بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے ہواؤں کی جو (غبار وغیرہ کو) اڑاتی ہیں
1:۔ عبدالرزاق والفریابی و سعید بن منصور والحارث بن ابی اسامہ وابن جریر وابن المنذر ابن ابی حاتم (رح) وابن الانباری فی المصاحف والحاکم (وصححہ) والبیہقی (رح) نے شعب الایمان میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' والذریت ذروا '' (قسم ہے ان ہواؤں کی جو خاک وغیرہ اڑاتی ہیں) یعنی ہوائیں (آیت ) '' فالحملت وقرا '' (پھر ان بادلوں کی جو بارش کا بوجھ اٹھاتے ہیں یعنی بادل (آیت ) '' فالجریت یسرا '' (پھر ان کشتیوں کی جو نرمی سے چلتی ہیں) یعنی کشتیاں (آیت ) '' المقسمت امرا '' پھر ان فرشتوں کی جو حکم کے موافق تقسیم کرتے ہیں) یعنی فرشتے۔ 2:۔ البزار والدارقطنی فی الافراد وابن مردویہ وابن عساکر (رح) نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ صبیغ تمیمی حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اور کہا مجھے بتایئے (آیت ) '' والذریت ذروا '' کے بارے میں فرمایا وہ ہوائیں ہیں اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ نہ سنا ہوتا تو میں نہ کہتا پھر پوچھا مجھے (آیت ) '' فالحملت وقرا '' کے بارے میں بتائیے، فرمایا اس سے بادل مراد ہیں اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو یہ نہ کہتا پھر پوچھا (آیت ) '' فالجریت یسرا '' کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا کشتیاں مراد ہیں اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو یہ نہ کہتا پھر پوچھا مجھے (آیت ) '' فالمقسمت امرا '' کے بارے میں بتائیے فرمایا وہ فرشتے مراد ہیں اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو یہ نہ کہتا پھر حکم دیا کہ اس کو (یعنی صبیغ) تمیمی کو سوکوڑے مارو اور اس کو گھر میں رکھا جب وہ صحت یاب ہوگیا تو (پھر) ان کو بلوایا اور اسے دوسری بار سو کوڑے لگائے اور اس کو اونٹ پر سوار کیا اور ابوموسی اشعری ؓ کو لکھا کہ لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے سے روک دو ۔ وہ اسی طرح کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ابو موسیٰ ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے سخت قسم کھائی کہا کہ وہ اپنے دل میں کئی چیز نہیں پاتا ان چیزوں میں سے جو کچھ وہ پہلے پاتا تھا چناچہ انہوں نے اس بارے میں عمرکو لکھا تو انہوں نے جواب بھیجا کہ فراست اور دانائی سے اس کا پتہ لگا لو کہ اس نے سچ کہا ہے پھر لوگوں کو اس کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دو ۔ 3:۔ الفریابی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ صبیغ تمیمی (رح) نے عمر بن خطاب ؓ سے (آیت ) '' والذریت ذروا ''، والمرسلت عرفا، اور '' والنزعت غرقا ' کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر نے فرمایا نے فرمایا اپنے سر کو کھول دے تو آپ نے دیکھا سرکو اس کی دو منڈھیاں تھیں پھر عمر نے فرمایا اللہ کی قسم اگر میں تجھ کو سرمنڈا ہواپاتا تو تیری گردن ماردتیا پھر ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ کوئی مسلمان اس کے قریب نہ بیٹھنے اور نہ کوئی اس سے بات کرے۔ 4:۔ الفریابی (رح) وابن المنذر (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے (آیت ) '' الذاریات ذروا '' کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا اس سے ہوائیں مراد ہیں (آیت ) '' فالحملت وقرا '' سے مراد ہیں بادل (آیت ) '' فالجریت یسرا '' سے کشتیاں مراد ہیں۔ 5:۔ ابن جریر (رح) وابن نصر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' کانوا قلیلا من الیل ما یھجعون '' (کہ وہ رات کو کم سوتے تھے) سے مراد ہے کہ وہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے۔
Top