Dure-Mansoor - Al-Qasas : 47
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہوتا اَنْ تُصِيْبَهُمْ : کہ پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا قَدَّمَتْ : اس کے سبب۔ جو بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ (ان کے اعمال) فَيَقُوْلُوْا : تو وہ کہتے رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَوْلَآ : کیوں نہ اَرْسَلْتَ : بھیجا تونے اِلَيْنَا : ہماری طرف رَسُوْلًا : کوئی رسول فَنَتَّبِعَ : پس پیروی کرتے ہم اٰيٰتِكَ : تیرے احکام وَنَكُوْنَ : اور ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور ہم رسول نہ بھیجتے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان پر مصیبت آجاتی تو یہ کہنے لگتے کہ اے ہمارے رب ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا تاکہ ہم آپ کی آیتوں کا اتباع کرلیتے اور ایمان لانے والوں میں سے ہوجاتے
زمانہ فترت کے لوگوں کی عذر خواہی 1۔ ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نبوت کے منقطع ہونے کے زمانہ میں ہلاک ہونے والا کہے گا اے میرے رب میرے زمانہ میں کوئی کتاب آئی اور نہ کوئی رسول آیا۔ پھر یہ آیت پڑھی آیت فیقو لوا ربنا لو لا ارسلت الینا رسول فنتبع اٰیتک ونکون من المومنین یعنی اے ہمارے رب تو نے ہمارے پس کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے احکام پر چلتے اور ایمان والوں میں سے ہوجاتے 2۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ انے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فلما جاء ہم الحق من عندنا قالوا لولا اوتی مثل ما اوتی موسیٰ ، اولم یکفروا بما اوتی موسیٰ من قبل قالوا سحران تظہرا وقالوا ان بکل کفرون۔ یعنی پھر جب ان کے پاس حق قرآن یا پیغمبر ہمارے پاس سے آگیا تو کہنے لگے اس پیغمبر کو ایسا معجزہ کیوں نہیں دیا گیا جیسا کہ موسیٰ کو دیا گیا تھا کیا موسیٰ کو جو کچھ پہلے دیا گیا تھا اس کا انہوں نے انکار نہیں کیا تھا اور کہا تھا یہ دونوں جادوگر ہیں جو باہم متفق ہوگئے ہیں اور کفروں نے کہا ہم اند دونوں موسیٰ و ہارون میں سے ہر ایک کے منکر ہیں۔ اس سے مراد اہل کتاب ہیں دو کتابوں تورات اور فرقان کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت قل فاتوا بکتب من عنداللہ ہو اہدی منہما اتبعہ ان کنتم صدقین۔ یعنی فرمادیجیے لے آؤ تم ایک کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو زیادہ ہدایت والی ہو ان دونوں سے کہ میں اس پر چلو اگر تم سچے بولنے والے ہو۔ 3۔ الفربیابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت لولا اوتی مثل ما اوتی موسیٰ کیوں نہیں دئیے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) دئیے گئے یعنی معجزات۔ یہودیوں نے قریش کو حکم دیا کہ وہ محمد ﷺ سے یہ سوال کریں آیت مثل ما اوتی موسیٰ سے لے کر من قل۔ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ سے فرمایا آپ قریش سے کہہ دیجیے کہ وہ ان کے لیے کہتے ہیں آیت اولم یکفروا بما اوتی موسیٰ من قبل، قالوا سحران تظہرا۔ یعنی پھر انہوں نے کیوں کفر کیا اس چیز کے ساتھ جو موسیٰ دئیے گئے پہلے سے اور انہوں نے کہا کہ آپ دونوں جادوگر ہیں جو باہم متفق ہوگئے ہیں فرمایہ قول تھا یہودیوں کا موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے بارے میں آیت وقالوا انا بکل کفرو۔ اور انہوں نے کہا ہم ہر ایک کا انکار کرنے والے ہیں فرمایا کہ یہودیوں نے اس کا بھی انکار کیا جو محمد ﷺ کو عطا کیا گیا۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت اولم یکفروا بما اوتی موسیٰ من قبل یعنی کیا انہوں نے نے انکار نہیں کیا جو موسیٰ پہلے سے لے آئے محمد ﷺ کی بعثت سے پہلے 5۔ الطبرانی نے ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ وہ آیت قالوا سحران تظہرا پڑھتے تھے 6۔ الفریابی واعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ یوں پڑھتے تھے آیت قالوا سحران تظہرا، یعنی موسیٰ اور ہارون علیہما السلام۔ 7۔ عبد بن حمید ولبخاری فی تاریخہ وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت سحران تظہرا الف کے ساتھ پڑھا فرمایا اس سے مراد ہیں موسیٰ اور محمد (علیہما السلام) 8۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا اس کو یوں پڑھتے تھے آیت قالوا سحران تظہرا۔ اور وہ دونوں کتابیں مراد ہیں۔ 9۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے رویت کیا کہ آتی قالوا سحران تظہرا یعنی تورات اور فرقان 10۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت قالوا سحران تظہرا یعنی تورات اور فرقان جبکہ تصدیق کی ان میں سے ہر ایک کتاب نے صاحب کتاب کی۔ 11۔ ابن ابی حاتم نے عاصم جحدری (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت قالوا سحران تظہرا اور فرماتے تھے کہ اس سے دو کتابیں تورات اور فرقان مراد ہیں کیا نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت قل فاتوا بکتب من عنداللہ ہو اہدا منہما یعنی لے آؤ تم ایسی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہے۔ 12۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) علیہ سے روایت کیا کہ اگر وہ نبی ﷺ کا ارادہ کرتے تو نہ کہتے آیت فاتوا بکتب من عنداللہ ہو اہدی منہما اتبعہ تم لے آؤ اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب جو زیادہ ہدایت والی ہو ان دونوں سے تاکہ میں اس پر چلوں اور اس سے دونوں کتابوں کا ارادہ کیا۔ 13۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو رزین ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت سحران تظہرا اور کہتے تھے کہ یہ دو کتابیں ہیں تورات اور انجیل۔ 14۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت قالوا سھران تظہرا کے بارے میں فرمایا کہ یہ قول ہے اللہ کے دشمن یہودیوں کا انجیل اور قرآن کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ دونوں کتابیں جادو کی ہیں جو ایک دوسرے سے تفق ہیں پھر فرمایا جس نے اس کو ساحران پڑھا تو وہ اس سے محمد اور عیسیٰ (علیہما السلام) مراد لیتا ہے۔ 15۔ عبد بن حمید نے عبدالکریم ابو امیہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عکرمہ ؓ کو آیت سحران پڑھتے ہوئے سنا یہ بات میں نے مجاہد کو بتائی تو انہوں نے کہا بندے نے جھوٹ بولا میں نے ابن عباس ؓ کے سامنے اس کو آیت سحرن پڑھا انہوں نے مجھ پر کوئی عیب نہیں لگایا۔ 16 عبدالرزاقو ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پودھا اور وہ رکن دروازہ اور ملتزم کے درمیان عکرمہ کے بازو پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میں نے عرض کیا آیت قالوا سحران تظہرا ہے یا ساحران ہے میں نے ان سے بارہا کہا تو عکرمہ نے فرمایا آیت سحران تظہرا ہے اے آدمی چلا جا۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ وقالوا انا بکل کفرون میں کل سے مراد تورات اور قرآن ہے۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت وقالوا انا بکل کفرون میں کل سے مراد وہ چیز ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) لے آئے اور جو عیسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے کافروں نے کہا ہم ہر ایک کے منکر ہیں۔
Top