بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے اڑنے والی ہوائوں کی
ترکیب : والذاریات الو او للقسم ذروا منصوب علی انہ مصدر۔ یقال ذرت الریح التراب تذر وہ ذر وا و آذرتہ تذریہ ذریا۔ فالحاملات عطف علی الذاریات و قس علیھا البواقی۔ و قرا قرء الجمہور بکسر الوا و فھو اسم اقیم مقام المصدر کما یقال ضربہ سوطا۔ او مفعول بہ کما یقال حمل فلاں عدلا ثقیلا (کبیر) و قریٰ بفتح الواو علی انہ مصدر یسرا منصوب علی انہ صفۃ مصدر تقدیرہ جریا ذا یسر امرا منصوب علی انہ مفعول بہ کمایقال فلاں قسم الرزق او حال انما تو عدون جواب القسم و ما مصدریۃ او موصولۃ، یوفک عنہ الضمیر الرسول ( علیہ السلام) اوالقرآن او الایمان۔ یوم ھم منصوب علی الظرفیۃ والناصب یقع۔ وقیل موضعہ رفع، ھم مبتدء یفتنون خبرہ۔ آخذین حال مایہجعون خبر کانوا قلیلا من اللیل ظرف ای فی قلیل من اللیل۔ تفسیر : یہ سورة بھی مکیہ ہے۔ ابن عباس و ابن زبیر ؓ کا یہی قول ہے۔ اس میں بیشتر امہات المقاصد و اہم المسائل حشر و توحید و نبوت مذکور ہیں۔ سورة ق میں دلائل سے حشر کا اثبات کیا تھا، مگر جہلا کی عادت ہے کہ وہ دلائل میں غور نہیں کرتے، پھر ان کے یقین دلانے کے جو طرز ہیں اسی طور پر ان سے کلام کیا جاتا ہے۔ عرب میں گو صدہا عیب تھے، مگر ایک یہ ہنر بھی تھا کہ وہ جھوٹ بولنے کو اور خصوصاً قسم کھاکر جھوٹ بولنے کو بہت برا سمجھتے تھے اور ان کا یقین تھا کہ جو کوئی قسم کھاکر جھوٹ بولتا ہے برباد ہوجاتا ہے، اس لیے قسم کھاکر بات کہنے سے ان کو یقین آجاتا تھا، اس لیے ان مسائل کا خدا تعالیٰ ان چند چیزوں کی قسم کھاکر حق ہونا بیان فرماتا ہے اور قسم بھی ان چیزوں کی کھائی جو بنفسہ ایک ایک اثبات حشر کے لیے برہان قاطع ہو۔ فقال والذاریات ذرو افالحاملات و قراء فالجریات یسرًا فالمقسمات امرًا کہ ان چار چیزوں کی قسم ہے۔ انما تو عدوں لصادق وان الدین لواقع کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ سچ ہے اور جزاء و سزا کا دن یعنی قیامت کا ضرور آنے والا ہے۔ مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ چار چیزیں کیا ہیں ؟ بعض کہتے ہیں چاروں سے ایک ہی چیز اس کے صفات مختلفہ کے لحاظ سے مراد ہے، پھر اس میں بھی دو قول ہیں۔ بعض کہتے ہیں سب سے ہوائیں مراد ہیں۔ ذاریات وہ ہوائیں جو غبار اڑاتی ہیں، جن سے اخیر میں بادل پیدا ہوتے ہیں اور حاملات و قرا بوجھ اٹھانے والی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو لیے پھرتی ہیں، جو پانی کے خزانے ہیں اور اسی لیے بادلوں کو بوجھل کہا گیا اور الجاریات یسرا سے بھی وہ ہوائیں مراد ہیں جو پانی برسنے کے وقت نرم نرم چلا کرتی ہیں۔ المقسمات امرا سے بھی مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو برسنے کے بعد ادھر ادھر لے جاکر پانی تقسیم کردیتی ہیں، ان ہوائوں کی قسم کھانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انتظام عالم جس نے ان سے اس طرح مربوط کیا ہے جو عقل میں نہیں آتا (کہ ہوائیں اجزائِ ارضیہ کو بکھیرتی ہیں اور پھر وہی جو سماء میں جمع کرتی ہیں۔ بادلوں کو پھر وہی نرم نرم چل کر موقع پر پہنچاتی ہیں۔ پھر وہی تفریق کرتی ہیں) وہ انسان کے اجزائِ متفرقہ جمع کرنے پر بھی قادر ہے۔ بعض کہتے ہیں سب سے ملائکہ مراد ہیں جو ان خدمات پر مامور ہیں اور ایک گروہ کہتا ہے ان چاروں سے چار جدا جدا چیزیں مراد ہیں۔ جن سے انتظام عالم مربوط ہے۔ ذاریات سے مراد ہوائیں حاملات و قرا سے مراد بادل، جاریات یسرا سے مراد کشتیاں جو دریا میں نرم نرم چلا کرتی ہیں۔ مقسمات امراء سے مراد ملائکہ ہیں۔ اس کے بعد کرئہ ارضی اور جمیع عناصر کو جو چیز محیط ہے اس کی قسم کھاکر ایک اور بات بیان فرماتا ہے۔ والسماء ذات الحبک حبک حبیکہ کی جمع ہے جس کے معنی طریق کے ہیں۔ قوی تر یہ ہے کہ آسمانوں میں جو ستاروں سے مختلف راہیں سی نظر آیا کرتی ہیں، وہ حبک ہیں۔ جال سے پڑے ہوئے دکھائی دیا کرتے ہیں کہ ایسے آسمان کی قسم اے کفار تم خود اختلاف میں پڑے ہوئے ہو، تم میں سے کوئی محمد ﷺ کو شاعر کہتا ہے، کوئی ساحر کوئی کاہن، کوئی دیوانہ جس طرح آسمان میں ستاروں سے مختلف رستے اور جال نظر آتے ہیں، اس طرح تمہاری باتیں مختلف ہیں۔ یہ لطیفہ ہے۔ ذات الحبک کہنے میں تمہارا یہ اختلاف ثابت کرتا ہے کہ تم کو کسی بات کا یقین نہیں۔ تمہاری تخمینی باتیں ہیں جو اوہام فاسدہ پر مبنی ہیں، پھر فرماتا ہے۔ یؤفک عنہ من افک قرآن یا نبی سے وہ ہی شبہ کرتا ہے، جس کو ازلی تقدیر نے شبہ کے ظلمات میں ڈال رکھا ہے۔ قتل الخراصون الذین ھم فی غمرۃ ساھون۔ خرص کھجور کے اوپر کے چھواروں کا اندازہ کرنا کہ اتنے من ہوں گے۔ اس جگہ مراد ہے۔ اٹکلیں دوڑانا۔ ابن الانباری کہتے ہیں جب قتل کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دیا جاوے تو اس کے معنی ہوں گے لعنت کے ‘ غمرہ غفلت۔ فرماتا ہے کہ ان اٹکل دوڑانے والوں پر لعنت ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے آخرت کو بھولے ہوئے ہیں اور پوچھتے ہیں۔ ایان یوم الدین کب ہے۔ روز جزا ؟ بطور تمسخر کے، اب آپ ہی بتاتا ہے۔ یوم ھم علی النار یفتنون کہ وہ دن ہے کہ جس روز وہ آگ میں جلائے جاویں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ ذوقوا فتنتکم ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون اپنے عذاب کو چکھو یہ ہے وہ کہ جس کی تم دنیا میں جلدی کیا کرتے تھے۔ حشر کے برحق ہونے پر قسم کھاکر وہاں جو کچھ بدون خصوصاً منکرین حشر کا حال ہوگا۔ اس کو یہاں تک بیان فرمایا، اب نیکوں کا حال بیان فرماتا ہے۔ ان المتقین فی جنات و عیون آخذین ما اتاھم ربہم کہ پرہیز گار لوگ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں چشمے جاری ہیں، اپنے رب کی نعمتیں حاصل کریں گے، پھر اس کا سبب بیان فرماتا ہے کہ کس وجہ سے وہ اس سعادت کے مستحق ہوئے ؟ انہم کانوا قبل ذلک محسنین کہ وہ اس سے پہلے یعنی دنیا میں نیک تھے۔ احسان بڑا وسیع المعنی لفظ ہے جو ہر ایک قسم کی نیکی کو شامل ہے۔ ایمان سے لے کر اعمال صالحہ تک اور اللہ کی عبادت اور بندوں کے ساتھ بھلائی کرنے تک۔ اب قدرے ان کی نیکی کی شرح بھی کرتا ہے۔ کانوا قلیلا من اللیل مایہجعون (الہجوع النوم باللیل) یعنی رات کو عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے، اس لیے بہت کم سوتے تھے، اس سے مراد یہ ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ رات بھر تو یہ کام کرتے تھے۔ و بالاسحارھم یستغفرون صبح کو خدا سے اپنے قصور عبادت کی بابت معافی مانگتے تھے، رات کی عبادت سے غرور نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر بھی اپنے کو خطا وار سمجھتے تھے۔ بندگی اس عجز و نیاز کا نام ہے۔ یہ تو تعظیم امر اللہ تھی اور خلق اللہ کے ساتھ ان کا یہ حال تھا۔ و فی اموالہم حق للسائل و المحروم کہ ان کے مال میں سائل کا بھی حصہ تھا اور نہ مانگنے والے کا بھی یعنی سب کو للہ دیا کرتے تھے۔ محروم کے معنی ہیں ممنوع کے ‘ یہ لفظ عام ہے نہ سوال کرنے والے کو بھی اور آفت رسیدہ کو بھی اور اپاہج کو بھی اور جس کا کچھ حق نہیں اس کو بھی شامل ہے۔
Top