Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جنہوں نے اپنے رب کی رضاحاصل کرنے کے لئے صبر کیا اور نمازوں کو قائم کیا اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے پوشیدہ طور پر اور ظاہری طریقے پر خرچ کیا اور حسن سلوک کے ذریعہ بدسلو کہ کو دفع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے
خفیہ اور اعلانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کرناـ:۔ 1:۔ ابن جریر وابوالشیخ (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والذین صبروا “ یعنی (جنہوں نے صبر کیا) اللہ کے حکم (کی تعمیل) پر (آیت ) ” ابتغاء وجہ ربھم “ یعنی اپنے رب کی رضا مندی کو حاصل کرنے کے لئے (آیت ) ” واقامو الصلوۃ “ یعنی نماز کو پورا کرتے ہیں (آیت) ” انفقوا مما رزقنہم “ یعنی مالوں میں سے (خرچ کرتے ہیں) ” سراوعلانیۃ “ (یعنی چھپے ہوئے اور اعلانیہ طور پر) اللہ کے حق اور اس کی اطاعت میں (آیت ) ” ویدرءون “ یعنی وہ مدافعت کرتے ہیں (آیت ) ” بالحسنۃ السیئۃ “ نیکی سے برائی کی یعنی وہ برائی کرنے والے کے ساتھ بھی نیکی کرتے ہیں۔ (آیت) ” اولئک لھم عقبی الدار “ یعنی جنت کا گھر ہے ان کے لئے۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ویدرءون بالحسنۃ السیئۃ “ یعنی وہ دفع کرتے ہیں برائی کو نیکی کے ساتھ۔ 3:۔ ابن جریر (رح) نے ابن زید سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ویدرءون بالحسنۃ السیئۃ “ سے مراد ہے کہ وہ برائی کو بھلائی کے ساتھ دفع کرتے ہیں نہیں بدلہ دیتے برائی کا برائی کے ساتھ لیکن اس کو دفع کرتے ہیں خیر کے ساتھ۔ واما قولہ : جنت عدن : 4:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک محل ہے جس کو عدن کہا جاتا ہے۔ اس کے گرد ستون اور چراگاہیں ہیں۔ اور اس کے پانچ ہزار دروازے ہیں ہر دروازہ پر پانچ ہزار آوازیں ہیں اس میں نہیں داخل ہوگا یا اس میں نہیں ٹھہرے گا مگر نبی یا صدیق یا شہید یا امام عادل۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے منبر پر پڑھا (آیت ) ” جنت عدن “ پھر فرمایا اے لوگو ! کیا تم جانتے ہوجنات عدن کیا ہیں (پھر فرمایا وہ ایک محل ہے جنت میں اس کے دس ہزار دروازے ہیں ہر دروازے ہر دروازہ پر پچیس ہزار حورعین ہیں نہیں داخل ہوگا نبی یا صدیق یا شہید۔ 6:۔ عبدالرزاق والفریابی وابن ابی شیبہ وھناد عبد بن حمید وابن منذر وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” جنت عدن “ سے مراد ہے جنت کا درمیانی حصہ۔ 7:۔ سعید بن منصور وابن منذر حسن (رح) سے روایت کیا کہ ” جنت عدن “ اور تو کیا جانتا ہے جنت عدن کیا ہے ؟ پھر فرمایا وہ ایک سونے کا محل ہے نہیں داخل ہوگا اس میں مگر نبی یا صدیق یا شہید یا حاکم انصاف کرنے والا۔ جنات عدن جنت میں ایک شہر ہے : 8:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” جنت عدن “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ جنت کے درمیان ایک شہر ہے اس میں رسول اللہ انبیاء اور آلہ ہدی ہوں گے اور ان کے بعد ان کے اردگرد دوسرے لوگ ہوں گے۔ اور (باقی) جنتن اس کے اردگرد ہیں۔ 9:۔ عبد بن حمید (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ عمر نے کعب سے فرمایا عدن کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ ایک محل ہے جنت میں اس میں نہیں داخل ہوگا مگر نبی یا صدیق یا شہید یا حاکم انصاف کرنے والا۔ 10:۔ ابن مردویہ (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت عدن وہ ایک شاخ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لوٹا پھر اس کو فرمایا ہوجا تو وہ ہوگئی۔ اما قولہ تعالیٰ : جنت عدن یدخلونھا ومن صلح : الآیہ۔ 11:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی جنت میں داخل ہوگا تو کہے گا میری ماں کہاں ہے میری اولاد کہاں ہے میری گھر والی کہاں ہے ؟ اس سے کہا جائے گا انہوں نے تیرے جیسے عمل نہیں کئے ہو کہے گا میں نے عمل کئے تھے اپنے لئے اور ان کے لئے۔ پھر پڑھا (آیت) ” جنت عدن یدخلونھا ومن صلح “ یعنی جو شخص ایمان لایا توحید پر ان کے بعد ” ومن صلح من ابآئھم وازواجھم وذریتہم “ تو یہ لوگ ان کے ساتھ داخل ہوں گے۔ (آیت ) ” والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب، فرمایا وہ فرشتے ان پر داخل ہوں گے ہر دن میں کہ جس کی مقدار دنیا کے دنوں میں سے تین مرتبہ کے برابر ہوگی۔ ان کے ساتھ تحائف ہوں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان کے لئے جنات عدن میں ہوں گے۔ اور ان کو کہیں گے (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم پر (تم نے صبر کیا) (آیت ) ” فنعم عقبی الدار “ یعنی جنت کا گھر کتنا عمدہ ہے۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ وابن ابی جریر وابن منذر وابن حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ومن صلح من ابآئھم “ یعنی جو ایمان لائے دنیا میں۔ 13:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ مومن اس بات سے محبت رکھتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے اہل و عیال کو اور کاموں کو دنیا میں جمع فرمائے تو وہ زیادہ پسند کرتا ہے۔ ان سب کو اس کے لئے جمع کردیا جائے گا آخرت میں۔ 14:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” جنت عدن یدخلونھا ومن صلح “ تلاوت کی اور فرمایا جنت عدن ایک خیمہ ہے۔ جو موتیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جس میں نہ کوئی شگاف ہے اور نہ جوڑ ہے۔ اس کی لمبائی ہوا میں ساٹھ میل ہوگی اور ہر کونے میں اس میں سے اس کے اہل ہوں گے اور مال ہوگا اس کے چار ہزار سونے کے کواڑ ہوں گے اس میں ہر ایک دروازہ پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ہر فرشتے کے پاس رحمن کی طرف سے ہدیہ ہوگا ( یہ ایک اس کے پاس تھا ہدیہ ہوگا کہ اس کی مثل اس کے ساتھی کے پاس نہ ہوگا وہ صاحب خانہ کے پاس داخل نہیں ہوئے۔ اس کی اجازت کے ساتھ اس کے اور فرشتوں کے درمیان پردہ ہے۔ 15:۔ ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جنت والوں میں سے سب سے کم درجے کا وہ جنتی ہوگا کہ اس کا محل کھوکھلے موتی کا۔ اس میں سات ہزار بالاخانے ہوں گے اور ہر بالا خانے کے ستر ہزار دروازے ہوں گے اس میں سے ہر دروازہ سے ستر ہزار فرشتے داخل ہوں گے تحیہ اور سلام کے ساتھ۔ 16:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابوعمران جونی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم “ کے بارے میں فرمایا کہ ( جو تم نے صبر کیا) اپنے دین پر تم پر فنعم عقبی الدارپس اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیچھے تم کو جو جنت عطا فرمائی ہے وہ کتنی عمدہ ہے۔ 17:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم “ یعنی تم نے صبر کیا فضول دنیا۔ 18:۔ ابوالشیخ (رح) نے محمد بن نصر الحارثی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم “ کہ تم پر سلام ہو اس وجہ سے کہ تم دنیا میں فقر پر صبر کرتے رہے۔ جنت میں سب سے پہلے غریب مہاجر داخل ہوں گے ـ: 19:۔ احمد البزار وابن جریر وابن ابی حاتم وابن حیان وابوالشیخ والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ وابو نعیم نے الحلیہ میں ولبیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے اندر سب سے پہلے غریب مہاجرین داخل ہوں گے جن کے ذریعہ سرحدوں کی حفاظت کی گئی اور جن کے ذریعہ ناپسندیدہ حالات سے بچا گیا ان میں سے کوئی ایک فوت ہوتا ہے تو اس کی حاجت اس کے سینے میں ہوتی ہے اور اسے پورا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ جن فرشتوں کو چاہتا ہے فرماتے ہیں فرشتوں سے فرمائیں گے ان کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو فرشتے عرض کریں گے اے ہمارے مالک ہم تیرے آسمان کے رہنے والے اور تیری مخلوق میں سب سے بہترین افراد ہیں کیا آپ ہم کو حکم فرما رہے ہیں کہ ان کو جا کر سلام کرو اللہ فرمائے گا یہ میرے بندے میری عبادت کرتے تھے کسی چیز کو میرا شریک نہیں قرار دیتے تھے انہی کے ذریعہ سے اسلامی سرحدوں کا دفاع کیا گیا اور انہی کے سبب ناپسندیدہ حالات سے بچاؤ کیا گیا اور ان میں سے کوئی فوت ہوتا ہے اور اس کی حاجت ان کے دلوں میں ہوتی ہے۔ دنیا میں ان کی حاجت پوری نہیں ہوئی جب حکم فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور ان پر ہر دروازہ سے داخل ہو کر کہیں گے (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “ 20:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ مومن اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے ہوگا۔ جب جنت میں داخل ہوگا اور اس کے پاس خدام کی دو قطاریں ہوں گے اور ان دو قطاروں کے ایک طرف ایک بند دروازہ ہے جس پر دربان ہے ایک فرشتہ آتا ہے اور اجازت مانگتا ہو تو دروازہ کے قریب والاخادم کہتا ہے کہ فرشتہ اجازت مانگتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ والا کہتا ہے کہ ایک فرشتہ اجازت مانگتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ والا کہتا ہے کہ ایک فرشتہ اجازت مانگتا ہے۔ یہاں تک کہ مومن کے پاس یہ بات پہنچے گی اور وہ کہے گا اس کو اجازت دے دو پھر مومن کے قریب والاخادم کہتا ہے اس کو اجازت دیدو اور وہ خادم دوسرے خادم سے کہتا ہے پھر اس طرح ہر فرشتہ سے کہا جاتا ہے۔ کہ اس کو اجازت دیدو پیغام دروازے کے قریب والے تک پہنچایا جاتا ہے۔ پھر وہ دروازہ کے قریب والے تک پہنچ جاتا ہے پھر وہ دروازہ کھولا جاتا ہے۔ فرشتہ اس میں داخل ہوتا ہے اس کو سلام پیش کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ 21:۔ ابن منذر وابن مردویہ رحمہما اللہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہر سال احد تشریف لاتے تھے جب وادی کے دہانے پر پہنچتے تو شہداء کی قبروں کو سلام کرتے اور فرماتے (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی النار “ 22:۔ ابن جریر (رح) نے محمد بن ابراہیم سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ ہر سال کے شروع میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے تھے (آیت ) ” سلم علیکم بما صبرتم ‘ فنعم عقبی الدار “
Top