور میری بیوی تو اپنے باغ میں مستقل لگے ہوئے ہیں تو چلا جا تو وہ چلا گیا۔ اللہ کے سوا تیرا کوئی مالک نہیں ہے (یعنی آزاد کردیا) پس وہ غلام شام کی طرف نکل گیا اور وہیں رہنے لگا۔ بے تکلف دوستوں کے ساتھ بےتکلفانہ معاملہ 50۔ طبرانی نے ابن مسعودر ضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ باہر نکلے اور ان کا سبب فقط بھوک تھا اور عمر ؓ باہر نکلے اور ان کے نکلنے کا سبب بھی صرف بھوک تھا اور نبی ﷺ ان دونوں کی طرف باہر تشریف لائے۔ اور ان دونوں حضرات نے ان کو بتایا کہ ان کو نہیں نکالا مگر بھوک نے۔ آپ نے فرمایا میرے ساتھ چلو انصار میں سے ایک آدمی کے گھر کی طرف ان کو ابو الہیث بن التیمان کہا جاتا ہے جب آپ وہاں پہنچے تو وہ گھر پر نہیں تھے۔ پانی لینے گئے ہوئے تھے۔ اس کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا۔ اور ان کے لیے کوئی بچھونا بچھا دیا۔ تو یہ حضرات اس پر بیٹھ گئے نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا ابو الہیثم کہاں گئے ہیں ؟ اس نے کہا ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں تھوڑی دیر گذری تھی کہ وہ مشکیزہ لے کر آئے جس میں پانی تھا۔ اس کو لٹکا دیا اور ان حضرات کے لیے ایک بکری ذبح کرنے اکا ارادہ کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے اتنا اچھا نہ سمجھا چناچہ اس نے بھیڑ کا بچہ ذبح کردیا پھرگئے اور کھجور کے خوشے لے آئے۔ ان حضرات نے اس میں سے گوشت اور خشک اور تر کھجوریں کھائیں۔ اور پانی پیا ان میں سے کسی ایک نے عرض کیا ابوبکر ؓ نے یا عمر ؓ نے کیا یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مومن پر کوئی چیز قبیح نہیں ہوگی۔ جو بھی اسے دنیا میں پہنچتی ہے اور بیشک یہ کافر پر ثقیل اور قبیح ہوگی۔ 51۔ ابن مردویہ نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیہم کی تفسیر کی بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا یہ کفار کے لیے ہے آیت واذہبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا (الاحقاف آیت 20) تم اپنا حصہ پاک چیزوں میں سے اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے۔ یہ شق یہ بھی کفار کے لیے ہے۔ راوی نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر اور عمر ؓ سب گھر سے نکلے اور وہ کہہ رہے تھے مجھ کو تو بھوک نے نکالا ہے۔ نبی اکرم ﷺ ان دونوں کو لے کر انصار کے ایک آدمی طرف گئے۔ جس کو ابوالہیثم کہا جاتا تھا۔ آپ نے اسے اپنے گھر پر نہ پایا اس کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا اور ایک بچھونا جس پر یہ حضرات بیٹھ گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا ابوالہیثم ؓ کہاں گئے ہیں۔ بیوی نے کہا وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر میں وہ پانی کا مشکیزہ لے کر آگئے اور اس کو لٹکا دیا اور مہمانوں کے لیے بکری کا بچہ ذبح کیا پھرگئے اور کھجوروں کے گچھے لے کر آئے۔ پس ان حضرات نے گوشت سے اور خشک وتر کھجوریں کھائیں اور پانی میں سے پیا۔ پھر حضرات ابوبکر وعمر ؓ میں سے کسی ایک نے کہا کیا یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بیشک کفار سے پوچھا جائے گا اور مومن کے لیے کوئی چیز بھی قبیح نہیں ہوگی۔ جو اس کو دنیا میں پہنچی اور کافر کے لیے قبیح اور اس پر بوجھ ہوگی۔ پوچھا گیا تجھے یہ کس نے حدیث بتائی ہے اس نے جواب دیا کہ یہ حدیث حضرت شعبی نے حضرت حارث کے واسطہ سے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی۔ 52۔ احمد نے الزہد میں عامر (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ابوبکر اور عمر ؓ نے گوشت، روٹی، جو، پکی کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا۔ پھر فرمایا اور تمہارے رب کی قسم یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ 53۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کونسی نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں اور ساری زمین ہمارے لیے جنگ کا میدان ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے پاس صبح کا کھانا نہیں ہوتا اور اس حال میں شام کرتا ہے کہ اس کے پاس شام کا کھانا نہیں ہوتا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے بعد قوم ہوگی۔ تم ان سے بہتر ہو ان کے پاس صبح کے وقت بھی کھانے کے بڑے بڑے پیالے ہوں گے اور شام کے وقت بھی وہ صبح بھی محلوں میں کریں گے اور شام کے وقت بھی محلوں میں واپس لوٹیں گے۔ اور اپنے گھروں میں روپوش ہوجائیں گے جیسا کہ کعبہ کو چھپایا جاتا ہے اور ان میں موٹاپا عام ہوگا۔ 54۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو ایک محتاج آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا یارسول اللہ ! مجھ پر نعمت میں سے کوئی چیز ہے ؟ فرمایا ہاں سایہ یعنی مکان اور جوتا اور ٹھنڈا پانی۔ 55۔ خطیب (رح) وابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کے بارے میں روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چمڑا ٹھنڈا پانی اور روٹی کے ٹکڑے ان نعمتوں میں سے ہیں ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اخصاف سے مراد ہے جوتوں کا چمڑا۔ 