Dure-Mansoor - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی وجہ سے رنجیدہ ہوئے۔ اور انکی وجہ سے تنگ دل ہوئے۔ اور کہنے لگے آج کا دن مصیبت کا دن ہے
1:۔ ابن جریر وابو الشیخ وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ولما جآءت رسلنا لوطا سیٓء بہم وضاق بہم ذرعا “ سے مراد ہے کہ لوط (علیہ السلام) بڑے غمگین ہوئے اپنی قوم کی بری عادات کی وجہ سے اور اپنے مہمانوں کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے (آیت) ” وقال ھذا یوم عصیب “ اور فرمایا یہ دن بڑا سخت ہے۔ 2:۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا آپ اپنی قوم کے بارے میں بدگمانی کے سبب سے خوف کھانے لگے اپنے مہمانوں پر اور آپ بہت پریشان ہوئے اپنے مہمانوں کے بارے میں ان پر خوف کرتے ہوئے (اپنی قوم کی بری حرکتوں کی وجہ سے) 3: ابن الانباری نے الوقف والابتداء میں والطستی نے نافع بن ازرق (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” یوم عصیب “ کے بارے میں بتائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے سخت دن پھر فرمایا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں ! کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ ہم ضربوا قوانس خیل حجر بجنت الردء فی یوم عصیب ترجمہ : ایک انتہائی سخت دن بوجھ کے پہلو میں سے حجر کے گھوڑے کی چوٹی پر کہ انہوں نے تلوار کا وار کیا اور عدی بن زید نے فرمایا : فکنت لوانی خصمک لم اعود وقد سلکوک فی یوم عصیب ترجمہ : اگر تیرا دشمن ہوں تو میں بوڑھا نہیں ہوا اور لوگوں نے تجھے سخت دن میں داخل کردیا۔
Top