Dure-Mansoor - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
ترجمہ : اور ہم نے کہا ات آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہا کرو اور اس میں سے خوب اچھی طرح کھاؤ جہاں سے چاہو، اور نہ قریب جانا اس درخت کے ورنہ تم دونوں ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے
(1) امام طبرانی، ابن ابی شیبہ، ابو الشیخ نے العظمہ میں ابن مردویہ نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے بتائیے کیا آدم (علیہ السلام) انبیاء میں سے تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! نبی (اور) رسول تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے بالمشابہ بات کی، اور ان سے فرمایا لفظ آیت ” یادم اسکن انت وزوجک الجنۃ “ (اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہے) ۔ (2) امام ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! انبیاء میں سے پہلے کون تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) ۔ میں نے عرض کیا کیا وہ نبی تھے ؟ آپ آپ نے فرمایا ہاں جو (اللہ تعالیٰ سے براہ راست) کلام کئے گئے تھے۔ میں نے عرض کیا پھر کون (نبی تھے) ؟ آپ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) اور ان دونوں کے درمیان دس آباء تھے۔ (3) امام احمد، بخاری نے اپنی تاریخ میں، البزار اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! سب سے پہلے نبی کون تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت آدم (علیہ السلام) تھے میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے ؟ فرمایا ہاں ! وہ نبی تھے۔ جو (براہ راست) کلام کئے گئے تھے۔ میں نے (پھر) عرض کیا یا رسول اللہ کتنے رسول تھے آپ نے فرمایا تین سو پندرہ بہت بڑی جماعت تھی۔ (4) امام عبد بن حمید اور الآجری نے الاربعین میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! رسولوں میں پہلے کون تھے ؟ آپ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا وہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) بھیجے ہوئے نبی تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور اپنی روح میں سے اس میں پھونکا اور ان کو (اپنے) سامنے ٹھیک بنا دیا۔ انبیاء (علیہم السلام) کی تعداد (5) امام ابنی ابی حاتم، ابن حبان، طبرانی، حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آدم (علیہ السلام) نبی تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ وہ (اللہ تعالیٰ سے براہ راست) کلام کئے گئے تھے۔ پوچھا ان کے اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دس صدیاں (پھر) اس نے کہا نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ آپ نے فرمایا دس صدیاں پھر اس نے پوچھا یا رسول اللہ ! کتنے انبیاء تھے ؟ آپ نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار (پھر) اس نے پوچھا یا رسول اللہ ! ان میں رسول کتنے تھے ؟ آپ نے فرمایا تین سو پندرہ بہت بڑی جماعت تھی۔ (6) امام احمد، ابن المنذر، طبرانی، ابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ ابوذر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! نبیوں میں کون پہلے تھے ؟ آپ نے فرمایا آدم۔ عرض کیا۔ کیا آدم (علیہ السلام) نبی تھے ؟ فرمایا ہاں وہ نبی تھے جو کلام کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا پھر اس میں اپنی روح کو پھونکا پھر ان سے بالمشافہ فرمایا اے آدم ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! گنتی میں کتنے انبیاء ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار ان میں سے تین سو پندرہ رسول تھے جو بہت بڑی جماعت تھی۔ (7) امام ابن ابی الدنیا نے کتاب الشکر میں، حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں بیہقی نے الشعب میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب ! آدم (علیہ السلام) تیرے احسان کا شکر کیسے ادا کرسکتے تھے آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں اپنی روح کو پھونکا۔ اور ان کو اپنی جنت میں ٹھہرایا پھر فرشتوں کو ان کے لئے سجدہ کرنے کا حکم فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ اس نے یہ تمام احسانات میری طرف سے جان لئے اور ان پر میری حمد کی تو یہ (حمد کرنا) شکر ہوگیا جو میں نے اس کی طرف احسانات کئے۔ (8) امام ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کے دن پیدا فرمایا اور ان کو جمعہ کے دن جنت میں داخل فرمایا اور ان کو جنات الفردوس میں رکھا۔ (9) امام عبد حمید، حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت میں نماز عصر سے غروب آفتاب تک کے وقت کی مقدار ٹھہرے رہے۔ (10) امام عبد الرزاق، ابن المنذر، ابن مردویہ، بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کو عصر کے دن کے بعد سطح زمین سے پیدا فرمایا پھر اس کا نام آدم رکھا۔ پھر اس کی طرف (یعنی ان سے) عہد لیا جب وہ بھول گئے تو ان کا نام انسان رکھا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا پس قسم ہے اللہ کی اس دن سورج غروب نہیں ہوا یہاں تک کہ ان کو جنت سے زمین کی طرف اتار گیا۔ (11) الفریابی، احمد نے الزہد میں، عبد بن حمید اور ابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت میں دن کے کچھ وقت رہے۔ یہ وقت دنیا کے دنوں کے حساب سے ایک سو تیس سال بنتے ہیں۔ (12) امام احمد نے الزہد میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت میں ظہر اور عصر کے درمیانی وقت کی مقدار رہے (13) عبداللہ نے زوائد میں موسیٰ بن عقبہ ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت میں چوتھائی دن رہے۔ اور یہ وقت ڈھائی گھنٹے ہے۔ اور یہ ڈھائی سو سال بنتے ہیں اور جنت میں سو سال روتے رہے۔ واما قولہ ” وزوجک “۔ (14) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء میں والصفات میں اور ابن عساکر نے سدی سے، ابی مالک اور ابی صالح سے انہوں نے ابن عباس ؓ ، ابن مسعود اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) نے جنت میں سکونت اختیار کی، تو وحشت محسوس کی۔ ان کی کوئی بیوی نہیں تھی کہ اس کی طرف سکونت حاصل کرتے۔ جب ایک رات سو کر اٹھے تو اچانک ان کے سر کے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کی پسلی سے پیدا فرمایا تھا۔ اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ کہنے لگی عورت ہوں کہنے لگے تجھے کیوں پیدا کیا گیا ؟ کہنے لگی تاکہ میری طرف سکونت حاصل کرے۔ فرشتوں نے کہا اے آدم اس عورت کا نام کیا ہے ؟ فرمایا حوا کہنے لگے اس کا نام حوا کیوں رکھا گیا فرمایا اس لئے کہ یہ زندہ (آدمی) سے پیدا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یادم اسکن انت وزوجک الجنۃ “ (تو اور تیری بیوی جنت میں ٹھہرو) ۔ (15) سفیان بن عینیہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) سو گئے تو حوا کو ان کی پسلیوں سے پیدا کیا گیا جب جاگے تو اس کو دیکھ کر فرمایا تو کون ہے ؟ کہنے لگی میں اسا ہوں سریانی زبان میں بتایا کہ میں عورت ہوں۔ (16) امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عورتوں کے متعلق مجھ سے خیر کی وصیت قبول کرو بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی اور پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا سر ہے اور تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اس کو توڑ ڈالو گے۔ اور اگر اس کو چھوڑ دو گے تو اس کو اس حال میں چھوڑو کہ اس میں ٹیڑھا پن ہوگا۔ پس تم مجھ سے عورتوں کے متعلق خیر کی وصیت قبول کرو۔ ماں حواء نام رکھنے کی وجہ (17) حضرت ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان کا نام حوا اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ ہر زندہ انسان کی ماں ہے۔ (18) حضرت ابو الشیخ اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان کا نام مرأۃ (یعنی عورت) اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ المرء (یعنی مرد) سے پیدا کی گئی۔ اور ان کا نام حوا اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ ہر زندہ انسان کی ماں ہے۔ ابلیس کا سجدہ کی جگہ سے بھاگنا (19) امام اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تو (وہاں سے) ابلیس پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا اور وہ کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا اس بات کو دیکھنے کے لئے کہ اس کے علاوہ کسی اور نے بھی اپنے رب کی نافرمانی کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے فرشتوں کو بچا لیا پھر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا اے آدم کھڑے ہوجاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو۔ وہ کھڑے ہوئے اور ان کو سلام کیا۔ انہوں نے اس (سلام) کا جواب دیا۔ پھر فرشتوں پر نام پیش کئے گئے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تم یہ گمان کرتے تھے کہ تم اس (آدم) سے زیادہ جاننے والے ہو تو لفظ آیت ” نبؤنی باسماء ھولاء ان کنتم صدقین (31) قالوا سبحنک “ بلاشبہ علم آپ کی طرف سے ہے اور آپ کے لئے ہے۔ اور ہمارے پاس کوئی علم نہیں مگر جو کچھ آپ نے ہم کو سکھایا۔ جب انہوں نے اس بات کا اقرار کیا تو پھر فرمایا لفظ آیت ” یادم انبءھم باسماءھم “ (ان کو ان چیزوں کے نام بتلا) آدم (علیہ السلام) نے کہا یہ اونٹنی ہے یہ اونٹ ہے، یہ گائے ہے، یہ دنبہ ہے، یہ بکری ہے، یہ گھوڑا ہے، اور یہ میرے رب کی مخلوق میں سے ہے۔ پس ہر چیز جس کا نام آدم (علیہ السلام) نے لیا قیامت کے دن تک وہی اس کا نام رہے گا۔ اور انہوں نے ہر چیز کا نام لینا شروع کیا جب ان کے سامنے سے گزرتی تھی یہاں تک کہ گدھا آخری تھا جو آپ کے سامنے سے گزرا۔ گدھا ان کی پیٹھ کے پیچھے سے آیا آدم (علیہ السلام) نے اسے کہا : اے گدھے آگے سے آ۔ فرشتوں نے جان لیا کہ آدم (علیہ السلام) اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والے اور ہم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ پھر ان کے رب نے ان سے فرمایا اے آدم جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اور وہاں عزت اور آرام کی زندگی بسر کرو۔ وہ جنت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت حوا کی پیدائش سے پہلے اس درخت سے منع فرما دیا۔ آدم (علیہ السلام) جنت میں کسی مخلوق سے مانوس نہ تھے۔ اور نہ اس کے پاس ٹھہرے تھے۔ اور جنت میں کوئی چیز اس کی ہم شکل نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند ڈال دی اور یہ ان کی پہلی نیند تھی۔ (پھر) ان کی بائیں جانب کی پسلی سے حضرت حوا کو پیدا فرمایا۔ جب آدم (علیہ السلام) نیند سے بیدار ہوئے اور اٹھ کر بیٹھے تو حضرت حوا کی طرف دیکھا جو ان کے ہم شکل اچھی صورت میں تھی۔ اور ہر عورت کی ایک پسلی مرد کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ہر چیز کے نام سکھا دئیے۔ ان کے پاس فرشتے آئے ان کو مبارک باد دی اور سلام کیا۔ فرشتوں نے کہا اے آدم یہ کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ عورت ہے پھر ان سے پوچھا اس کا نام کیا ہے انہوں نے فرمایا حوا پھر اس سے کہا کہ اس کا نام حوا کیوں رکھا گیا انہوں نے فرمایا اس لئے کہ وہ زندہ (آدمی) سے پیدا کی گئی۔ پھر ان دونوں میں اللہ تعالیٰ کی روح پھونکی گئی۔ پس انسان جو کسی چیز پر رحمت کرتا ہے وہ اس کی رحمت کے فضل میں سے ہے۔ (20) امام ابن ابی حاتم نے اشعث حدانی سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت حوا (علیہما السلام) جنت کی عورتوں میں سے تھیں اور جب وہ حاملہ ہوتیں مذکر سے یا مؤنث سے تو بچہ ان کے پیٹ میں دکھائی دیتا تھا۔ (21) امام ابن عبدی اور ابن عساکر ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ جب آدم کو پیدا فرمایا اور ان کے لئے ان کی بیوی کو بھی پیدا فرمایا تو آدم (علیہ السلام) کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اور ان کو جماع کا حکم فرمایا انہوں نے ایسا ہی کیا جب وہ (جماع سے) فارغ ہوئے۔ حوا (علیہما السلام) نے ان سے کہا اے آدم یہ خوشبو ہے ہم اس سے زیادہ کریں۔ وما قولہ تعالیٰ : وکلا منھا رغدا۔ (22) امام ابن جریر اور ابن عساکر نے حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ ” الرغد “ سے مراد ہے ھنیئی یعنی خوشگوار مبارک۔ (23) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الرغد “ سے مراد ہے سعۃ المعیشۃ یعنی کشادہ گزران۔ (24) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وکلا منھا رغدا حیث شئتما “ سے مراد ہے کہ تم دونوں ان سے جتنا چاہو کھاؤ تم پر کوئی حساب نہیں۔ اما قولہ تعالیٰ : ” ولا تقربا ھذا الشجرۃ “۔ (25) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن عساکر نے کئی طرق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ درخت جس سے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو منع فرمایا تھا وہ سنبلہ تھا۔ اور دوسرے لفظ میں وہ گیہوں تھا۔ (26) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ درخت جس سے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو منع فرمایا تھا گندم کا تھا لیکن اس میں سے ایک دانہ جنت میں (ایسے تھا) جیسے گائے کے دو گردے۔ مکھن سے زیادہ نرم اور شہد سے زیادہ میٹھا۔ (27) امام وکیع، عبد ابن حمید، ابن جریر، اور ابو الشیخ نے ابو مالک غفاری (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقربا ھذہ الشجرۃ “ سے گندم کا درخت مراد ہے۔ (28) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس درخت سے آدم (علیہ السلام) کو منع کیا گیا تھا وہ انگور تھا۔ ابن مسعود ؓ نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ آزمائش والا درخت (29) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ حضرت وکیع، ابن سعد، ابن جریر اور ابو الشیخ نے جعدہ بن ہیرہ سے روایت کیا کہ وہ درخت جس کے ساتھ آدم (علیہ السلام) کو آزمائش میں ڈالا گیا تھا وہ انگور تھا۔ اور اس کے بعد اس کی اولاد کے لئے بھی آزمائش بن گیا اور اس میں سے آدم (علیہ السلام) نے جو کھایا تھا۔ (30) امام ابن جریر (رح) ابن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ بادام تھا۔ میں نے کہا اسی طرح قدیم نسخہ میں ہے اور میرے نزدیک الکرم (انگور) سے اس کو تبدیل کیا گیا۔ (31) امام ابو الشیخ نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقربا ھذہ الشجرۃ “ کے بارے میں جو بات مجھے پہنچتی ہے کہ وہ انجیر ہے۔ (32) ابن جریر (رح) بعض صحابہ ؓ سے رایت کرتے ہیں کہ وہ انجیر مراد ہے۔ (33) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ انجیر مراد ہے۔ (34) ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقربا ھذا الشجرۃ “ سے مراد کھجور ہے۔ (35) ابو الشیخ نے یزید بن عبد اللہ قسیط (رح) سے روایت کیا کہ وہ لیموں تھا۔ (36) احمد نے الزہد میں شعیب حیائی (رح) سے روایت کیا کہ وہ درخت جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) کو منع کیا تھا وہ گندم کے مشابہ تھا جس کو رعۃ کہا جاتا ہے۔ اور ان کا لباس نور کا تھا۔ (37) امام ابن ابی حاتم نے اور ابو الشیخ نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ درخت ایسا تھا کہ جو وہ کھاتا ہے اس کو پاخانہ لگ جاتا ہے اور جنت میں پاخانہ نہیں ہونا چاہئے۔ (38) حضرت ابن ابی حاتم نے حضرت قتادہ (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” ولا تقربا ھذہ الشجرۃ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو آزمایا تھا اس سے پہلے فرشتوں کو آزمایا گیا تھا۔ اور ہر مخلوق کو آزمائش میں ڈالا گیا۔ (اور) اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی مگر اس کو اطاعت کے ساتھ آزمایا۔ آدم (علیہ السلام) برابر آزمائش میں مبتلا رہے یہاں تک کہ اس چیز میں واقع ہوگئے جس سے منع کیا گیا تھا۔ (39) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو آزمایا اور ان کو جنت میں ٹھہرایا اس میں سے جہاں سے چاہتے خوب اچھی طرح کھاتے۔ اور ایک درخت سے منع فرمایا کہ اس میں سے نہ کھائیں مگر اس (درخت) کے قریب پہنچے۔ یہ آزمائش ان کے ساتھ برابر رہی یہاں تک کہ اس چیز میں واقع ہوگئے جس سے منع کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی شرم گاہ ظاہر ہوگئی۔ حالانکہ آپ شرم گاہ کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے پھر آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا گیا۔
Top