56۔ البزار نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ لباس سے زائد ہے اور دیوار کا سایہ اور روٹی ان سب کے بارے میں بندے سے حساب لیا جائے گا قیامت کے دن اور ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 57۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں بندے سے حساب نہیں لیا جائے گا۔ لکڑی کی جھونپڑی کا سایہ کہ جس کے ذریعہ وہ سایہ حاصل کرتا ہے اور روٹی کا ٹکڑا جس کے ذریعہ وہ اپنی پیٹھ کو باندھتا ہے اور وہ کپڑا جس کے ذریعہ وہ اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہے۔ 58۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ تورات میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم ایک روٹی کا ٹکڑا تجھ کو کافی ہے اور کپڑے کا ایک ٹکڑا تجھ کو ڈھانپ سکتا ہے اور ایک گھر تجھ کو پناہ دے سکتا ہے۔ 59۔ احمد نے الزہد میں عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی سے فقراء المہاجرین میں سے کسی نے سوال کیا ؟ اس نے کہا کیا تیری بیوی ہے جس کے پاس تو پناہ لیتا ہے اور وہ تیرے پاس پناہ لیتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں پھر پوچھا کیا تیرا گھر ہے کہ جس میں تو رہتا ہے اس نے کہا ہاں۔ فرمایا پھر تو فقراء المہاجرین میں سے نہیں ہے۔ 60۔ احمد نے زہد میں حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھر کی چھت، روٹی کے ٹکڑے اور ایسا کپڑا کے جو اس کی شرم گاہ ڈھانپ سکتا ہو۔ اور پانی کے سوا ہر چیز اور جو بھی اس سے زائد ہے ان میں ابن آدم (یعنی انسان) کا کوئی حق نہیں۔ 61۔ احمد وابن ماجہ والحکیم والترمذی فی نوادر الاصول وابن مردویہ نے معاذ بن عبداللہ الجہنی سے روایت کیا اور وہ اپنے والد اور اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ اور آپ پر غسل کا اثر تھا۔ اور آپ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے گمان کیا کہ آپ اپنی اہلیہ کے پاس اترے اور ٹھہرے ہیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم آپ کو خوش باش دیکھتے تہیں۔ فرمایا ہاں اور ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ پھر آپ سے غنا کا ذکر فرمایا اور فرمایا دولت اور غنا کا کوئی ہرج نہیں اس شخص کے لیے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ اور ڈرنے والے کے لیے صحت غنا سے بہتر اور افضل ہے۔ اور طیب نفس یعنی دن کی خوشی بھی نعمت ہے۔ 62۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جو جذامی اندھابہرہ اور گونگا تھا۔ تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کیا تو اس پر اللہ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت دیکھ رہے ہو ؟ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کیوں نہیں کیا تم اس کو نہیں دیکھ رہے کہ وہ پیشاب کرتا ہے نہ تو پیشاب اس کے اختیار کے بغیر خود بخود نکلنا شروع ہوجاتا ہے اور نہ ہی پیشاب کے وقت اسے کوئی زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے بلکہ وہ بڑی اصانی اور سہولت کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔ پس یہی اللہ کی نعمت ہے۔ 63۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا اے اللہ کی نعمت سے غافل ہونے والے تو لذت سے کھاتا ہے اور آسانی سے نکال دیتا ہے تحقیق اس گاؤں کے سرداروں میں سے ایک سردار تھا اس نے اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو دیکھا کہ وہ باغ میں آتا ہے تو غمزدہ ہوجاتا ہے پھر وہ کھڑے کھڑے اونٹ کی طرح بلبلانے لگتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اے کاش مجھ سے تیری طرح نہیں پیا جائے گا۔ یہاں تک کہ پیاس اس کی گردن کو کاٹ دے گی۔ اور جب وہ پئے گا تو اس کے پینے میں اس کے لیے کئی موتیں ہیں۔ اے نعمت سے غافل رہنے والے ! تو لذت سے کھاتا ہے اور آسانی سے نکال دیتا ہے۔ 64۔ ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے وایت کیا کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین رجسٹروں (یعنی اعمال ناموں) کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ اک رجسٹر میں نیکیاں ہوں گے۔ اور دوسرے میں نعمتیں ہوں گی۔ اور تیسرے رجسٹر میں برائیں ہوں گی۔ پس نعمتوں کے رجسٹر کے مقابل نیکیوں کے رجسٹر کو رکھا جائے گا جس کے نتیجہ میں نعمتیں، نیکیوں کو ختم کردیں گی اور برائیاں باقی رہ جائیں گی تو ان کی مشیت اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اگر وہ چاہے تو عذاب دے اور اگر وہ چاہے تو بخش دے۔ 65۔ ابن ابی شیبہ نے بکیر بن عتیق (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سعید بن جبیر کو شہد کا شربت پلایا ایک پیالے میں انہوں نے اس کو پی لیا پھر فرمایا اللہ کی قسم میں ضرور اس کے بارے میں پوچھا جاؤں گا۔ میں نے ان سے کہا تو فرمایا میں نے اس کو پیا ہے اور میں نے اس سے لذت حاصل کی ہے۔
Top