Dure-Mansoor - Hud : 38
وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ١۫ وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ١ؕ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَؕ
وَيَصْنَعُ : اور وہ بناتا تھا الْفُلْكَ : کشتی وَكُلَّمَا : اور جب بھی مَرَّ : گزرتے عَلَيْهِ : اس پر مَلَاٌ : سردار مِّنْ : سے (کے) قَوْمِهٖ : اس کی قوم سَخِرُوْا : وہ ہنستے مِنْهُ : اس سے (پر) قَالَ : اس نے کہا اِنْ : اگر تَسْخَرُوْا : تم ہنستے ہو مِنَّا : ہم سے (پر) فَاِنَّا : تو بیشک ہم نَسْخَرُ : ہنسیں گے مِنْكُمْ : تم سے (پر) كَمَا : جیسے تَسْخَرُوْنَ : تم ہنستے ہو
اور وہ کشتی بنا رہے تھے اور جب ان کی قوم کے سرداران پر گزرتے تھے تو ان سے ہنسی کرتے تھے، اور جواب دیتے تھے کہ اگر تم ہم پر ہنس رہے ہو تو بلاشبہ ہم تم پر ہنسیں گے جیسا کہ تم ہنسی کررہے ہو
حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر کتنی تھی ؟ 1:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم ابوالشیخ والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور امام ذہبی نے ضعیف وابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) اپنی قوم میں نوسو پچاس برس رہے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہے یہاں تک کہ جب ان کا آخری زمانہ تھا تو انہوں نے ایک درخت اگایا وہ خوب بڑھا اور اس نے جہاں تک جانا تھا گیا۔ پھر آپ نے اس کو کاٹ لیا پھر آپ نے اس سے کشتی بنانا شروع کی۔ لوگ گزرتے تھے اور پوچھتے تھے تو آپ فرماتے کہ میں ایک کشتی بنا رہا ہوں۔ تو وہ لوگ ان سے مذاق کرتے اور کہتے کہ تم خشکی میں کشتی بنا رہے ہو تو وہ کیسے چلے گی۔ نوح (علیہ السلام) نئے فرمایا عنقریب تم جان لوگ گے جب اس سے فارغ ہوئے تنور سے پانی ابل پڑا اور گلیوں میں پانی بہت ہوگیا بچے کی ماں اپنے بچے پر ڈری اور (دل میں) اس کی بہت سخت محبت تھی تو وہ ایک پہاڑ کے اوپر چڑھگئی جب پانی اس کی گردن تک پہنچ گیا تو بچے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھالیا۔ یہاں تک کہ پانی اسے بہا کرلے گیا مگر اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی ایک پر رحم کرتے تو بچے کی ماں پر رحم فرماتے۔ 2:۔ ابو الشیخ وابن مردویہ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے پر تھے اور پر کے نیچے کمرے تھے۔ 3:۔ ابن مردویہ (رح) نے سمرۃ بن جندب (رح) سے روایت کیا کہ (نوح کا بیٹا) سام عرب کا باپ ہے اور حام حبشہ والوں کا باپ ہے۔ اور یافث روم والوں کا باپ ہے کہ یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ کشتی کی لمبائی تین سو ذراع تھی اور اس کا عرض پچاس ذراع تھا۔ اور اس کی لمبائی آسمان میں (یعنی اونچائی) تیس ذراع تھی۔ اور اس کا دروازہ اس کی چوڑائی میں تھا۔ 4:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی لمبائی تین سو ذراع تھی اور اس کی لمبائی آسمان میں (یعنی اونچائی) تیس ذراع تھی۔ 5:۔ اسحاق بن بشیر وابن عساکر رحمما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح کو جب کشتی بنانے کا حکم دیا گیا تو عرض کیا اے میرے رب لکڑی کہاں سے ہے ؟ فرمایا ایک درخت لگاؤ انہوں نے ساج کا درخت لگایا بیس سال تک اور دعا کرنے سے رک گئے اور لوگ بھی مذاق کرنے سے رک گئے۔ جب درخت کو مکمل حالت میں پالیا تو ان کے رب نے ان کو حکم دیا (درخت کو کاٹو) چناچہ انہوں نے اس کو کاٹا اور اس کو خشک کیا۔ پھر عرض کیا اے میرے رب یہ گھر (یعنی کشتی) میں کیسے بناوں۔ فرمایا اس کو تین شکلوں میں بناؤ۔ اس کا سر مرغ کے سر کی طرح ہو۔ اور اس کا سینہ پرندے کے سینہ کی طرح نکالا ہوا ہو۔ اور اس کی دم مرغ کے دم کی طرح ہو۔ اس کے کئی طبقے بنادو، اور اس کے دروازے اس کے پہلو میں بنادو۔ اور اس کو کیلوں کے ساتھ مضبوط کردو۔ یعنی لوہے کی کیلیں اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو بھیجا تاکہ ان کو کشتی بنانا سکھائیں۔ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تو ان سے مذاق کرتے ہوئے کہتے کہ تم نے اس پاگل کی طرف نہیں دیکھا۔ یہ ایک گھر بنا رہا ہے۔ تاکہ وہ پانی پر چلے۔ اور پانی کہاں ہے ؟ اور وہ ہنستے تھے۔ اسی کو فرمایا (آیت) ” وکلما مر علیہ ملا من قومہ سخروا منہ “ پس آپ نے ایک کشتی بنائی جو چھ سو ذراع لمبی تھی اور ساتھ ذراع زمین میں تھی اور اس کا عرض تین سو تینتیس ذراع تھا۔ اور حکم دیا گیا کہ تارکول منگواؤ اور زمین میں تارکول نہ تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تارکول کا ایک چشمہ جاری کردیا اسی طرح کہ جہاں کشتی (کی لکڑیاں) تیار کی جاتی تھیں وہاں سے (چشمہ نے) جوش مارا یہاں تک کہ اس کا طلا کردیا۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو اس نے تین دروازے اور ان کو ڈھانپ دیا۔ اس میں جانوروں اور درندوں کو سوار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے شیر کو بخار میں مبتلا کردیا کہ وہ دوسرے جانوروں سے (غافل ہوکر) اپنی ذات میں مشغول رہے پرندوں کو اور وحشی جانوروں کو دوسرے دروازے میں کردیا اور اوپر سے ان کو ڈھانپ دیا اور آدمی کی اولاد میں سے چالیس مردوں اور چالیس عورتوں کو اوپر والے دروازے میں کردیا پھر ان کو اوپر سے ڈھانک دیا۔ اور ایک کوڑا اپنے ساتھ رکھا اوپر والے دروازے میں تاکہ چوپائے ان کو کمزور سمجھ کر روند نہ ڈالیں۔ 6:۔ عبد بن حمید وابن منذر وابن جریر وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ کشتی کی لمبائی تین سو ذراع اور اس کا عرض پچاس ذراع تھا اور اونچائی تیس ذراع تھی اور اس کا دروازہ اس کے عرض میں تھا کہ ہم کو یہ بھی بتایا گیا کہ ان کو لے کر کتنی بلند ہوئی) جب کہ دسویں تاریخ کو) اور پانچ میں ایک سو پچاس دن رہی پھر جودی (پہاڑ) پر ٹھہر گئی یہ لوگ زمین پر اترے محرم کی دسویں رات میں۔ 7:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی لمبائی بارہ سو ذراع تھی اور اس کا عرض چھ سو ذراع تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مردے کو زندہ کرنے کا معجزہ : 8:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اگر آپ ہمارے لئے تمہارا جیسا آدمی زندہ کریں جس نے کشتی دیکھی ہو اور اس کے بارے میں بیان کرے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) انکے ساتھ چلے یہاں تک کہ مٹی کے ایک ٹیلے کی طرف پہنچے آپ نے اس مٹی میں سے ایک مٹھی مٹی لی ساتھیوں سے فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ساتھیوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ حام بن نوح کا ٹخنہ ہے۔ اس مٹی کے ڈھیر کو لاٹھی سے مارا اور فرمایا اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا اچانک وہ (قبروالا) کھڑا ہوگیا جو اپنے سر کو مٹی سے جھاڑ رہا تھا اور وہ جوان تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تجھ کو موت آئی تھی اس نے کہا میں اس حال میں مرا تھا کہ میں نوجوان تھا لیکن میں نے اب خیال کیا کہ قیامت قائم ہوگئی۔ اس وجہ سے میرے بال سفید ہوگئے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا ہم کو نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے بارے میں بیان کرو اس نے کہا اس کی لمبائی بارہ سو ذراع تھی اور اس کی چوڑائی چھ سو ذراع تھی اس کے تین طبقات تھے۔ ایک طبقہ میں چوپائے اور وحشی جانور تھے اور ایک طبقہ میں انسان تھے اور ایک طبقہ میں پرندے تھے جب جانوروں گوبر زیادہ ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی ہاتھی کی دم دباؤ دم دباتے ہی ہاتھی کے اندر سے ایک مذکر اور مونث خنزیر گرپڑے اور دونوں گوبر کھانے لگے جب چوہا گرا تو وہ کشتی کا کاٹنے سے خراب کرنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے نوح کی طرف وحی بھیجی کہ شیر کی دونوں آنکھوں کے درمیان ضرب لگاؤ تو شیر کی ناک کے سوراخوں سے ایک بلی اور ایک بلا نکل پڑے اور دونوں چوہوں پر دوڑ پڑے۔ (اور ان کو ختم کردیا) عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کو کیسے علم ہوا کہ شہر غرق ہوگیا ہے اس نے کہا انہوں نے ایک کے کو بھیجا کہ وہ (شہروں کی) خبر لے آئے اس نے ایک مردار کو پایا اور اس پر واقع ہوگیا نوح (علیہ السلام) نے اس کے لئے خوف کی بددعا کی (کہ تو انسانوں سے خوف کرے گا) اس لئے وہ گھروں سے الفت نہیں رکھتا پھر انہوں نے ایک کبوتری کو بھیجا وہ زیتون کا ایک پتہ لے آئی اپنی چونچ کے ساتھ اور گارا لے آئی اپنے پاوں کے ساتھ تو انہوں نے (یہ کیفیت دیکھ کر) جان لیا کہ شہر غرق ہوگئے ہیں پھر وہ سبز رنگ کا ہار جو اس کی گردن میں آپ نے پہنایا اور اس کے لئے دعا فرمائی وہ انس اور امان میں رہے۔ اس وجہ سے کہ وہ گھروں سے محبت رکھتی ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا اے روح اللہ کیا آپ اسے ہمارے ساتھ ہمارے گھروں کی طرف نہیں لے چلیں گے۔ یہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے گا آپ نے فرمایا وہ تمہارے ساتھ کیسے جاسکتا ہے جس کے لئے کوئی رزق نہیں ہے۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا لوٹ جا اللہ کے حکم سے تو وہ مٹی ہوگیا۔ 9:۔ ابن ابی حاتمرحمۃ اللہ علیہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان فرائی نے فرمایا کہ نوح نے چار سو سال تک کشتی کا کام کیا اور چالیس سال میں ساگوان کا درخت لگایا یہاں تک کہ اس کی لمبائی چار سو ذراع ہوگئی اور ایک ذراع کندھوں تک تھا۔ 11:۔ ابن جریر (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) ٹھہرے رہے (یہاں تک کہ) ایک درخت لگاتے رہے اس کو کاٹ کر پھر اس کو خشک کرتے رہے پھر اس پر سو سال تک کام کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کی صنعت سیکھائی گئی : 12:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ نوح کو جب حکم ہوا کہ کشتی بناؤ تو عرض کیا کہ اے میرے رب میں نجار (لکڑی کا کام کرنے والا) نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں ( یہ کام) میرے سامنے ہوگا کلہاڑے کو لے کر اور آپ کے ہاتھ کو اس طرح بنادیا گیا جیسے کہ وہ ایک ماہر بڑھئ کا ہاتھ ہو۔ تو گزرنے والے نے کہنا شروع کیا یہ آدمی اپنے آپ کو گمان کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اب یہ نجار بن گیا چناچہ آپ نے چالیس سال تک یہ کام کیا۔ 13:۔ ابن عساکر (رح) نے سعید بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ کعب ؓ نے عبداللہ بن عمر بن عاص ؓ سے پوچھا کہ مجھے اس پہلے درخت کے بارے میں بتائیے جو زمین میں اگایا گیا۔ عبداللہ نے فرمایا یہ ساگوان (کا درخت) تھا اور یہ وہی درخت ہے کہ نوح نے جس سے کشتی بنائی۔ کعب ؓ سے روایت کیا کہ تم نے سچ کہا۔ 14:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” من یاتیہ عذاب یخزیہ “ سے مراد ہے غرق ہونے کا عذر۔
Top